آزاد کشمیر کی سیاست میں اتنی
گراوٹ آئی ہے کہ اب آزاد کشمیر کی سیاست کے کئی واقعات پر نہ تعجب ہوتا ہے
اور نہ ہی رونا آتا ہے بلکہ کئی سیاسی واقعات سیاسی لطیفے کے طور پر ہنسنے
کے کام آتے ہیں ۔ آزاد کشمیر کے کئی سیاستدان بیان دیکر خود بھول جاتے ہیں
کہ انہوں نے کیا کہا تھا اور کئی سیاستدان حالات و واقعات کو دیکھتے ہوئے
اتنی تیزی سے اپنا موقف تبدیل کرتے ہیں کہ جب تک ان کا پہلا موقف عوام
تک”کمیونیکیٹ“ ہوتا ہے ،وہ اپنا موقف تبدیل کر چکے ہوتے ہیں۔جماعتوں میں
شامل لوگ بھی ایسے ہیں کہ ان کا لیڈر جو بھی کہے وہ اس بات پر سوچے سمجھے
بغیر زندہ باد کے نعرے لگانا شروع ہو جاتے ہیں۔
گزشتہ دنوں مسلم کانفرنس کے صدر سردار عتیق احمد خان نے پاکستان مسلم لیگ
(ن) کے مرکزی سینئر نائب صدر سردار سکندر حیات خان سے ان کی رہائش گاہ جا
کر ملاقات کی۔اس ملاقات کے دوران سردار عتیق احمدخان نے ٹیلی فون پر ان کی
بات سردار محمد عبدالقیوم خان صاحب سے کرائی۔ہمارے سیاستدان آپس میں چاہے
کتنے ہی اختلافات اور عناد کیوں نہ رکھتے ہوں ،آپس کی نجی ملاقاتوں کی ”خیر
سگالی “ کی سرگرمیاں بھی جاری رکھتے ہیں۔اس ملاقات کے ساتھ ہی مسلم کانفرنس
اور مسلم لیگ(ن) کے درمیان اتحاد اور اتفاق کی خبریں اخبارات کی زینت بننا
شروع ہوئیں۔اس ملاقات کو جب سیاسی رنگ دینے کی خبریں شائع ہوئیں تو ”بیک اپ“
کے طور پرایسے بیانات اور خبریں شائع ہوئیں جن سے اتحاد اور ہم آہنگی کی
تمام صورتحال اور اس کا مستقبل واضح ہو گیا۔ہمارے چند سینئر قلم کار جب اس
متعلق لکھتے ہیں تو وہ آزاد کشمیر کی حالیہ سیاست کے دھاگے 1947ءسے پہلے کی
مسلم کانفرنس سے جوڑ دیتے ہیں۔چاہے اس میں نیت نیک ہی ہولیکن 1947ءسے پہلے
کی مسلم کانفرنس کا موازنہ اب کی مسلم کانفرنس سے کرنا Contras تو ہو سکتا
ہے لیکن Matchingہر گز نہیں۔اس مسلم کانفرنس کے مقاصد کچھ اور تھے ،طریقہ
کار کچھ اور تھا ،گزشتہ دو عشروں کی مسلم کانفرنس کے ٹارگٹ کچھ اور
تھے،طریقہ کار کچھ اور تھا۔نام تو دونوں کا مسلم کانفرنس ہی تھا لیکن سوچ
اور عمل کے لحاظ سے ماضی کی مسلم کانفرنس اور اس مسلم کانفرنس میں زمین و
آسمان جتنا فرق نمایاں رہا۔
آزاد کشمیر میں صورتحال یہ ہے کہ اجتماعی سوچ ناپید ہوتی جا رہی ہے۔سیاسی ،حکومتی،سرکاری،سماجی
مفادات اور دلچسپیاں اضلاع اور قبیلوں میں محدود و مقید ہیں۔آزاد کشمیر کا
مالی بحران ایک مستقل شکل اختیار کر چکا ہے۔بد انتظامی،اقرباءپروری ،رشوت ،کمیشن
کے الزامات اپوزیشن ہی نہیں بلکہ حکومت میں شامل حلقوں کی جانب سے بھی
سامنے آ رہے ہیں۔بنایا تو آزاد کشمیر تمام ریاست کی نمائندہ حکومت کے طور
پہ تھا لیکن خرابیاں اس قدر بڑھ گئیں کہ تمام ریاست کی نمائندگی کا کبھی
دعوی رکھنے والا یہ آزاد کشمیر خود اپنے آئینی اختیارات حاصل نہ ہونے کا
شاکی ہے۔میرٹ کے لحاظ سے آزاد کشمیر علاقائی و قبیلائی سیاست کا شاندار
نمونہ پیش کرتا ہے۔بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ” اس وقت آزاد کشمیر کے ہر
ضلع کا اپنا اپنا مسئلہ کشمیر ہے“۔
مجھے یاد ہے کہ مسلم کانفرنس میں الگ ہونے اور پھر اکھٹے ہونے کا شاید د
وسرا موقع تھا، جب نکیال میںسردار فتح محمد خان کریلوی مرحوم کے مزار کے
ساتھ واقع مسجد میںمنقسم مسلم کانفرنس کے رہنما اتحاد کے عزم کے ساتھ اکھٹے
ہوئے۔وہاں سردار عبدالقیوم خان صاحب،سردار سکندر حیات خان،راجہ فاروق حیدر
خان اور سردار عتیق احمد خان موجود تھے۔سر دار سکندر حیات خان نے اس موقع
پر تقریر میں کہا کہ ”اب سردار عتیق احمد اور راجہ فاروق حیدر ہی مسلم
کانفرنس کا مستقبل ہیں“۔مجھے یہ بھی اچھی طرح یاد ہے کہ مسلم کانفرنس کی
ماضی کی ایک نامور معتبر شخصیت کے بقول ”جیسی تیسی،رہی سہی مسلم کانفرنس
1985ءتک ہی قائم رہی،اس کے بعد گروپوں کی سیاست شروع ہو گئی“۔مختصر طور پہ
یہی کہا جا سکتا ہے کہ پتھر مسجد سرینگر میں قائم ہونے والی مسلم کانفرنس
کو آزاد کشمیر میں پتھروں میں دبا دیا گیا اور پتھروں کے اس ڈھیر کے مزار
پہ مجاورت ہی مسلم کانفرنس کے نئے ”اعلی نظریات“ قرار پائے۔
میرے خیال میں اگر راجہ فاروق حیدر خان کی حکومت کوختم نہ کیا جاتا تو آج
نہ صرف یہ کہ مسلم کانفرنس قائم و دائم ہوتی بلکہ سردار عتیق احمد خان اس
وقت پوری قوت کے ساتھ آزاد کشمیر کے مضبوط وزیر اعظم ہوتے۔میری رائے میں
سردار عتیق احمد خان کو آزاد کشمیر کا بڑا لیڈر بننے کا موقع اور مقام ملا
تھا لیکن وہ اسے قائم نہ رکھ سکے اور شاید ان کے اس بڑے اور فیصلہ کن نقصان
کا ادراک ان کی وہ ”کچن کیبنٹ /نادان دوست “ نہ کر سکے جو فوری فائدے کے
لئے سونے کے انڈے دینے والی مرغی کو ذبح کر کے کھا جانے کو ہی عقلمندی قرار
دیتے ہوئے کہتے رہے کہ
” تو نہیں تیرا غم تیری جستجو بھی نہیں ، گزر رہی ہے کچھ اس طرح سے زندگی
میری کہ اسے کسی کے سہارے کی ضرورت بھی نہیں “۔
اپنی ہی جماعت میں شامل گروپوں کو اخلاقیات سے زیر کرنا گئے وقتوں کی بات
قرار دی گئی۔اب اس تمنا کی حسرت ہی کی جا سکتی ہے ۔بقول شاعر
اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چک گئیں کھیت
یہ بھی گزشتہ دو عشروں کی المناک داستان ہے کہ علاقائی ، برادری ازم اور
خاندانی مفادات کی سیاست میں ریاستی تشخص کی دھجیاں بکھیر دی گئیں اور اب
آزاد کشمیر میں ریاستی تشخص ایک ایسی عزت ہے جو کب کی لٹ چکی ہے۔لٹی عزت کا
احساس کرنے کی نہ سوچ نظر آتی ہے نہ عمل اور نہ ہی اس کا کو ئی امکان نظر
آتا ہے۔مسلم کانفرنس کے نہ تو نظریات ختم ہوئے ہیں اور نہ ہی اس کی سوچ و
عمل کا کردار ناپید ہوا ہے لیکن اس جماعت کی عملی حیثیت کا عالم یہ ہے کہ
دل کے پھپھولے جل اٹھے دل کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
آزاد کشمیر میں حکومت میں ہونے کے باعث پیپلز پارٹی ایک بڑی قوت ہے اور اس
کا مقابلہ آزاد کشمیر کی ڈیڑھ درجن سیاسی ،مذہبی و سماجی تنظیموں کا اتحاد
نہیں کر سکتا۔پیپلز پارٹی کو ہٹانے کے لئے اگر ماضی کی طرح ہی غدار
گروپوںکی حمایت حاصل کرنے کا طریقہ کار اپنایا گیا تو یہ عمل ایک بار پھر
”ریورس“ ہو سکتا ہے ۔لہذااب اگر آزاد کشمیر میں عوام،علاقہ اور تحریک آزادی
کشمیر کے لئے بہتری مطلوب ہے تو ایک بڑی اور مضبوط سیاسی جماعت ہی اس راہ
کٹھن میں کچھ پیش رفت کر سکتی ہے۔ |