پونے پانچ سال کا طویل عرصہ بیت
گیا ہے ملک میں انتخابات ہوئے اور اب چند ہی روز باقی ہیں نئے چناﺅ میں۔
اگر پچھلے پونے پانچ سالوں کا احاطہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ حکومتِ وقت
نے چند اچھے کام بھی انجام دیئے ہیں جیسا کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں
میں ہر بجٹ میں اضافہ ، ہاں یہ اور بات ہے کہ مہنگائی کی شرح اس سے دگنا ہی
رہا ہے۔ اور غریب الوطن عوام آج بھی کسمپرسی میں مبتلا ہیں۔ اٹھاہوریں
ترمیم بھی لے آئے مگر اس سے بھی عوام کو کوئی فائدہ نہیں کیونکہ عوام کو
فائدہ تو جب پہنچے گا جب نوکریاں ملیں گی، روزگار کے مواقعے پیدا ہونگے،
مہنگائی کی شرح تناسب گراوٹ کی طرف آئے گا، ملک میں امن و امان ہوگا تو یہ
سب کچھ میسر ہو سکے گا۔ مگر اب موجودہ حکومت کے پاس چند ہی دن بچے ہیں شاید
اس کے بعد کیئرٹیکر حکومت نے چارج سنبھالنا ہے ۔ حکومتِ وقت اور ان کے
وزرائ، مشیران کو اگر اگلے الیکشن میں جیتنا ہے تو چند عوامی اور بنیادی
کاموں کو از سرِ نو دیکھنا ہوگا اور فوری طور پر لاگو بھی کرنا پڑے گا تب
شاید عوام ان کی طرف نگاہِ کرم کر یں ورنہ جو روز افزوں لوگوں سے ملاقات
اور بات چیت ہوتی ہے اس سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ ہر کوئی کسی نہ کسی
الجھن کا شکار ہے اور موجودہ حکومت سے خائف بھی۔
ان دنوں نہ صرف ملک میں بے روزگاری ایک بڑامعاشی اور معاشرتی مسئلہ بن گیا
ہے ۔ صرف دیہی علاقوں میں نہیں بلکہ شہری علاقوں کے لوگ بھی اس مسئلے سے دو
چار ہیں۔ بے روزگاری کا مسئلہ نہ صرف تعلیم یافتہ لوگوں کا مسئلہ بن گیا ہے
بلکہ کروڑوں کی تعداد میں مزدور کسان اور ناخواندہ لوگ بھی اس کا شکار ہیں۔
اس مسئلے کی وجہ سے نہ صرف ملک کا امن تباہ ہو رہا ہے بلکہ قومی یکجہتی پر
بھی بُرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ روزی کے ستائے ہوئے طبقہ کے لوگ روز صبح
دعائے خیر کرتے ہیں کہ آج یقیناً روزگار مل جائے گا مگر ایسا ہوتا نہیں ہے
۔ حکومت کو چاہیئے کہ فی الفور اس مسئلے کی طرف توجہ دے کر اسے حل کرے تاکہ
عوام الناس اس سے مستفید ہوں اور آپ کی جئے جئے گار کا ذریعہ بھی بن جائیں۔
دوسری اہم اور فوری توجہ طلب مسئلہ ہے امن و امان کا ، جس پر اعلیٰ عدلیہ
بھی وقتاً فوقتاً ایکشن میں نظر آتی ہے مگر پتہ نہیں کیوں ان کے حکم ناموں
پر عمل در آمد ہوتا ہے یا نہیں ان کے فیصلے کا ثمر عوام تک کیوں نہیں پہنچ
پاتا یہ بھی دیکھنے اور سوچنے اور پھر اس پر عمل در آمدکرانے کا مقام آ گیا
ہے۔ پیٹرول کی قیمت ابھیتک تین Figure میں ہی ہے ۔اسے پہلی فرصت میں دو
Figureمیں لایا جائے تاکہ تمام اشیاءپر مہنگائی کو کم کرنے میں مدد مل
سکے۔ایسے مخلص اور عوام دوست رہنماﺅں کی کمیٹی بنا کر حکومت اس مسئلے کو حل
کر سکتی ہے تو انتخابات میں انہیں خاطر خواہ نتائج نظر آئیں گے بصورتِ دیگر
اللہ اللہ خیر صلّہ ہی نظر آ رہا ہے۔
ساڑھے چار سال بعد بجٹ کے موقعے پر وزیرِ خزانہ نے یہ فرمایا تھا کہ حکومت
نے کفایت شعاری اور سادگی اپنانے کا بھی فیصلہ کیا ہے(چلو دیر آئے درست آئے
کے مصداق کوئی اچھی خبر تو سننے کو ملی) جس کے تحت وزیر اعظم گیلانی اب پی
ایم ہاﺅس کے بجائے چھوٹے گھر میں رہیں گے،اور پرائم منسٹر ہاﺅس کو عالمی
درجے کا انسٹیٹیوٹ بنایا جائے گا، اب گیلانی صاحب تو وزیراعظم رہے نہیں
مگرراجہ صاحب آج بھی بطور وزیراعظم اُسی پی ایم ہاﺅس میں بُراجمان ہیں۔
کہاں ہے ان اعلانات پر عمل در آمد.... کہتے سنا گیا ہے کہ کاروبار کے لیے
سازگار ماحول بن گیا ہے۔ مگر میڈیا جو روزآنہ خبروں میں اور سلائیڈ پٹیوں
کے ذریعے آگاہی فراہم کرتی ہے اس کے بقول تو یہاں سے تاجر حضرات اور
کاروباری حضرات دوسرے شہروں اور ملکوں میں اپنا کاروبار شفٹ کر رہے ہیں۔
بلکہ کچھ تو جا بھی چکے ہیں۔ تو کہاں ہے سازگار ماحول.... جب امن ہو گا تب
ہی تو سازگار ماحول ہوگا اور جب سازگار ماحول میسر ہوگا تو اس ملک کے عوام
کو روزگار میسر آ سکے گا۔
ورلڈ بینک کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق تو کاروبار کے لیے سازگار
ماحول کی فہرست میں پاکستان ایک سو پانچویں (105) نمبر پر آگیا ہے۔ رپورٹ
کے مطابق کاروبار کے لیے سازگار ماحول فراہم کرنے والے پہلے پانچ ممالک میں
سنگا پور، ہانگ کانگ، نیوزی لینڈ، امریکہ اور ڈنمارک ہیں۔ پچھلے سال بھی
یہی پانچ ممالک سرِفہرست تھے۔ ان کے رپورٹ کے مطابق پچھلے سال پاکستان اس
معاملے میں چھیانوے (96) نمبر پر تھا اور اس سال اس کی رینکنگ میں نو
پوائنٹس گِر گیا ہے۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانیوں کا شمار دنیا کی
ذہین ترین اقوام میں ہوتا ہے اور اس بات کو دنیا مانتی بھی ہے مگر ضرورت اس
امر کی ہے کہ ہمارے وطن کے باسیوں کو ذہین، دیانتدار، امین اور مخلص قیادت
میسر آ جائے جو ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر ملکی مفاد کو ترجیح دے ،
بدعنوانی کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے والی سیاسی قیادت میسر آ جائے، جو بھی
حکومت برسرِ اقتدار آتی ہے اور کسی موضوع پر ٹاک شوز میں یہ بیان دے ڈالتے
ہیں کہ فلاں مسئلہ ہمیں پچھلی حکومت سے ورثے میں ملے ہیں۔ ملے ہونگے بھائی!
مگر کوئی قیادت تو ایسی بھی ہو جو اپنے دور میں ان کوتاہویں ، خامیوں کا
قلع قمع کرے۔ یہ دیکھے کہ ہم سے غلطی کہاں پر ہوئی؟ کیا ہم کبھی اس قابل ہو
سکیں گے کہ بدعنوانی، جہالت اور غربت کے اندھیروں سے نکل سکیں گے؟
رکھتے ہیں جو اوروں کے لئے پیار کا جذبہ
وہ لوگ کبھی ٹوٹ کر بکھرا نہیں کرتے
پاکستان میں آج کل ہر بندہ مصر، یمن، شام، سوڈان اور تیونس کے حالات سے
متاثر ہے اور چاہتا ہے کہ پاکستان میں بھی ایسے ہی حالات انقلاب عمل میں آ
جائے لیکن یہاں ان حالات کی خواہش رکھنے والے افراد یا لیڈران کا کردار
انقلاب برپا کرنے کے معیار پر پورا نہیں اترتا۔ ہمارے یہاں تو شاید چور
مچائے شور کے مصداق والے حالات ہیں۔ آج بھی ہمارے معاشرے میں سرمایہ داری
اور جاگیرداری کا نظام چل رہا ہے ، لوگ اخلاقی اور مذہبی اصولوں کو ماننے
سے انکاری ہیں ، اب جبکہ ہماری قوم ہر قسم کی برائیوں میں ملوث ہے تو پھر
کونسی چیز انقلاب برپا کرنے کی پوزیشن میں ہے ، جس سے انقلاب لایا جا سکے۔
لہٰذا پاکستان کے ارباب سے عوام یہ التجا کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ قوم
کے اخلاق کی طرف توجہ دیں اور پُر امن دھرتی کو پروان چڑھائیں، برائیوں کا
خاتمہ کریں، امن و امان کا مسئلہ حل کریں، روزگار کے دروازے وا کریں، ترقی
کے زینے کھولیں، بجلی، گیس، درآمد کریں تاکہ عوام کو سکھ میسر ہو سکے،
سرکاری ملازمین کو مہنگائی کے تناسب سے تنخواہ دیا جائے، اور پرائیویٹ
سیکٹر کے ملازمین کو بھی ان کے جائز حقوق سے نوازیں، اگر ان تمام اچھائیوں
کی طرف قدم بڑھاتے ہیں تو ہمارا ملک بھی ترقی کرے سکے گا اور یہاں کی عوام
بھی۔ جس سے دنیا میں ایک اچھا تاثر بھی جائے گا اور عوام بھی ترقی کی راہ
میں گامزن ہو سکیں گے۔ |