ہما رے ہا ں الٹا گنگا بہتی
ہے۔دنیا کے اکثر ممالک سے ہما رے طور طریقے با لکل مختلف ہیں۔کہنے کو تو ہم
مسلما ن ہیں مگر جتنی ما دہ پر ستی،روپیہ پر ستی اور دولت جمع کرنے کا شوق
ہما رے ہا ں پا یا جاتا ہے۔شاید اس کی مثا ل دنیا بھر میں نہ ملے۔ہما را
ایلیٹ طبقہ جس طریقے اور جس چالاکی کے ساتھ دولت کے انبار لگانے میں مصروفِ
عمل ہے۔عام آ دمی بیچارہ تو اس کے سمجھنے سے ہی قا صر ہے۔
ویسے بھی سر ما یہ دار طبقہ نے عام آدمی کو اس طر ح مسائل اور مشکلات میں
پھنسا کے رکھ چھو ڑا ہے کہ اس بیچا رے کو اس ہو س پرست طبقہ کے چالوں کو
سمجھنے کی فرصت ہی نہیں ملتی۔اسے تو اپنی روٹی کی فکر پڑی ہو ئی ہے،بھلا وہ
کسی اور کے بارے میں کیا سو چے گا؟
ہما رے ہا ں ہو نے والے عام انتخابات کو ہی لے لیجئے۔عام طور پر تو یہی
سمجھا جا تا ہے کہ جو لوگ عام ا نتخابات میں حصہ لیتے ہیں یا جو سیاسی پا
رٹیاں عام انتخا بات میں مقا بلہ کے لئے میدانِ عمل میں بر سر پیکا ر ہوتی
ہیں،ان کو کثیر سر مایہ خرچ کر نا پڑتا ہے۔حا لا نکہ در حقیقت ایسا نہیں
ہے۔بے شک ا نتخابات میں وہ ایک کثیر رقم خرچ کرتے ہیں مگر اپنے جیب سے نہیں
بلکہ دوسروں کے جیب پر ڈاکہ ڈال کر خرچ کرتے ہیں۔خصو صا حکمران طبقہ کے لئے
تو ا نتخابات بہت سوٹ کرتے ہیں۔ان کے لئے انتخابات کما ئی کا ایک ذریعہ ہو
تے ہیں۔اپنے دورِ حکمرانی میں وہ اپنے من پسند لو گوں کی تقرری اپنے اپنے
علاقوں میں کر لیتے ہیں۔ڈپٹی کمشنر سے لے کر پٹواری تک وہ اپنے مر ضی کے
افراد کو کر سیوں پر بٹھا دیتے ہیں ۔جب اتخابات کا اعلان ہو تا ہے تو ان کو
مخصوص رقم جمع کرنے کا حکم دیا جاتا ہے اور ان کے وفادار انتظا میہ کے
ملازم ہنسی خو شی اپنے اپنے مخصوص ذرائع سے طلب کردہ رقم جمع کرکے متعلقہ
امیدوار کے حوالہ کر دیتے ہیں۔اس قسم کی واردات عموما انفرادی طور پر کی جا
تی ہے۔اجتما عی واردات عمو ما سیا سی جما عتیں کرتی ہیں۔
سیا سی جما عتیں اور سیا ستدان نہ صرف تا جروں ، صنعتکا روں،ٹھیکداروں اور
زمینداروں سے نو کر شا ہی کے ذریعے کروڑوں روپے کے چندہ اکٹھا کر لیتے ہیں
بلکہ انتخابات کے نام ریا ستی و سائل کا بھی خوب استعمال کرتے ہیں۔چندوں سے
اکٹھی کی گئی رقم اتنی ذیادہ ہو تی ہے کہ انتخابات ہو نے کے بعد اچھی خا صی
رقم بچ بھی جاتی ہے جو سیا ست دانوں کے جیب خرچ اور بنک بیلنس میں ا ضا فے
کا سبب بھی بنتی ہے۔
با ہر مما لک میں بھی انتخابات کے نام پر چندہ اکٹھا کیا جاتاہے لیکن یہ پا
ر ٹی کے نام پر اکٹھا کیا جاتا ہے اور ان کے اکٹھا کر نے میں بیو رو کر یسی
استعمال نہیں کی جاتی۔پھر ان مما لک میں اکٹھی کی گئی رقم پا رٹی کی ملکیت
ہو تی ہے اور ان کے خر چ کا با قا عدہ حساب کتاب رکھا جاتا ہے۔ جبکہ ہما رے
ملک میں یہ لو ٹا ہو ا مال سمجھا جا تا ہے اور اس کا کو ئی حساب کتا ب نہیں
رکھا جاتا۔ہمارے سیا ستدان اور سیا سی پا ر ٹیا ں صرف اندرونِ ملک ہی نہیں
بلکہ بیرونِ ملک سے بھی فنڈ اکٹھا کرنے کا ہنر بھی خوب جا نتی ہیں۔بعض غیر
ملکی حکو متیں بھی اپنے پسندیدہ سیا ستدانوں کے خزا نے بھر تی ہیں۔لیڈروں
کے قریبی سیاسی کا رکن بھی انتخابات کے انعقاد سے خوش ہو تے ہیں کیو نکہ ان
کے لئے بھی انتخا بات کافی مفید ثابت ہو تے ہیں ۔کیو نکہ الیکشن کے وقت
سیاسی لیڈر اپنے کا رکنوں پر خصوی طور پرمہربان ہوتے ہیں۔الیکشن کے دوران
نہ صرف ان کے جیبوں کے بٹن ان کے لئے کھلے ہوتے ہیں بلکہ یہی وہ دن ہو تے
ہیں ،جب سیاسی کا کن ان سے چھو ٹے چھو ٹے کام اور دیگر فوا ئد حاصل کرتے
ہیں۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ قوم کو انتخابات کا فا ئدہ ہو یا نہ ہو، مگر
سیاستدان انتخابات کی بہتی گنگا میں خوب ہا تھ دھو تے ہیں اور مال بناتے
ہیں ۔گویا عام انتخابات بھی ان کے کما ئی کا ایک ذریعہ ہے۔اور اس بات کا
بین ثبوت بھی ہے کہ ہما رے حکمران اور سیا ستدان بڑے شا طر اور عقلمند ہیں
جو خرچ، اخراجات اور نقصان کو بھی اپنے ما ہرانہ چال سے آمدن میں بدلنے کا
ہنر جانتے ہیں۔ |