بلوچستان بھی برصغیر کا مغربی
لیکن نسبتاً زیادہ وسیع رقبے پر پھیلا ہوا علاقہ ہے جہاں انگریز سلطنت کو
اپنا اثرورسوخ قائم کرنے میں بے حد دشواری کا سامنا رہا۔سرحد کی طرح یہاں
بھی برطانوی حکومت نے سیاسی اصلاحات سے گریز کیا تاکہ مسلم باشندوں کو کوئی
سہولت میسر نہ آسکے۔اس اعتبار سے بلوچستان کے عوام کے مسائل مثالی
تھے۔1972ءکی تجاویز دہلی اور مسلم لیگ کے اجلاس منعقدہ کلکتہ میں مطالبہ
کیا گیا کہ بلوچستان میں بھی دیگر صوبوں کی طرح سیاسی اصلاحات نافذ کی
جائیں۔پھر یہی مطالبہ زیادہ پُر زور حمایت کے ساتھ مرتبہ شکل میں” جناح کے
چودہ نکات“ کی صورت میں ملک کے سامنے پیش کیا گیا۔بلوچستان میں سیاسی
بیداری پیدا کرنے میں نواب یوسف علی عزیز مگسی(1935-1908) کی خدمات بڑی
نمایاں ہیں۔آپ کو بجا طور پر بلوچستان میں تحریک آزادی کا علمبردار کہا
جاسکتا ہے۔ آپ علامہ اقبال، مولانا محمد علی جوہر اور مولانا ظفر علی خان
کے خیالات و افکار سے متاثر تھے۔قائداعظم محمد علی جناح سے بھی آپ کا رابطہ
رہا۔آپ نے بلوچستان کے عوام میں سیاسی بیداری پیدا کرنے کے لئے مختلف طریقہ
ہائے کا ر اختیار کیے۔بلوچستان کے عوام کو منظم کرنے کے لئے دسمبر 1932ءکو
جیکب آباد میں کل ہند بلوچ کانفرنس کے انعقاد کا انتظام کیا۔کراچی سے مختلف
اخبارات مثلاً البلوچ، بلوچ، بلوچستان جدید، ینگ بلوچستان وغیرہ جاری کرائے
جو یکے بعد دیگرے ضبط ہوتے گئے۔بلوچستان کے مسائل پر متعد د مضامین اور
پمفلٹ بھی لکھے۔ ان میں ”بلوچستان کی آواز“ ایک قابل ذکر پمفلٹ ہے۔ آپ ایک
اچھے شاعر بھی تھے اور شاعری کے ذریعے بھی آپ نے عوام میں سیاسی بیداری اور
آزادی کے لئے تڑپ پیدا کی۔جون1939ءمیں بلوچستان میں مسلم لیگ قائم ہوئی۔
قاضی محمد عیسیٰ نے اس سلسلہ میں نمایاں خدمات سرانجام دیں۔بلوچستان میں
مسلم لیگ کی تنظیم کو متحد بنیادوں پر قائم کرنے اور عوام میں اسے متعارف
کرانے کے لئے ملک کے دوسرے حصوں سے وقتاً فوقتاً مختلف رہنما تشریف لاتے
رہے۔ قرار دادِ پاکستان کی تائید میں بلوچستان کی طرف سے قاضی محمد عیسیٰ
نے کہا” آج 27سال کے بعد مسلمان اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ انہیں ایک آزاد
اسلامی مملکت میں زندگی بسر کرنی چاہیے۔ہمارے قائداعظم گزشتہ تین سال سے یہ
سوچ رہے تھے کہ مسلمانوں کی آئندہ پوزیشن کی ہونی چاہیے۔ بالآخر وہ اس
نتیجے پر پہنچے کہ کم ازکم ان صوبوں میں مسلمانوں کو آزادی ملنی چاہیے جہاں
ان کی اکثریت ہے۔اس طرح کم از کم چھ کروڑ مسلمان تو آزاد ہو جائیں۔ گل
سردار اورنگ زیب خان نے کہا تھا کہ وہ درہ خیبر کی دربانی کریں گے۔میں یہ
اعلان کرنے کی جرات کرتا ہوں کہ ہم اس سے ایک چھوٹے دروازے یعنی درہ بولان
کی دربانی کریں گے۔جولائی 1940ءمیں بلوچستان مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس
کوئٹہ میں نوبزادہ لیاقت علی خان کی صدارت میں منعقد ہوا اس اجلاس میں
تقریر کرتے ہوئے قاضی محمد عیسیٰ نے کہا” پاکستانی سکیم کی تشکیل سے قبل
ہمارا مطالبہ صوبائی اصلاحات کے متعلق پُرزور طور پر تھا لیکن اب پاکستانی
سکیم کے مرتب ہو جانے پر ہمارا صوبہ اسلامستان یا پاکستان میں آچکا ہے لہذا
ہمارا مطالبہ اب صوبائی اصلاحات کے علاوہ پاکستان کا بھی ہے۔پاکستان کے لیے
تمام مسلمانانِ بلوچستان ہندوستان کے باقی مسلمان بھائیوں سے کلی طور پر
متفق ہیں اور ہر ممکن قربانی دینے اور ایثار کرنے کے لیے تیار ہیں“23
مارچ1941ءکو بلوچستان مسلم لیگ نے یومِ پاکستان منانے کا فیصلہ کیا اور اس
سلسلے میں میکموہن پارت کوئٹہ میں ایک جلسہ عام منعقد ہوا۔ جس میں قائداعظم
محمد علی جناح کی قیادت پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا گیا اور قراردادِ
پاکستان کی پُرزور حمایت کی گئی۔1945ءمیں جب قائداعظم محمد علی جناح نے
حصولِ پاکستان کے لئے اپنا تاریخی اعلان کیا کہ” تم مجھے چاندی کی گولیاں
دو، میں آزادی کی جنگ لڑ کر تمہیں پاکستان دوں گا“ تو بلوچستان کے لوگوں نے
بڑی فراخدلی سے مسلم لیگ کے فنڈ میں چندہ دیا۔بلوچستان کے ایک شخص نے( جو
اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا) مسلم لیگ کے چندے میں چاندی کی دو
سلاخیں دی جس کا وزن ساڑھے پانچ ہزار تولہ تھا۔بلوچستان میں دستور ساز
اسمبلی کے انتخاب میں کانگریسی امیدوار کو ناکامی ہوئی اور نواب محمد خان
جوگیزئی بھاری اکثریت میں کامیاب ہوئ۔ ان کی یہ کامیابی بلوچستان میںتحریک
پاکستان کا سنگِ بنیاد تھی۔بقول جناب نسیم حجازی” آئین ساز اسمبلی کے لئے
نواب محمد خان جوگیزئی کا انتخاب بلوچستان کا پاکستان کی طرف پہلا قدم
تھا“اس سے پاکستان کے حامی عناصر کے حوصلہ بلند ہوئے اور انہیں یقین ہو گیا
کہ مسلم لیگ تما مخالفتوں، سازشوں اور دشواریوں کا منہ توڑ جواب دے کر مکمل
فتح حاصل کرے گی۔1946 کے وسط میں مسلم لیگ نے اپنے اجلاس منعقدہ بمبئی میں
یہ طے کیا کہ بطور احتجاج مسلم لیگی خطاب یافتگان اپنے اپنے خطابات واپس
کردیں۔چنانچہ اس فیصلے پر بلوچستان میں بھی عمل ہوا۔ کوئٹہ میں عید الاضحی
کی نماز کے بعد عوام کے سامنے خطاب یافتگان نے یکے بعد دیگرے مسجد کے منبر
پر کھڑے ہو کر اعلان کیا کہ جب زندگیاں اپنی ملی و سیاسی جماعت مسلم لیگ کے
لئے وقف ہو چکی ہیں تو اپنی جماعت کی خدمت کے آگے سرتسلیم خم کرتے ہوئے
اپنے خطابات حکومت کو واپس کرتے ہیں۔اور اپنی واحد نمائندہ جماعت مسلم لیگ
کو یہ بھی یقین دلانا چاہتے ہیں کہ اگر جماعت ہم کو آگ میں کودنے کا بھی
حکم دے گی تو ہم فوراً صدائے لبیک بلند کرتے ہوئے اس میں کود پڑیں
گے۔28-27اپریل1947ءکو کوئٹہ میں پاکستان کانفرنس منعقد ہوئی اس کی صدارت
چوہدری خلیق الزماں نے کی۔اس کانفرنس میں واضح طور پر کہا گیا کہ برصغیر کے
مسلمانوں کی منزل مقصود پاکستان ہے جو سامنے دکھائی دے رہی ہے ایک قرارداد
کے ذریعے مطالبہ کیا گیا کہ بلوچستان میں بلاتاخیر جمہوری حکومت قائم کی
جائے۔اعلان 3جون1947ءمیں بلوچستان کے بارے میں کہا گیا کہ شاہی جرگہ اور
کوئٹہ میونسپل کمیٹی کے اراکین اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ آیا بلوچستان
پاکستان یا بھارت میں شریک ہو۔ رائے شماری کے لئے 29جون کی تاریخ مقرر کی
گئی۔اس اعلان کے ساتھ ہی کوئٹہ سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا۔ کانگریس نے
اپنی سازشوں کا جال پھیلانا شروع کر دیا اور پاکستان کے خلاف اپنی مہم تیز
کردی۔شاہی جرگے کے اراکین کو ہندوستان میں شمولیت کی ترغیب دی جانے لگی کہ
ہندوستان ہی بلوچستان کے اخراجات کا متحمل ہو سکتا ہے۔اور اگر بلوچستان نے
پاکستان میں شمولیت کا فیصلہ کیا تو بلوچستان اور پٹھانوں کے حقوق پامال ہو
جائیں گے۔دوسری طرف انگریزبھی مسلمانوں کی یکجہتی اور اتحاد کو ختم کرنے کے
درپے تھے پاکستان کے فدائی بھی قیام پاکستان کی جدوجہد میں دن رات مصروف
تھے۔ان دنوں میر جعفر خان جمالی اور نواب محمد خان جو گیزئی نے جس گرمجوشی
سے پاکستان کے لئے کام کیا یہ انہی کا حصہ تھا۔ انہوں نے اپنے ایک مشترکہ
بیان میں اعلان کیا کہ”بلوچستان کے سرداروں نے پورے غور کے بعد یہ فیصلہ
کیا ہے کہ بلوچستان کے حقوق کا بہترین تحفظ پاکستان کے اندر رہنے سے ہی
ہوگا۔ پاکستان کے اسلامی ریاست کے مرکز کے ساتھ وابستہ ہو کر بلوچستان نہ
صرف اپنی آزادی اور خود مختاری کی حفاظت کر سکے گا بلکہ اپنے ہمسایہ مسلم
صوبوں کے دوش بدوش اپنی اقتصادی اور سیاسی حالت کو بدر جہا بہتر بناسکے گا
بلوچستان کی یہ خوش قسمتی ہے کہ قائداعظم کی کوششوں سے ہم ہند و اکثریت کے
سیاسی غلبے سے آزاد ہو کر پاکستان کی اسلامی حکومت میں داخل ہونے والے ہیں۔
ہم سب سردار بمع اپنے قبائل کے پاکستان کی اسلامی حکومت میں شامل ہونے کے
لیے تیار ہیں اور قائداعظم پر بھروسہ رکھتے ہیں کہ وہ ہماری صیحح رہنمائی
کریں گے“اس بیان کا خاطر خواہ اثر ہوا بلوچستان کے لوگ تشکیلِ پاکستان کی
راہ میں دیوانہ وار آگے بڑھے اور انہوں نے ریفرنڈم سے کچھ روز پہلے کوئٹہ
میں پاکستان کی حمایت میں ایک عظیم الشان جلو س نکالا جس میں پاکستان زندہ
باد کی فلک شگاف نعروں میں اعلان کیاگیا کہ”ہم دیکھیں گے کہ ہمارے راستے
میں اب کون حائل ہوتا ہے بلوچستان پاکستان اور صرف پاکستان کا حصہ بنے
گا“آخری وقت اعلان کیا گیا کہ 29جون کو ریفرنڈم نہیں ہوگا۔ اس دن صرف
لارڈمونٹ بیٹن کا اعلان پڑھ کر سنایا جائے گا اور اگلے دن رائے شماری
ہوگی۔یہ بڑی گہری سازش تھی ایک دن میں بہت کچھ ہوسکتا تھا۔ہندو اور انگریز
کی اس ملی بھگت کے خلاف تحریکِ پاکستان کے دیوانے ڈٹ گئے۔ چنانچہ 29جون کو
ٹاﺅن ہال کوئٹہ میں پروگرام کے مطابق ایجنٹ برائے گورنر جنرل نے لارڈ مونٹ
بیٹن کا اعلان پڑھنا شروع کر دیا لیکن وہ یہ اعلان ختم بھی نہ کرپائے تھے
کہ نواب محمد خان جوگیزئی بڑے اعتماد کے ساتھ اپنی جگہ کھڑے ہوئے اور کہا”
ہم یہ بیان پہلے پڑھ چکے ہیں ہمیں فیصلہ کرنے کے لئے مزید وقت نہیں چاہیے
کیونکہ شاہی جرگہ کے سردار پاکستان کی حمایت میں فیصلہ کر چکے ہیں ہم اعلان
کرتے ہیں کہ ہمارا نمائندہ پاکستان دستور ساز اسمبلی میں بیٹھے گا“
ہال تالیوں کی آواز سے گونج اٹھااور ہال سے باہر کی فضاءپاکستان زندہ باد
کے نعروں سے معمور ہوگئی۔ |