کہتے ہیں کہ جب ایک انسان کو سانپ کاٹ لے
تو پھر اپنے سامنے پڑی ہوئی رسی سے بھی ڈرنے لگتا ہے۔ لیکن حیرت ہے اس قوم
پر جو ہر پانچ سال بعد دوبارہ انہے ہی منتخب کرتی ہے۔ جو اِن کی ترقی اور
خوشحالی کے اوپر سانپ بن کر بیٹھے ہیں۔ ہماری قوم اگرچہ کم علم ہی سہی،
لیکن اللہ نے انسان کو فیصلہ کرنے کے لیے عقل اور شعور سے نوازا کہ انسان
اپنی عقل کا درست استعمال کر کے دوسری تمام مخلوقات سے افضل ترین کہلائے،
لیکن جب پاکستانی قوم کو دیکھتا ہوں جو اچھے اور برے میں، شیطانوں اور
فرشتوں میں، کرپشن میں پی-ایچ-ڈی کرنے والوں اور ایمانداروں کی لائن میں
کھڑے ہونے والوں میں فرق نہیں کر پاتے ، انہیں دہکھ انسان ایک بار سوچنے پر
مجبور ہو جاتا ہے کہ “کیا پاکستانی قوم بھی اشرف المخلوقات ہے“-
اگر رات کو سوتے ہوئے ایک مچھر بھی کاٹ لے تو ہم نیند سے جاگ کر اُس مچھر
کو کچل ڈالتے ہیں۔ لیکن کیا ہم نے کبھی یہ سوچا کہ وہ لوگ جو ہمیں ٦٥ سالوں
سے کاٹ رہے ہیں،ہمارے خون کا ایک ایک قطرہ نچوڑ کر اغیار کو بیچ رہے ہیں،وہ
جو حکمرانوں کی اشکال میں بھیڑئے خود پر مسلط کر کے بیٹھائے ۔ہوئے ہیں۔
اُنھیں ہم کب کچلیں گے۔ کیا تاعمر انہے ہی ووٹ ڈال کر نامزد کرتے رہیں گے۔
اور پھر اگلے پانچ سال تک انہیں ہی گالیاں اور برا بھلا بولتے رہیں گے۔ اور
اپنے دل کو یہ جھوٹی تسلیاں دیتے رہیں گئے کہ “ ہم ٹھیک ہیں، غلط تو بس
ہمارے حکمران۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ “
اگر سوچا جائے تو یہ کس کا قصور ہے؟ کیا اُن کا قصور ہے جو ١٠٠٠،١٠٠٠ روپے
کے بدلے ووٹ خرید لیا کرتے ہیں۔ یا پھر گہری نیند میں سوئی ہوئی اُس قوم کا
جو صرف چند روپے کی خاطر اپنے ضمیر اور اگلے پانچ سالوں کا سودا کر لیتے
ہیں؟ اور پھر کسی مجلس میں بیٹھے یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ “ پاکستان کا
کچھ بھی نہیں ہو سکتا “-
ہائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب تو ماتم کرنے کا دل بھی نہیں کرتا اِس قوم پر۔ یہ قوم جو
آزاد ہو کر بھی غلام ہے۔ لیکن ان تمام باتوں کے باوجود میں اُس وقت لاجواب
رہ جاتا ہوں۔ جب لوگ کہتے ہیں “ہم آزاد ہیں “
لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ
“ ہم آج بھی آزاد ملک کے غلام لوگ ہیں “ |