گجرات کی ریاستی اسمبلی کے
انتخابات ملک کی تاریخ میں اہم موڑ ثابت ہوں گے کیونکہ اگر توقع کے عین
مطابق نریندر مودی کامیاب ہوتے ہیں تو ملک کے اگلے وزیر اعظم کے امیدوار کے
طور پر وہ اپنے آپ کو بڑے طمطراق سے پیش کریں گے اصولاً تو ہمیں کہنا چاہئے
کہ بی جے پی ان کو وزارت عظمیٰ کے امیدوار کے طور پر پیش کرے گی لیکن اس
وقت جو صورت حال ہے وہ ایسی ہے کہ بی جے پی پر ان کا اتنا اثر و دبدبہ ہے
کہ بی جے پی کی صفوں میں دور دور تک ان کا کوئی حریف کوئی مدّمقابل نہیں ہے
ساتھ ہی آر ایس ایس کی بھی مودی کو تائید حاصل ہے۔
یہ اس ملک کی انتہائی بدقسمتی ہوگی کہ ایک مستند دہشت گرد، قاتلوں، لیٹروں
اور ظالموں کا سرپرست اعلیٰ ہی نہیں بلکہ محافظ جو اپنی سیاہ کارناموں پر
نادم و شرمندہ ہونے کے لیے بھی تیار نہیں ہے (معذرت خواہی تو دور کی بات ہے)
ملک کی وزارت عظمیٰ کا امیدوار بننے کے لیے نہ صرف آگے آئے بلکہ جس کے وزیر
اعظم بننے کا امکانات بھی روشن ہوں۔
اس بدبختانہ صورت حال کی وجہ بلکہ سب سے اہم و بنیادی وجہ مک میں فسطائی
طاقتوں کے آگے سیکولر طاقتوں کی کمزوری و بے بسی ہے اور ملک کو اس صورت حال
سے یا سیکولر طاقتوں کی کمزوری کی اصل ذمہ دار کانگریس ہے بلکہ کانگریس کے
ساتھ کانگریس کو ووٹ دے کر کامیاب بنانے والے اس کے ووٹرس بھی ہیں ساتھ ہی
ساتھ ملک کی وہ علاقائی سیکولر پارٹیاں بھی ہیں۔ جنہوں نے محض اقتدار کی
خاطر بی جے پی کا ساتھ دیا۔ ملائم سنگھ یادو کی سماج وادی پارٹی اور لالو
پرساد یادو کی راشٹریہ جنتادل جنہوں نے بی جے پی کا کبھی ساتھ نہ دیا ورنہ
باقی تمام اہم علاقائی پارٹیاں اس میں شامل ہیں۔
جہاں تک نریندر مودی کا تعلق ہے تو غور طلب بات یہ ہے کہ 2004ء (جب مرکز
میں کانگریس برسراقتدار آئی تھی) کے مقابلے میں نریندر مودی آج بہت طاقتور
ہیں کیونکہ بجائے اس کے کہ مودی کے خلاف اس کے جرائم کی وجہ سے کانگریس
کوئی سخت اقدام اٹھاتی کانگریس نے مودی کو کھلی چھوٹ ہی نہیں دی بلکہ ان
عناصر کی جو مودی کے خلاف عدالتوں میں قانونی لڑائی لڑ رہے تھے ان کی تک
کانگریس نے راست یا بالراست کوئی مدد نہیں کی۔ کانگریس میں شروع ہی سے ہر
سطح پر فرقہ پرست ذہنیت کے حامل افراد موجود رہے ہیں۔ کیا سابق رکن
پارلیمان احسان جعفری کی بیوہ ذکیہ جعفری کی مدد کرنا کانگریس کا فرض نہیں
ہے؟
وزیر اعظم کے دفتر میں مشیر قومی سلامتی کی حیثیت سے ایم کے نارائنن کی
موجودگی کا آخر کیا جواز تھا؟ اسی لیے ناناوتی کمیشن نے جب سابق صدر
جمہوریہ کے آرنارائنن اور وزیر اعظم واجپائی کے درمیان گجرات کے فسادات کے
سلسلے میں ہوئی خط و کتابت کا فائل طلب کیا تو قومی سلامتی کا سہارا لے کر
اس کو بجھوانے سے انکار کردیا تھا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ گجرات فسادات
2002ء کا قومی سلامتی سے تعلق ہی ناقابل فہم ہے۔ سوائے اس کے کہ مسلم کش
فسادات اور مسلمانوں کا قتل عام ملک کی سلامتی کے لیے ضروری خیال کیا گیا
ہو یا اور کوئی بھی وجہ ہو تو سابق صدر جمہوریہ کے آرنارائنن نے ملک کی
سلامتی کو خطرے میں ڈال کر اس وقت کے وزیر اعظم سے خط و کتابت تو نہ کی
ہوگی؟ اگر یہ خط و کتابت ظاہرہوجاتی تو سنگھ پریوار، بی جے پی واجپائی اور
نریندر مودی کے مذموم کردار کھل کر سامنے آجاتے! اس طرح موجودہ گورنر بنگال
و سابق مشیر قومی سلامتی نے واجپائی اور مودی کو بچالیا! غور فرمائے کہ اب
بھی کانگریس کیسے کیسے لوگوں کی سرپرستی کرتی ہے؟
کانگریس نے بائیں بازو کی تمام جماعتوں کو امریکہ کی خاطر خود سے الگ کیا
حالانکہ اس طرح نہ صرف بائیں بازو کی جماعتیں بلکہ کانگریس بھی کمزور ہوئی
اور نتیجہ میں سیکولر طاقتیں بہ حیثیت مجموعی کمزور ہوئیں اور بہار میں بی
جے پی اور اس کے حلیف نتیش کمار اقتدار میں آئے۔ کرناٹک میں ، دیوے گوڑا سے
الگ ہوکر وہاں بی جے پی کے برسراقتدار آنے کی راہ ہموار کی ۔
کانگریس سیکولرازم تو دم توبھرتی ہے لیکن سیکولرازم کی خاطر کوئی قربانی
نہیں دیتی ہے۔ ملک میں نہ صرف ریاستوں میں بلکہ مرکز میں بھی سیکولر
حکومتوں کو گرانے میں کانگریس کا کردار داغ دار ہے۔ ایک طرف سیکولرازم کو
کانگریس نقصان پہنچاتی ہے بلکہ اس کو ہمیشہ یہ خوف رہتا ہے کہ اس کے کسی
اقدام سے ہندوؤں کے کانگریس کو اور بھی کم ملیں گے۔ بی جے پی کے شدیدردِعمل
سے بھی کانگریس خائف تو رہی ہے۔ اسی خوف کے سبب کانگریس نے نریندر مودی کو
کھلی چھوٹ دے رکھی ہے ورنہ 2002ء او ر اس کے بعد نریندر مودی کے جرائم پر
دنیا کے کسی بھی ملک (علاوہ اسرائیل) میں مودی کو کیفر کردار کو لازماً
پہنچایا جاتا۔ گجرات کے فسادات کے بعد نام نہاد اور جعلی پولیس مقابلوں میں
معصوم افراد کی ہلاکتیں بھی معاف کردی گئیں بلکہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ
دہشت گردی کے الزام میں صرف مسلمانوں کو سارے ملک سے گجرات کی پولیس نے
پکڑا ہے اور جن ریاستوں میں کانگریس کا راج ہے وہاں سے زیادہ مسلمان نوجوان
پکڑ کر گجرات بجھوائے گئے۔جن میں آندھراپردیش، مہاراشٹڑا قابل ذکر ہیں۔
حیدرآباد میں پولیس نے نہ صرف گجرات پولیس سے زبردست تعاون کیا بلکہ شہر کے
پولیس کنٹرول روم کے قریب شارع عام پر گجرات پولیس کے افسر امین نریندر نے
مجاہد اصلاحی نامی نوجوان کو گولی ماردی لیکن امین کے خلاف حیدرآباد کی
پولیس نے کوئی کارروائی نہیں کی ہے۔ 2002ء سے تاحال نریندر مودی کو ایسی
کھلی چھونٹ ملی ہے بلکہ آزادی حاصل ہے جیسے کہ سارے ملک میں اﷲ نہ کرے بی
جے پی کا راج ہے۔
سپریم کورٹ نے نریندر مودی کے خلاف جس قدر سخت ریمارکس کئے ہیں اس کی روشنی
میں ہی مودی کو برطرف کیا جاسکتا تھا۔
آج نریندر مودی جس قدر طاقت ور اور کسی قانونی کارروائی کے خوف سے آزاد ہے
یہ صرف اور صرف کانگریس کی وجہ سے ہے اس کی ممکنہ وجوہات مندرجہ ذیل ہوسکتی
ہیں۔
(۱) کانگریس کا بی جے کے شدید ردِعمل اور ہندوؤں کے ووٹوں سے محرومی یا
ہندوووٹ بینک کے متاثر ہونے کا خدشہ تو اس قدر رہتا ہے کہ کانگریس گجرات
میں مسلمانوں کو قابل اعتنا سمجھتی ہی نہیں ہے۔ 2002ء کے خونیں فسادات کے
بعد سونیا گاندھی انتخابی دورہ پر گجرات گئی تھیں تو انہوں نے احسان جعفری
مرحوم کی بیوہ سے تعزیت تک نہ کی۔
دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ کانگریس مسلمانوں کو ڈرا کر ان کے ووٹ لینے کے
لیے مودی کو طاقتور بنارہی ہے تاکہ مودی کے خوف سے کانگریس کو ووٹ نہ دینے
والے بھی کانگریس کو ووٹ دینے پر مجبور ہوں۔
تیسری وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ خود کانگریس میں ایسے عناصر موجود ہیں جو
مسلمانوں سے مودی کے سلوک کی وجہ سے مودی کی مخالفت نہیں کرتے ہیں۔ اس بات
کو ثابت کرنا ممکن نہیں ہے لیکن کہا جاسکتا ہے کہ ایسی باتوں کو ماضی کے
مخالف مسلم رویہ کی وجہ سے خارج از امکان کہنا بھی غلط ہے۔
اگر مودی گجرات میں جیت جاتے ہیں تو مودی کے لیے وزارت عظمیٰ کی کرسی کا
حصول آسان ہوسکتا ہے کیونکہ کانگریس کی نااہلی ، کرپشن اور اس نے جس طرح
عوامی زندگی کو عذاب بنادیا ہے اس کے پیش نظڑ یو پی اے کے مقابلے میں این
ڈی اے کی کامیابی کے امکانات ہیں۔ یہ بات بھی پیش نظر رکھنی چاہئے کہ جس
طرح مسلمانوں نے 2004ء اور2009 میں کانگریس کو بہ حیثیت مجموعی ووٹ دیا تھا
وہ صورت حال اب نہیں رہی ہے۔ مسلمانوں کو تقریباً ہر معاملے میں کانگریس نے
مایوس کیا ہے بلکہ گجرات میں نریندر پر کانگریس کی مہربانیاں اور سب بڑھ کر
دہشت گردی کے معاملے میں مسلمانوں سے بدترین سلوک کیا گیا ہے۔ بلکہ اب بھی
جاری ہے۔ عالم اسلام سے منموہن سنگھ سرکار دور اور اسرائیل سے قریب ہوا ہی
ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ گرانی، کرپشن اور عام زندگی کے مشکل ہونے سے مسلمان
بھی عام آدمی کی طرح ہی کانگریس سے نالاں و پریشان ہے اس طرح قرین قیاس یہی
ہے کہ مسلمان ووٹ بکھرجائے گا مسلمانوں کے ووٹ سے محرومی کانگریس کے لیے
پریشانیاں بڑھاسکتی ہے۔ کئی علاقائی پارٹیاں جواب یو پی اے میں شامل ہیں
موقع ملنے پر اقتدار کی خاطر بی جے پی کے ساتھ کھڑی ہوسکتی ہیں جن میں جیہ
للیتا ، سی ڈی ایم کے، ممتابنرجی، مایاوتی، تلنگانہ راشٹریہ سمیتی کو این
ڈی اے میں جانے میں دیر نہیں لگے گی ان حالات میں نریندر مودی کے لیے مواقع
روشن ہیں۔ علاوہ ملک کے بڑے بڑے سرمایہ دار بھی مودی کے ساتھ ہیں۔
یہ بات بھی غور طلب ہے کہ سیاست میں انہونی بھی ہوتی رہتی ہے نریندر مودی
کو خود ان کے حلقہ میں شکست بھی ہوسکتی ہے۔ اگر مودی کو انتخابات میں
اکثریت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ مودی کو اپنے حلقے میں بھی کامیاب ہونا
ضروری ہے اگر مودی اپنا انتخاب ہار جائیں تو دلی ان کے لیے بہت دور ہوسکتی
ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ مودی نے گجرات میں ترقی (وکاس) کا جو پروپگنڈہ کیا
ہے وہ خاصی حدتک مبالغہ آمیز ضرور ہے۔ دوسری طرف اگر کیشو بھائی پٹیل کی
پارٹی نریندر مودی کے ووٹ بینک میں سیندلگاسکے تو مودی کے موقف پر کاری ضرب
پڑسکتی ہے ۔ بی جے پی کو نہ صرف اپنے لیے کامیابی کو ممکن بناکر مرکز میں
مودی کے لیے زمین ہموار کرنی بھی ہے اس کے علاوہ بی جے پی کو گجرات میں
اپنے کمزور ہوتے ہوئے موقف، مخالف حکمران رجحان اور کیشو بھائی پٹیل کی
بڑھتی ہوئی طاقت کا بھی اندازہ ہے۔ اسی لیے نریندر مودی گجرات میں پہلی بار
مسلمانوں کے ووٹس کے حصول کے لیے کوشاں نظر آتے ہیں ورنہ مسلمانوں کے ساتھ
وحشیانہ سلوک کرکے معذرت خواہی سے انکار کرنے والے کو مسلم ووٹس کی کیا فکر
ہوسکتی ہے؟ لیکن مودی کا مسلمانوں کی طرف میلان ہی ظاہر کرتا ہے کہ گجرات
کا ماحول اب پہلے کی طرح مودی کے لیے سازگار نہیں ہے۔ اﷲ نہ صرف ملک کو
مودی کی وزارت عظمیٰ سے بلکہ گجرات کو بھی مودی سے محفوظ رکھے (آمین)۔
گجرات میں مودی کی شکست ان کے وزیر اعظم بننے کے امکانات کا خاتمہ کرسکتی
ہے۔ |