سرمایہ دارانہ جمہوریت قومی
بحرانوں کی روٹ کاز ہے اس نام نہاد جمہوری نظام نے پاکستان میں مفلس کومفلس
تراورامیرکوامیر تربنادیااس جعلی جمہوریت نے قومی معیشت کاخون چوس لیا مغرب
برانڈ جمہوریت مشرق میں کامیاب نہیں ہوسکتی اب ملک میں عام انتخابات کی
آمدآمد ہے پرانے شکاریوں نے نیاجال بچھادیا عوام گلی محلے کے معاملات کی
بجائے قومی سوچ کے تحت ووٹ پرمہرثبت کریں کیونکہ اب ایک بات عوام کو سمجھ
لینا چاہیے کہ ا س جمہوریت کی ڈوریاں سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں ہیں
اورانہوں نے اپنے مفادکیلئے ہمارے ہاںموروثی سیاست کاراستہ ہموار کیاہوا ہے
جمہوریت کیلئے قربانیاں ہربارصرف عوام دیتے ہیں مگراس کے ثمرات پرہمیشہ سے
صرف سرمایہ دارسیاستدانوں نے اپنا قبضہ جمارکھاہے پاکستان کی سرمایہ
داراشرافیہ نے کبھی عام آدمی کوشریک اقتدارنہیں کیااورنہ کبھی کرے گی
سرمایہ دارسیاستدان ،صنعتکاراوروڈیرے ملک وقوم سے مخلص نہیں عوام اپنے اور
مادروطن کے روشن مستقبل کیلئے اپنی صفوں میں سے باکرداراورباضمیر نمائندے
تلاش کریں جس وقت تک پاکستان میں سرمایہ دارانہ جمہوریت کاوجودباقی ہے ،سرمایہ
دار سیاستدانوں کے ہاتھوں عام آدمی استعمال اوراس کااستحصال ہوتا رہے گا جس
کی تازہ اور زندہ مثالیں ہم سب کے سامنے ہیں کہ صدر آصف علی زرداری
سمیت67فیصد ارکان پارلیمنٹ نے 2011ءمیں ٹیکس گوشوارے جمع نہیں کرائے ان میں
69فیصد ایم این ایز اور 63فیصد سینیٹرز شامل ہیں سال 2011ءمیں مشاہد حسین
سید نے سب سے کم 82 روپے اور مسلم لیگ فنکشنل کے جہانگیر ترین نے سب سے
زیادہ 1کروڑ 70لاکھ روپے ٹیکس ادا کیا اعتزاز احسن 1کروڑ 29لاکھ روپے کے
ساتھ دوسرے عباس خان آفریدی 1کروڑ 15لاکھ کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہے سابق
وزیراعظم یوسف رضا گیلانی ،چوہدری پرویز الہیٰ،رحمان ملک،امین فہیم اور
نذرگوندل سمیت کابینہ کے 30اراکین نے ٹیکس گوشوارے جمع نہیں کرائے،پبلک اکاﺅنٹس
کمیٹی کے چیئرمین ندیم افضل چن اور ڈپٹی چیئرمین سینٹ صابر بلوچ ،اسفندیارولی،مولانا
فضل الرحمن، آفتاب شیرپاﺅ اور فیصل صالح حیات بھی ٹیکس گوشوارے جمع نہ
کرانے والوں میں شامل ہیں وزیر ریلوے حاجی غلا م احمد بلور ، چودھری وجاہت
حسین ، نذر محمد گوندل ، مخدوم امین فہیم ،فرزانہ راجہ ، ڈپٹی چیئرمین سینٹ
صابر بلوچ اور چیئرمین پبلک اکاونٹس کمیٹی ندیم افضل چن بھی بھی شامل ہیں
ٹیکس جمع نہ کرانیوا لی پارٹی سربراہوں میں عوامی نیشنل پارٹی کیاسفند یار
ولی ، جے۔ یو۔ آئی(ف) کے مولانا فضل الرحمان ، پیپلز پارٹی شیرپاو کے آفتاب
احمد خان شیرپاو، فنکشنل لیگ کے پیر صدرالدین راشدی اور بی۔این۔ پی عوامی
کے یعقوب بزنجو بھی شامل ہیںشامل ہیں 2011ءمیں سب سے کم ٹیکس مسلم لیگ ق کے
سیکرٹری جنرل سینیٹر مشاہد حسین سید نے جمع کرایا جو صرف 82روپے ہے قومی
اسمبلی کے تین سو بیالیس اراکین اسمبلی میں سے صرف نوے اراکین نے ٹیکس
گوشوارے جمع کرائے جبکہ دوسو پینتیس نے گوشوارے جمع نہیں کرائے ایف بی آر
ڈیٹا بیس کے مطابق ایک سو چار سینٹرز میں سے صرف انچاس نے ٹیکس گوشوارے جمع
کرائے ٹیکس گوشوارے جمع کروانے والوں میں پیپلزپارٹی کے سترہ ،مسلم لیگ ن
کے چھ، ایم کیو ایم کے چار ، اے این پی کے دو ، مسلم لیگ ق کے دو ،بی این
پی ،جے یو آئی ف اور مسلم لیگ فنکشنل کا ایک ایک سینٹر شامل ہے سینیٹر رضا
ربانی نے آٹھ لاکھ چھیالیس ہزار ،اسحاق ڈار نے بتیس ہزار سات سو
پچاس،جہانگیر بدر نے ایک لاکھ چوراسی ہزار ، بابر خان غوری نے پانچ لاکھ
پچپن ہزار ، راجہ ظفر الحق نے چھیالیس ہزار آٹھ سو چار،حاجی عدیل کے پچپن
ہزار چوبیس روپے،سینٹر طلحہٰ محمود نے 76 لاکھ سے زاہد ،فروغ نسیم نے
45لاکھ،عثمان سیف اللہ نے 17لاکھ،پیپلزپارٹی کے کریم خواجہ نے 3636،حاجی
سیف اللہ بنگش نے 4ہزار 63اور اے این پی عوامی کی نسیمہ احسان نے 4ہزار 2سو
پچاس روپے ٹیکس جمع کرایا ۔یہ ہیں ہمارے حکمران سیاستدان جو اسی شاخ کو کاٹ
رہا ہے جس پر بیٹھا ہوا ہے جبکہ غریب عوام ایک ماچس کی ڈبیا بھی خریدتا ہے
تو اس پر بھی ٹیکس ادا کرتا ہے جبکہ ہمارے یہ لٹیرے حکمران باہر سے بھی جو
کچھ منگوائیں اس پر بھی ٹیکس معاف کروا لیتے ہیں جبکہ انکے کھانے پینے سے
لیکر مرنے تک سب انتظامات سرکاری خرچ پر ہوتے ہیں اور غریب عوام خود بھوکا
رہ کر انکے پیٹ پالتا ہے کیا اسی جمہوریت کے لیے عوام قربانیاں دیتی آرہی
ہے - |