جہاں بھیڑوں کے گلے کی قیادت
بھیڑئیے کر رہے ہوں وہاں امن وآشتی کی توقع فضول ہے۔ویسے تو پورے پاکستان
کا یہی حال ہے کہ سانپ مرتا ہے تو لوگ سکون کا سانس لیتے ہیں لیکن پھر یہی
سکون کا سانس لینے والے سنپولئے کو خود اپنے ہی ووٹوں سے اپنی گردنوں پر
سوار کر لیتے ہیں کہ شریف آدمی، پڑھا لکھا آدمی اور قابل آدمی نہ تو پٹواری
کو دھونس دکھا سکتا ہے نہ ایس ایچ او کا کچھ بگاڑ سکتا ہے اور نہ ہی اس کے
پاس مفروروں اور کن ٹٹوں کی فوج ہوتی ہے جو اس کے ووٹروں کو اور سپورٹ کرنے
والوں کو دوسرے اسی قبیل کے بد معاشوں اور کن ٹٹوں سے بچا سکے۔قابلیت اس پسِ
منظر میں بھاڑ میں چلی جاتی ہے اور قبضہ گروپ،لینڈ اور ٹمبر مافیا،مفروروں
کے سر غنے پھر جیت جاتے ہیں کہ عزت ہر ایک کو پیاری ہوتی ہے اور ان لوگوں
کو گھی سیدھی انگلی سے نہ نکل رہا ہو تو ٹیڑھی انگلی سے نکالنا خوب آتا ہے۔
فرقوں ،برادریوں اور علاقوں میں تقسیم یہ لوگ کبھی یہ سوچنے کی تکلیف گوارہ
ہی نہیں کرتے کہ اس ملک میں کروڑ روپیہ الیکشن میں خرچ کر کے الیکشن جیتنے
والا پہلے تو اپنا کروڑ بمع منافع وصل کرے گا پھر ان کی باری آئے گی۔سارا
پاکستان کراچی اور حیدر آباد میں ایم کیو ایم کو طعنے دیتا ہے کہ وہ بندوق
کے زور پہ عوام کا مینڈیٹ ہتھیا لیتی ہے لیکن ایم کیو ایم ہی کیوں یہ تو
پورے پاکستان میں ہوتا ہے۔ایم کیو ایم کا قصور صرف اتنا ہے کہ وہ یہ جرم
آرگنائز طریقے سے کرتی ہے جبکہ باقی علاقوں میں میں یہی کام لوگ انفرادی
سطح پہ انجام دیتے ہیں۔ووٹ لینے کے لئے وہ چہرے بھی نظر آتے ہیں جنہیں ایک
دفعہ منتخب ہونے کے بعد دیکھنے کو آنکھیں ترس جاتی ہیں۔یہ مداری ہر بار ایک
نئی پٹاری لے کے حاضر ہوتے ہیں۔کسی کی منت کرتے ہیں کسی کا ترلا اور کسی کو
دھونس اور دھاندلی سے راضی کرتے ہیں اور اگلے پانچ سال کے لئے منتخب ہو کر
پھر گدھے کے سر سے سینگوں کی طرح غائب ہو جاتے ہیں ۔ووٹر اپنے نمائندے کی
شکل دیکھنے کو ترس جاتے ہیں اور نمائندہ دوسری طرف اپنی انویسٹمنٹ پوری کر
رہا ہوتا ہے۔ ختمی مرتبتﷺ کا ارشادِ گرامی ہے کہ مومن ایک سوراخ سے دوسری
بار کبھی ڈسا نہیں جاتا ۔ہم پتہ نہیں مومن ہیں بھی کہ نہیں کہ پچھلے چونسٹھ
سالوں سے ہم نے بس ایک دو سوراخواں میں اپنے ہاتھ خود ہی گھسیڑ رکھے ہیں۔ان
خونی درندوں نے اپنے ڈنگ سے ہماری انگلیاں فگار کر دی ہیں لیکن ہم ہیں کہ
اپنے بعد اپنے بچوں کی انگلیاں بھی انہی سوراخوں میں دینے پہ مصر ہیں۔ایسے
لوگوں کا کوئی علاج ہے جو خود آنکھوں دیکھ کے زہر کھانے پہ تلے ہوں
تلخ نوائی کی معافی چاہتا ہوں لیکن ہزارہ سے شائع ہونے والے اخبار ان
اعلانات سے بھرے ہوتے ہیں کہ فلاں برادری فلاں قبیلہ فلاں کے جنبہ میں شامل
ہو گیا۔اس فلاں کو دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ یا تو وہ فلاں اپنے علاقے کا
نامی گرامی غنڈہ ہے یا اس کا باپ بہت بڑا چور تھا۔اس کا تعلق ٹمبر مافیا سے
ہے یا غریبوں کی زمینوں پہ قبضہ کر کے وہ لیڈر بنا ہے۔کہیں کبھی کسی برادری
نے یا کسی گروہ نے اپنے جیسے کسی شخص کے جنبے میں شمولیت کا اعلان کیا
ہو۔کسی اپنے جیسے مزدور ،کسان یا ریڑھی والے کو متفق ہو کے اپنا امیدوار
بنایا ہو۔یہاں کبھی کوئی نائی موچی مزدور یا تر کھان کا بیٹا الیکشن لڑنے
کا سوچ لے تو ہنس ہنس کے لوگوں کے پیٹ میں بل پڑ جاتے ہیں کہ اسے دیکھو
لیڈر بننے چلا ہے۔اگر ایران کی صدارت ایک لوہار کے بیٹے کے ہاتھ آ سکتی ہے
تو پاکستان میں نائی یا موچی کا بیٹا قیادت کا اہل کیوں نہیں۔پاکستان میں
بھی ہم نے لوہاروں کے بیٹوں کو حکمران بنایا لیکن اس وقت جب وہ لوہار لوہار
نہیں صنعتکار بن گئے تھے۔موچی بھی وزیر بنے لیکن اس وقت جب وہ موچی نہیں
کارخانہ دار بن گئے تھے۔یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ غریب ہی غریب کی
نمائندگی کر سکتا ہے لیکن جب لکڑی کا دستہ کلہاڑے میں فٹ ہو جائے تو وہ
درخت کا نہیں کلہاڑے کا ساتھ دیتا ہے اور درخت کی جڑیں کاٹ کے رکھ دیتا ہے۔
ہزارہ میں بننے والے جنبے غلام کا نشان ہیں۔ہماری حالت سدھرنے کا اس وقت تک
کوئی امکان ہی نہیں جب تک ہم ان جنبوں پہ ہزار لعنت نہیں بھیجتے۔جب تک ہم
اپنی سوچ سے فیصلہ نہیں کرتے۔جب تک ہم دباﺅ دھونس اور دھاندلی کی سیاست کو
مسترد نہیں کرتے۔میں جب اپنے پیارے ہزارہ میں قومی اور صوبائی اسمبلی کے
مختلف جماعتوں کے امیدواروں کو دیکھتا ہوں تو اکثر کو دیکھ کے میری ہنسی
نہیں رکتی۔یہ ان پڑھ جاہل اور دنیا و ما فیھا سے بے خبر لوگ اسمبلیوں میں
پہنچ کے کاٹھ کے الو بن کے ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویر بنے بیٹھے رہنے
کے علاوہ اور کچھ کرنے کے قابل ہی نہیں ہوتے۔ہاں ان کی نظر اس بات پہ ضرور
ہوتی ہے کہ کہیں کوئی ایسی سکیم بن رہی ہو جس میں کمیشن کا امکان ہو تو یہ
بھوکی چیلوں کی طرح اس پہ لپکتے ہیں۔اپنے من پسند ٹھیکہ داروں کو ٹھیکے
دلوا کے ان سے اپنا حصہ وصولتے ہیں اور بس۔کام کیسا ہوا؟عوام کو کیا فائدہ
پہنچا؟کام کا معیار کیا تھا؟ اس سے کبھی انہیں غرض نہیں ہوتی۔یہی وجہ ہے کہ
کروڑوں روپے کے زر کثیر سے بننے والی سکیمیں بعض اوقات تو ہفتہ بھی نہیں
نکالتیں اور بیٹھ جاتی ہیں۔یہ لوگ تختیاں لگا کے اور اپنا کمیشن لے کے فار
غ ہو جاتے ہیں۔
اللہ خیر کرے بظاہر ایک جمہوری حکومت اپنے پانچ سال پورے کر کے اپنی طبعی
موت مرنے والی ہے۔اب نگران حکمران آئیں گے۔انتخابات سر پہ ہیں اور یہ مداری
اپنی اپنی پٹاریوں سے متحیر کر دینے والے سانپ اور نیولے نکال کے عوام کی
نظر بندی میں مصروف ہیں۔جنبے بن رہے ہیں جنبے ٹوٹ رہے ہیں کہیں پہ بولی لگ
رہی ہے تو کہیں صر ف وعدوں کا لولی پاپ دیا جا رہا ہے اور بھیڑیں ہیں کہ
خوشی سے دیوانی ہوئی جا رہی ہیں کہ چارے کی امید جو پیدا ہو رہی ہے۔لیکن یہ
نہیں جانتے کہ بھیڑوں کو اسی لئے پالا پوسا جاتا ہے اور ان کی ٹہل سیوا کی
جاتی ہے کہ وقت آنے پہ وہ کسی مال والے کے پیٹ کی آگ بھجاسکیں اور اس کی
لذت کام و دہن کا سامان بن سکیں۔جنبوں برادریوں اور فرقوںکے نام پہ بکنے
والے یاد رکھیں کہ جہاں بھیڑئیے امام ہوں وہاں بھیڑوں کا مستقبل جاننے کے
لئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہوتی۔
جنبہ غلامی کا دوسرا نام ہے۔جہاں انسان اپنی عقل کو استعمال نہیں کر
سکتا۔جنبے کے دباﺅ میں اپنے ووٹ کو ضائع کرنے پہ مجبور ہوتا ہے۔جنبوں سے
باہر نکل کے اپنی رائے کا درست استعمال ہی آپ اور آپ کے بچوں کا مستقبل
محفوظ کر سکتا ہے۔ |