میں اس امر سے بخوبی واقف ہوں کہ
صحافی کو غیر جانبدار ہونا چاہئیے کہ اس کے پڑھنے والوں اور اسے پسند کرنے
والوں میں ہر مکتبہ فکر کے لوگ ہوتے ہیں جن کا اپنا مذہب اور اپنی سیاسی
سماجی اور فکری سوچ ہوتی ہے جس کا خیال کیا جانا بہر حال ضروری ہے لیکن اس
کا کیا کیا جائے کہ اب اس اصول کا پاکستان کی حد تک تو خاتمہ بالخیر ہی
جانئیے۔لوگ لکھ رہے ہیں اور کچھ تو سوائے اپنے ممدوحین کی حمدو ثناء بیان
کرنے کے اور کچھ لکھتے ہی نہیں۔کچھ مرغانِ باد نما بھی ہیں جو ہوا کا رخ
دیکھ کے لکھتے ہیں۔اپنا مسئلہ یہ ہے کہ وہی لکھا جس کی اپنے اندر سے اجازت
ملی۔ایجنڈے پہ لکھنے والوں پہ اﷲ کی مار۔ہم تو مدت سے انسان کا بے ساختہ پن
مانگتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران کا نظریہ اور اس کی پاکستان کے
بارے میں سوچ اور لگن اچھی لگتی ہے اور اس کے کہے پہ یقین بھی ہے لیکن یہ
بات مں اپنے سارے قارئین کو گواہ بنا کے کہتا ہوں کہ جس دن لگے گا کہ عمران
کی پاکستان کے بارے میں سوچ بدل گئی ہے ہم اس کے جھنڈے کے نیچے نہ ہوں گے۔
عمران خان سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی نہ ہی اس کا کوئی شوق ہے۔ایک آدھ دفعہ
موقع بھی تھا لیکن سوچا مصروف آدمی ہے ہم جیسے ناکارہ مل کے اس کا وقت ہی
ضائع کریں گے۔عرضِ مدعا یہ ہے کہ ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرفدار
نہیں۔پاکستان ہمارے ایمان کا حصہ ہے کہ اﷲ کریم کے نام پہ بنا ہے۔جو بھی
ہماری دانست میں پاکستان کو بنانے کی اسے سنوارنے کی بات کرے گا ہم
خالصتاََ اﷲ کی رضا کے لئے اس کے شانہ بشانہ ہوں گے۔عمران خان کا ایک کریڈٹ
تو بہر حال ہے ہی جو اور کسی کے پاس نہیں کہ اس نے اب تک پاکستان کو کچھ
دیا ہی ہے اس سے لوٹا یا چھینا کچھ نہیں۔سارے اچھے ہوں گے لیکن اس ایک میرٹ
پہ ہمیں اس پہ زیادہ اعتبار ہے۔لیڈر یا قائد کے لئے ہمارا معیار بہت بلند
ہے۔کل کسی نے کیا کیا یہ بات اہم نہیں کہ ہر ولی کا ایک ماضی اور ہر گنہ
گار کا ایک مستقبل بھی ہوتا ہے انسان کو تو اﷲ قسم کھا کے کہتا ہے کہ خسارہ
ہے۔ وہ خطا کا پتلا ہے ۔مجھے تو یہ دیکھنا ہے کہ جب سے وہ میرا امام بنا ہے
امامت کے شایان ِ شان کام کر رہا ہے یا نہیں۔اس امتحان میں عمراں خان پورے
سو نمبر لیتا ہے تو میں نے اس کی امامت میں نیت باندھ لی ہے۔
وہ تبدیلی کی بات کرتا ہے۔چہروں نہیں نظام کی تبدیلی کی۔اس نے اپنی پارٹی
کو لمٹییڈ کمپنی نہیں بنایا۔اس نے قیادت کو گراس روٹ لیول پہ اپنی پارٹی کے
کارکنوں ک حوالے کر دیا ہے۔جوانوں اور نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ان پارٹی
الیکشن کے بارے میں پر جوش ہے۔وہ اس الیکشن میں بڑھ چڑھ کے شریک ہیں۔الیکشن
سے پہلے الیکشن کا ماحول ہے۔پرانے گرگ بھلے ہی اس الیکشن میں بھی اپنی مرضی
کے نتائج حاصل کرنے کو سر دھڑ کی بازی لگا رہے ہیں۔لیکن مجھے یقین ہے کہ
کپتان کی یہ نئی منتخب ٹیم کپتان کی عزت رکھے گی اور انہی لوگوں کو منتخب
کرے گی جو کپتان کے نظرئیے پہ پورا اترے ہوں۔تبدیلی یہیں سے آئے گی۔اگر
پاکستان تحریکِ انصاف کے بنیادی کارکنان نے میرٹ پہ اپنے نمائندے چن لئے
۔اگر جوہرِ قابل کو اس کی جگہ مل گئی تو سمجھ لیں کہ تبدیلی کا سفر شروع ہو
گیا لیکن اگر کپتان کی تبدیلی کی سوچ کے پہلے مرحلے ہی پہ آپ نے اس کے ساتھ
دھوکا کیا تو جان لیجئیے کہ آپ کا سفر پھر رائیگاں جائے گا۔ اس نے بطورِ
قائد اپنا فرض ادا کر دیا کہ اس نے اختیار آپ کے ہاتھ میں دے دیا۔آپ اس
اختیار کو استعمال کر کے تبدیلی کے اس سفر کا نقطہ آغاز بن سکتے ہیں۔
یونین کونسلز کی نمائندگی صرف ان لوگوں کے حوالے کریں جن کے بارے میں آپ کو
یقین ہوں کہ وہ لوگ واقعہ آپ کی نمائندگی کے قابل ہیں۔ذات برادری فرقہ جنبہ
تبدیلی کے نعرے کے لئے زہرِ قاتل ہیں۔اس دفعہ ایمان داری اور امانت داری کو
اپنا جنبہ بنائیں۔میرٹ کو اپنی برادی جانیں اور قابلیت کو اپنی جماعت۔اگر
آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کا ذاتی دشمن اس قابل ہے کہ وہ تبدیلی کے اس سفر میں
عمران خان کے قافلے کی قیادت کا اہل ہے تو اپنی ذاتی دشمنی کو اپنی آن والی
نسلوں کے لئے تھوڑی دیر کو اٹھا کے طاق پہ رکھ دیجیئے ۔آپ کا یہ احسان آپ
کی آنے والی نسلوں کو نصف صدی کی غلام سے آزاد کر دے گا۔اپنے راہنما چنیں
اور ایسے کہ کل کو آپ کو کوئی شرمندگی نہ ہو۔انہی چراغوں نے جل کے کل کو
روشنی کرنا ہے ۔اگر آج آپ نے مانگے تانگے ک چراغ لے کے روشن کر بھی لئے تو
یقین جانئیے کل اندھیرا ہی اندھیرا ہو گا اور ہم بس ہاتھ ملتے رہ جائیں
گے۔یونین کونسلز ہی تبدیلی کے موسم کی پہلی اینٹ ہے اور یہی اینٹ اگر ٹیڑھی
رکھ دی گئی تو جان لیں کہ دیوار آسمان تک بھی چلی گئی تو وہ کبھی سیدھی
نہیں ہو سکتی۔
آپ کے منتخب کردہ یہی لوگ کل آپ کی پارٹی کی تحصیل اور ضلع پھر ریجن اور
صوبہ کی قیادت چنیں گے۔اگر یہی لوگ نا اہل اور ذات برادری کی آلائشوں میں
لتھڑے ہوئے ہوں گے تو کل یہ اپنے جیسوں ہی کو بالائی قیادت کے لئے منتخب
کرینگے۔اس لئے اپنے ووٹ کا حق سوچ سمجھ کے اہل قیادت کو دیں تا کہ کل قومی
سطح پہ بھی اہل قیادت آپ کی رہنمائی کو موجود ہو۔پاکستان میں ہے کوئی ایسا
قائد جو یہ کہتا ہو کہ مجھے لوگوں نے منتخب کیا تو میں چئرمین ہوں لوگوں کو
اعتبار نہیں تو جس کو چاہے اپنا چئرمین بنا لیں۔دوسروں کو تو اس طرح کا
کوئی خواب آ جائے تو بھی ہڑ بڑا کے جاگ اٹھتے ہیں اور کئی کئی دن سوتے نہیں
کہ یہ خواب کہیں دوبارہ نہ دیکھنا پڑ جائے۔عمران کا یہ شاندار اقدام لیکن
ان جدی پشتی لیڈروں کو بھی ایک دن اقتدار صحیح معنوں میں عوام کے حوالے
کرنے پہ مجبور کرے گا کہ شعور متعدی بیماری ہے اور یہ شعور تحریک انصاف نے
عام تو کر ہی دیا ہے کہ اپنے لیڈر آپ چنو،اپنے قائد آپ بنو۔اﷲ کریم آپ کا
حامہ و ناصر ہو۔آمین |