گجرات کے وزیر اعلا نریندر مودی
کے نام سابق رکن پارلیمنٹ اور سفارتکارسید شہاب الدین نے جو کھلا خط لکھا
ہے اس میں اگرچہ مودی کو معاف کرنے کو نہیں کہا گیا مگر یہ بات ان سے منسوب
کرکے باقی ساری باتوں کو نظرانداز کر دیا گیا۔ اس مکتوب پر جوعاجلانہ رد
عمل سامنے آیا ہے، اس سے ہماری مجموعی سیاسی صوابدید پر بھی کئی سوال اٹھ
کھڑے ہوگئے ہیں۔سید صاحب طویل عرصے تک مسلم مجلس مشاورت کے صدررہے۔ بابری
مسجد ایکشن کمیٹی کے کنوینر رہے اور جب مسلمانوں کےلئے اختیارات کے حصول
کےلئے مسلم تنظیموںکی مشترکہ کمیٹی قائم ہوئی تو اس کا کنوینربھی ان کو ہی
چنا گیا۔ یہ اس بات کی شہادت ہے کہ ان کی سیاسی سمجھ بوجھ پر ہمارے قائدین
کو کس درجہ اعتمادرہا ہے۔ جب ایسا شخص کوئی بات کہتا ہے تو اس کا حق یہ ہے
کہ اس پرعجلت میں رد عمل ظاہر کرنے کے بجائے گہرائی سے غورکیا جائے اور
اگرکچھ الجھن محسوس ہو تو اس سے استفسار کرلیا جائے۔ لیکن اس معاملہ میں
ایسا نہیں ہوا۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ جن اصحاب نے ان پر لعن طعن فرمائی
انہوں نے شاید ان کا مکتوب پڑھے بغیر ہی اخباری خبروں کی بنیاد پر رائے کا
اظہار کردیا۔حالانکہ یہ بات بارہا سامنے آتی رہتی ہے کہ اخبار کی خبربسا
اوقات اس طرح گھما پھرا کر بنائی جاتی ہے کہ مطلب کچھ کا کچھ ہوجاتا ہے۔
یہ خط ”جائنٹ کمیٹی آف مسلم آرگنائزیشنزفار ایمپاورمنٹ“ کے لیٹر ہیڈ پر
جاری کیا گیا ہے جس پر مذکورہ کمیٹی میں شامل تنظیموں نے بجا طور پر کہا ہے
کہ خط اجراءسے قبل ان کے علم میں نہیں لایا گیا۔ اس ’غلطی‘ کو شہاب الدین
صاحب نے فراخ دلی سے تسلیم کرلیا ہے اور اس پرمعذرت بھی کرلی ہے، اس لئے یہ
اشو اب ختم ہوا۔اس مکتوب پر ایک غیر سیاسی ملک گیرتنظیم کے محترم سیاسی
سیکریٹری نے جس طرح کا ردعمل ظاہرفرمایاہے اس سے یہ سوال اٹھتاہے کہ کیا
جذباتیت ہمارے مسائل کا حل ہے؟ کچھ لحاظ اس بات کا بھی کیا جاتا کہ اس بیان
سے ملّت کی نگاہوں میں ایک ایسی ہستی گرد آلود ہوگی، جس کی سیاسی بصیرت
پرسابق میں مذکورہ جماعت کے عمائدین کوبے پناہ اعتماد رہاہے ۔اچھا ہوتا کہ
ان عمائدین کی سیاسی فراست پر سوالیہ نشان نہ لگایا جاتا۔ موصوف کی رائے کا
تجزیہ کیا جائے گا تو بات بہت دور تک جائیگی، لیکن یہ بات سمجھنے کی ہے کہ
سیاست کا اولین اصول یہ ہے کہ جو بات کہی جارہی ہے اس کا فائدہ مخالف کو نہ
پہنچ جائے، چنانچہ بات کہنے سے پہلے اس کے جملہ عواقب پر غور کرلینا چاہئے
اوراپنی کسی بات سے عوام کو یہ تاثر نہیں دیا جانا چاہئے کہ خود ہماری اپنی
صفوں میں باہم اعتماد، احترام اور اتحاد کی کمی ہے۔
16 نومبر کو نریندر مودی کے نام سید صاحب نے جو خط جاری کیا ہے ، اس کے بین
السطور سے صاف ظاہر ہورہاہے کہ مکتوب نگار نے، جو زیرک سیاست داں ہیںاور
سفارت کار بھی رہے ہیں، بڑے ہی سلیقے سے ڈپلومیٹک انداز میں گجرات کے ان
مسلم لیڈروں کی آنکھیں کھولنے کی تدبیر کی ہے جو مودی کی چکنی چپڑی باتوں
میں آکر ان کی طرف راغب ہورہے ہیں، حالانکہ گجراتی مسلمانوں کے ان مسائل کو
حل کرنے پرجو خود مودی سرکار کی پیدا کردہ ہیں، کوئی توجہ نہیں دی جارہی
ہے، بلکہ مودی حسب سابق اپنی شقاوت پر اڑے ہوئے ہیں۔ موصوف نے یہ بات سیدھے
سیدھے کہہ دی ہوتی توآسانی سے سمجھ میں آجاتی،لیکن زرا غور و فکر سے یہی
نتیجہ نکلتا ہے۔ چنانچہ مناسب ہوگا کہ آگے کچھ عرض کرنے سے پہلے ایک نظر خط
کے متن پر ڈال لی جائے۔ لکھتے ہیں:
”جیسے جیسے اسمبلی الیکشن قریب آرہے ہیں، ہر شخص یہ دیکھ رہا ہے کہ آپ کی
اور آپ کی پارٹی کی طرف سے گجرات کے مسلم رائے دہندگان پر خصوصی توجہ دی
جارہی ہے۔ گجرات اور گجرات کے باہر کے مسلمان ابھی تک 2002 کی خون ریزی کو
نہیں بھولے ہیں۔ لیکن گزشتہ دس سال کے دوران گجرات کے مسلمانوں نے خود اپنے
بل بوطے پر اپنے محدود وسائل سے اپنی زندگیوں کی اس توقع پر تعمیر نو کی ہے
کہ ریاست کی ترقی میں اور روزگار کے سرکاری و غیرسرکاری مواقع میں ،ان کو
بھی ان کا جائز حصہ ملے گا۔ چنانچہ انہوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ان کو کہیں
اور نہیں جانا ہے بلکہ گجرات میں ہی رہنا ہے۔ مسلم رائے دہندگان آپ کے رویہ
میں تبدیلی کے کچھ آثار بھی دیکھ رہے ہیں۔ تاہم وہ گجرات کی تعمیرنو میں آپ
کے ساتھ اسی صورت میں شریک ہوسکیں گے کہ آپ درج ذیل اقدامات کریں:(۱) 2002
کی خونریزی پر آپ کی طرف سے اظہار افسوس اور کھلی معافی مانگی جائے۔ (۲) اس
خونریزی کے دوران مارے گئے افراد کے پسماندگان کو دہلی کے فسادات 1984 کے
متاثرین کے بقدر معاوضہ ادا کیا جائے۔ (۳) جن زخمیوں نے اپنے علاج معالجہ
پر اسپتالوں میں خود خرچ کیا ہے، سرکار اس کی بھرپائی کرے۔ ( ۴) فساد کے
دوران جو لوگ گھر بدر ہوئے اورابھی تک اپنے گھروں گاﺅوں کو نہیں لوٹ سکے
ہیں، بلکہ عارضی کمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں ، ان کی باعزت باز آباد کاری
کی جائے تحفظ کی فراہمی کے ساتھ ان کے گھروں، دوکانوں اور زمینوں وغیرہ کی
واپسی کی جائے۔ ( ۵) قتل عام کے دوران تباہ کئے گئے جو گھر اور دوکانیں،
کارخانے وغیرہ ابھی تک ازسر نو تعمیر نہیں کئے جاسکے ہیںان کی تعمیر کےلئے
بھرپور معاوضہ دیا جائے۔ ( ۶) فتنہ فساد کے دوران جن 300مساجد ، درگاہوں،
مقبروں کو تباہ کیا گیا یا نقصان پہنچایا گیا اور جن قبرستانوں کی چہار
دیواریوں کو مسمار کیا گیا ان کی مرمت تعمیر نو کی جائے۔ ( ۷) جن تاجروں کے
کاروبار ، تجارت یا کارخانے لوٹ مار سے متاثر ہوئے ، تباہ کئے گئے ان کے
لئے بنک قرضوں کی سرکارگارنٹی دی جائے۔ (۸) غیر ثابت شدہ الزامات کے تحت
گرفتار کئے گئے جو لوگ ابھی تک جیلوں میں بند ہیں ان کو بغیرشرط رہا کیا
جائے ۔ (۹) سرکاری وکیلوں اور استغاثہ کو صاف صاف ہدایت دیدی جائے کہ جو
لوگ مختلف علاقوں میں ظلم و زیادتیوں کےلئے ذمہ دار تھے، مقدموں کے دوران
ان کی طرفداری نہ کی جائے تاکہ مظلومین کو انصاف مل سکے۔“
ان نو تجاویز کے بعد ایک دسویں تجویز بھی بیان کی گئی ہے۔ ”سیکولرزم سے
اپنی وابستگی کا بار بار اعلان کرنے اور گجرات کو ایک سیکولر ریاست بنانے
کا ارادہ ظاہر کرتے رہنے کے بجائے کم از کم 20ایسے اسمبلی حلقوں میں جن میں
مسلم آبادی 20فیصد سے زیادہ ہے، آپ کی پارٹی ایسے مسلمانوں کو ٹکٹ دے جو
مسلم اقلیت میں مقبولیت رکھتے ہوں۔اس طرح ان کو ریاست میں اپنی آبادی کے
تناسب میں (10%) نمائندگی مل سکے گی۔ ایک دو اپنے لوگوں کو ٹکٹ دیدینے سے
کام نہیں چلے گا۔“
اس کے بعد کیا گیا ہے ، ” اگر ان تجاویز پر عمل کیا گیا اور ساتھ ہی یہ
وعدہ بھی کیا گیا کہ ریاست کی ترقی میں ہر سطح پر ، خصوصاً تعلیم اور
روزگار میں مسلمانوںکو ان کا جائز حصہ ملے گا ،تو بلاشبہ گجرات کے مسلمانوں
پر اس کا اثر ہوگا۔اس کے برخلاف ہوا تو مسلم قیادت مسلمانوں کو یہ مشورہ
دیگی کہ وہ اپنے ووٹ تقسیم نہ ہونے دیں اور متحد ہوکر اپنے حلقے کے کسی
ایسے امیدوار کوووٹ دیں، اس کا تعلق چاہے کسی بھی مذہب یا پارٹی سے کیوںنہ
ہو، جو بی جے پی امیدوارکو شکست دے سکے۔ ایسی صورت میں آپ کے لئے اپنی
حکومت خود بناسکنا مشکل ہوجائے گا۔“
یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ ”جائنٹ کمیٹی“ کے لیٹر ہیڈ پر یہ خط ’غلطی ‘ سے جاری
ہوگیا، اس میں شامل تنظیموں کے نمائندوں کے نام اپنے خط مورخہ ۶۲ نومبر میں
انہوں نے نشاندہی کی ہے کہ اس میں کوئی ایسی بات نہیں کہی گئی جس پر مذکورہ
تنظیموں کو اتفاق نہ رہا ہو یا کوئی نئی بات کہی گئی ہو۔یہ وہی سب نکات ہیں
جن پر سب کو اتفاق رہا ہے۔اس استدلال کے علی الرغم سوال یہ بھی ہے کہ جو
نکات اٹھائے گئے ہیں کیا ان سے اختلاف کی گنجائش ہے؟ ہر گز نہیں۔اس وضاحتی
مکتوب (۶۲نومبر )میں، جو مشاورت کی ویب سائٹ پر موجود ہے، مودی کے نام کھلے
خط کے پس پشت اپنی حکمت عملی کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ ایک حقیقت
ہے گزشتہ چند سالوں میں اپنے بعض اقدامات سے مودی مسلمانوں کے ایک طبقہ کے
نظریہ میں نرمی پیداکرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ یہ کھلا خط اس لئے لکھا گیا
کہ ایسے لوگ یہ دیکھ لیں کہ مودی سرکار نے مسلمانوں کی حقیقی شکایات میں سے
کسی کو بھی دور کرنے کےلئے کوئی اقدام نہیںکیا ہے۔“ مکتوب نگار کی اس وضاحب
کی روشنی میں خط میں مذکور پہلے نو نکات پر غور کیجئے۔ کیا یہ سب کے سب
گجراتی مسلمانوں کے حقیقی مسائل نہیں اور کیا ان کو حل کئے بغیر اس بات کی
گنجائش تھی یا ہے کہ مودی کے تئیں نرم رویہ اختیار کیا جائے ؟ اور کیا اس
پہلو کی جانب قائدین کو متوجہ نہیںکیا جانا چاہئے جو ذاتی مفادات یا دیگر
مصالح کی بناءپریا کوتاہ نظری کے باعث مودی کے خیمے میں جارہے ہیںاور ان کو
مطلق حمیت و غیرت نہیں؟
مذکورہ خط دراصل ان گائڈ لائنس کا چربہ ہے جو گزشتہ اسمبلی انتخابات کے
موقع پر جاری کی گئی تھیں۔ مسلم مجلس مشاورت انتخابات سے قبل عرصہ سے
مسلمانوں کو یہ مشورہ دیتی رہی ہے کہ متحد ہوکر صاف اورسیکولر شبیہ کے ایسے
امیدوار کو ووٹ دیں، چاہے اس کا تعلق کسی بھی جماعت سے کیوں نہ ہو جو
بدعنوان اور سنگھی نظریہ کے حامل امیدوارں کو ہرا سکے۔تقریباً یہی بات اس
مکتوب سے بھی نکل کر آتی ہے۔
مودی ایک سفاک اور شاطر سیاستداں ہیں۔وہ ایک نظریہ کی علامت ہیں ، مسلم کشی
جس کے ایجنڈے کا اساسی اصول ہے۔ اس پریوار کو شکست دینے کےلئے ہماری حکمت
عملی کیسی ہونی چاہئے؟ ایسی جس سے ان کی جڑیں ان کے اصل ووٹ بنک میں اور
مضبوط ہوں یا ایسی کہ ان کی طرف بڑھتے ہوئے قدم رکیں؟ اس بات سے کون انکار
کرسکتا ہے کہ گجرات میں مودی کی سیاسی حیثیت ایسی ہے کہ آپ جتنا کوسیں گے،
ان کی بنیاد اوروسیع ہوگی۔ہمارے جن محترم قائدین نے مذکورہ مکتوب پر اظہار
برہمی کے ساتھ فرمایا ہے کہ مسلمان مودی کو معاف نہیں کرسکتے، بجا فرمایا
ہے ۔ مگر دہلی میں بیٹھ کر یہ کہہ دینے سے مودی کی طاقت کم نہیں ہوگی، ان
کا ہندوتواووٹ بنک اور مجتمع ہوگا۔ جب کہ شہاب الدین صاحب نے اپنے مکتوب
میں جو بات کہی ہے اس سے مسلم رائے دہندگان یہ سوچنے پر مجبور ہونگے کہ
مودی ان کوکچھ دئے بغیر ہی ورغلانے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس مکتوب میں مشروط
یا غیر مشروط معافی کی بات نہیں کہی گئی ہے۔ صرف یہ کہاہے : ” اگر ان
تجاویز پر عمل کیا گیا اور ساتھ ہی یہ وعدہ بھی کیا گیا کہ ریاست کی ترقی
میں ہر سطح پر ، خصوصاً تعلیم اور روزگار میں مسلمانوں کو ان کا جائز حصہ
ملے گا ،تو بلاشبہ گجرات کے مسلمانوں پر اس کا اثر ہوگا۔“ کیا اس میں کوئی
شک ہے جو بھی سرکار ان مطالبات کو پورا کریگی یا جو بھی پارٹی ان کو پورا
کرنے کا وعدہ کریگی ، مسلمان اس کی طرف راغب ہونگے اور ان پر اس کا اثر
پڑیگا؟ ہمارا خیال یہ ہے کہ سید صاحب کو مودی کی حریف پارٹیوں کو بھی مخاطب
کرنا چاہئے تھا تاکہ یہ صاف ہوتی کہ مسلم اقلیت کا ہمدرد ہونے کا دم بھرنے
والے ’سیکولر‘ کتنے پانی میں ہیں؟ یہ بات صاف ہے کہ مودی ان تجاویز کوہرگز
قبول نہیںکریں گے۔ ان کےلئے ہندتووا ووٹ بنک زیادہ اہم ہے۔ ان کورواں
اسمبلی الیکشن میں مسلم ووٹ کی زیادہ فکر بھی نہیں، خاص طور سے ایسی صورت
میں جب کہ ان کواپنی جیت کا یقین ہے۔وہ تو اپنے قومی ایجنڈے کے تحت یہ
چاہتے ہیں کہ گجرات کے کچھ مسلمان ان کے ساتھ دکھائی دیں۔ موجودہ حالات میں
یہ بات دور کی ہے کہ کوئی سنجیدہ مسلم قائد مودی کی تائید کا مشورہ دے گا۔
مذکورہ مکتوب میں سید شہاب الدین صاحب نے ایک سیاسی کارڈ چلا تھا، جس سے
مودی کو ہی نہیں بھاجپا کو بھی کٹ گھرے میں کھڑا کیا جاسکتا تھا، مگر اس پر
ان کی طرف سے کوئی رد عمل آنے سے پہلے ہی ہماری طرف سے جس طرح جلد بازی میں
جذباتی ردعمل کا اظہار ہوا اس نے ان کا کھیل بگاڑ دیا۔ اگر ایسا نہ ہوا
ہوتا تو عین ممکن تھا کہ ، مودی حامیوں اور کئی دوسری سیاسی پارٹیوں کی
قلعی بھی کھلتی۔ بولنے اور بیان دینے کا ہی نام سیاست نہیں، کئی مواقع پر
خاموشی بھی کچھ کہتی ہے۔ ہندستانی مسلمانوں کا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ تقسیم
وطن کی تحریک کے وقت سے ہی سیاست میں زیرکی کے بجائے سطحیت سے مرعوب و
متحرک ہو جاتے ہیں۔ ڈپلومیٹک انداز سے ہماری شناسائی کم ہے۔ صرف دو ہی
طریقے آتے ہیں ، یا تو سخت لب و لہجہ میں تنقید یا مدح سرائی اور خود
سپردگی۔
آخری بات یہ ہے کہ مسلم کش فسادات اور اختیارات سے محرومی کے معاملے میں تو
سیکولر پارٹیوں کے دامن بھی کم داغدار نہیں۔ ملک کے کئی حصوں میں اور
خصوصاًیوپی میں فسادات کی جو نئی لہر چل پڑی ہے اس کو کیا کہیں گے؟ ان
مسائل کا حل مسلمانوں کی سیاسی بااختیاری میں ہے اور اس کا حصول بجز اس کے
ممکن نہیں کہ جذباتیت سے بلند ہوکر، غور و فکر کے ساتھ ملت کی رہنمائی کی
جائے ۔ آج کے دور میں یہی ملک کی بھی سب سے بڑی خدمت ہے۔ (ختم) |