عدل وانصاف ہر معاشرے میں امن
و خوشحالی کے لئے بے حد اہمیت رکھتا ہے اور بہت سے مسائل اس کی بدولت پروان
نہیں چڑھ سکتے ہیں۔ لیکن اگر معاشرے میں عدل وانصاف کی فراہمی نہ ہو تو
معاشرے کے اندر بدامنی اور انتشار پھیل جاتا ہے۔ تاریخ بھی اس بات کی گواہ
ہے کہ جن حکمران نے اس کی اہمیت و قدر کو سمجھ کر لوگوں کو انصاف کی فراہمی
ممکن بنائی ان کا اقتدار کا دورانیہ دیگر حکمرانوں کی نسبت زیادہ رہا ہے۔
اور اسلام کی تعلیمات بھی عدل وانصاف کی فراہمی پر بہت زور دیتی ہیں۔
لیکن بدقسمتی سے قیام پاکستان سے لے کر آج تک پاکستان میں عدل وانصاف کی
فراہمی کسی بھی حکومت کی ترجیح نہیں رہی ہے اورآزاد عدلیہ کا خواب دیکھنے
والے حسرت دل میں لئے ہی اس جہاں سے رخصت ہوگئے۔ پاکستان میں بہت سے کیسز
میں عدل وانصاف کی بجائے قائداعظم کے نوٹ کی قدر کے مطابق فیصلے کیے جاتے
رہے ہیں ۔ سپریم کورٹ میں تو بہت کم کیسز جا پاتے ہیں اور بہت سے تو نچلی
عدالتوں میں ہی دم توڑ دیتے ہیں یا ان کے پیرو کار ہی اس سے جان چھڑوا لیتے
ہیں۔
بالاخر حکومت نے نہ چاہتے ہوئے بھی چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو بحال
کرنے کا فیصلہ کر دیا ہے اور ان کی بحالی پر پورے ملک میں جشن منایا جا رہا
ہے اگرچہ ان کے بارے میں بھی بہت سی باتیں اڑائی گئی ہیں لیکن مجموعی طور
پر ان کی ساکھ مضبوط ہے اور ان کا ماضی جو کچھ لوگوں کے لئے سوالیہ نشان
بنا ہوا ہے اس کی وہ یقینی طور پر عمدہ عدل و انصاف پر مبنی فیصلوں سے چند
ناعاقبت اندیش لوگوں کو ضرور چپ کر وا دیں گے۔ ان کی بحالی میں وکلا اور
دیگر سیاسی جماعتوں اور عوام نے کافی قربانی دی ہے اور اب وہ ان سے عدل
وانصاف پر مبنی فیصلوں اورآزاد عدلیہ کے قیام کے لئے اقدامات کے منتظر ہیں۔
کیونکہ جب تک پاکستان میں آزاد عدلیہ کا قیام ممکن نہیں ہوگا اس وقت تک
پاکستان بھی مستحکم نہیں ہو سکتا ہے اور ابھی صرف چیف جسٹس کی بحالی سے ہی
پاکستان کو اچھی نظروں سے دنیا بھر میں دیکھا جا رہا ہے اور یقینی طور پر
آزاد عدلیہ کے قیام کے بعد پاکستان کی ساکھ اور اچھی ہوگی۔ کیونکہ بعض
سیاسی بنیادوں پر مبنی فیصلے پہلے ہی دنیا بھر میں اچھی نگاہ سے نہیں دیکھے
گئے ہیں۔اور اب قوم مزید اس طرح کے فیصلوں کی متحمل نہیں ہو سکتی ہے۔ لہذا
پاکستان کے عوام اب چیف جسٹس صاحب اور ان کے ساتھیوں سے آزاد عدلیہ اور عدل
وانصاف کی توقع کر رہی ہے جس کا جواب آنے والے وقت پر منحصر ہے؟ |