’سانحہ مشرقی پاکستان‘ سیاسی ہٹ دھرمی کا شاخسانہ

ماہِ دسمبر کے ساتھ ہمارے بہت سے دکھ سکھ جڑے ہیں۔ بانی پاکستان قائد اعظم کا یوم ولادت ان کی اس ولولہ انگیز قیادت کی یاد دلاتا ہے جس کی بدولت آج ہم ایک آزاد وطن کی فضاﺅں میں سانس لے رہے ہیں۔ 1947ءمیں جب پاکستان دنیا کے نقشے پر ابھرا توبے سروسامانی کے باوجود اس کی طویل مشرقی اور مغربی سرحدوں نے اسے پہلے دن سے ہی ایک عظیم اسلامی مملکت بنا دیا تھا۔ جس کا مستقبل روشن اورتابناک ہونے میں کسی کوکوئی شک نہیں تھا کیونکہ اس باغ کی آبیاری اس کے باسیوں نے اپنے خون سے کی تھی اور وہ اسے مزید سجانے میں پرعزم تھے۔ قائد اعظم کی قیادت ان کے جذبوں کو جلا بخش رہی تھی۔ جس طرح متحدہ پاکستان کے لوگوں نے بے سروسامانی کے باوجود صرف چند ماہ میں مملکت کے امور چلانا شروع کردیئے اس کی مثال نہیں ملتی۔پاکستان ترقی کی شاہراہ پر چل نکلا تھا مگر قائد اعظم کی وفات کے ساتھ ہی مختلف طبقات کے درمیان اختلافات سر اٹھانے لگے۔ مشرقی اور مغربی پاکستان کے باسیوں کے درمیان زبان، رنگ نسل کے امتیازات شروع ہوگئے۔ یہ معاملات اتنے بڑے بھی نہ تھے مگر اسی دوران ہمارا وہ دشمن جس نے ہماری آزادی کو تسلیم ہی نہیں کیا تھاہمارے درمیان نفرت کے وہ بیج بوگیا کہ ہمارا مشرقی بازو ہم سے جدا ہوگیا۔ اس طرح دسمبر میں قائد کا پاکستان دولخت ہوگیا۔ 40سال قبل ہماری یکجہتی کو لگنے والا یہ گھاﺅ آج بھی ہمیں کرب میں مبتلا کئے ہوئے ہے۔

سقوطِ ڈھاکہ کے بہت سے اسباب ہیں اور ان پر کتابوں کی کتابیں لکھی جاسکتی ہیں ۔ بنگلہ دیش کا قیام ایک دن میں نہیں ہوا بلکہ اس کے پیچھے بہت سے عوامل کارفرما تھے جنہوں نے ایک وقت ایک ایسے سونامی کی شکل اختیار کرلی جو سقوط ڈھاکہ کا موجب بنے۔ زبان، رنگ ، نسل کے تعصب کے علاوہ سیاسی تنگ نظری کا پہلو سب سے نمایاں رہا۔ پاکستان اور بیرونی دنیا میں سقوط ڈھاکہ کے حوالے سے یہ تاثر غالب ہے کہ فوج مشرقی پاکستان کے حالات کی ذمہ داری تھی اور اس کا دفاع کرنے میں ناکام رہی ۔ اگر حقائق کا گہرائی سے مطالعہ اور تجزیہ کیا جائے تو مشرقی پاکستان کی علیحدگی میںیہ ایک پہلو تو ہوسکتا ہے مگراسے نمایاں اور مرکزی سبب قراردینا کسی بھی لحاظ سے درست نہیں۔تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ اگر 1970ءکے انتخابات میں عوامی لیگ کی اکثریت کو تسلیم کرلیا جاتاتو حالات کو مزید بگڑنے سے بچایا جاسکتا تھا۔ مگر افسوس ایسا نہ ہوسکا۔ اس وقت کے صدر جنرل محمد یحیٰ خان نے عوامی لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان مذاکرات کی کوشش کی مگر کوئی صورت نہ نکل سکی۔ اگر اس وقت ہمارے سیاستدان مفادات اور ہٹ دھرمی کی روش چھوڑ دیتے تو مشرقی پاکستان کے عوام کے دلوں میں مغربی پاکستان کے خلاف پیدا ہونے والے نفرت کے جذبات پر قابو پایا جاسکتا تھا۔ انتخابات کے نتیجے میں عوامی تحریک کو زیادہ ووٹ ملے اور اسی وجہ سے اسے حکومت بنانے کا جائز حق حاصل تھا۔ مگر سیاستدانوں کے درمیان تکرار نے طول پکڑ لیا اور3مارچ 1971ءکوکافی تاخیر کے بعدجب ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا گیا تو ذوالفقار علی بھٹو نے اس میں شرکت سے انکار کردیا ۔ جس کے نتیجے میں یہ معاملہ بدترین سیاسی محاذ آرائی اور الزام تراشی کی شکل اختیار کرتا گیا اور آخر کارریاستی نظام کے مفلوج ہونے پر منتج ہوا۔ بھارت پہلے ہی اس صورتحال کی تاک میں تھا یہی وجہ تھی کہ اس نے بہت پہلے مکتی باہنی کو منظم کرنا شروع کردیا تھا۔مجیب الرحمان بھی ان کے ہاتھوں کی کٹ پتلی تھا جس کی بدولت اس نے مشرقی پاکستان میں قومیت کے بیج بوئے جو اب ایک تناور درخت کی صورت اختیار کرچکے تھے۔ اس سیاسی ناکامی پربنگالیوں پر قومیت کے جذبات مزید حاوی ہوگئے جو بعد ازاں پر تشدد شکل اختیار کرتے چلے گئے۔ جس کا فائدہ بھارت نے خوب اٹھایا اور اس نے اپنے فوجیوں کو مکتی باہنی کے روپ میں مشرقی پاکستان بھیج کر وہاں مسلح کارروائیوں کا باقاعدہ آغاز کردیا۔ غیر بنگالی خاص طور پر مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے افراد ان کے غیض و غضب کا نشانہ تھے۔ اس صورتحال کو قابو کرنے کے لئے پاک فوج کے جو دستے ڈھاکہ میں تعینات تھے ان کی تعداد اس وسیع بغاوت اور خانہ جنگی کو قابو کرنے کے لئے ناکافی تھی۔مغربی پاکستان سے مزید کمک حاصل کرنے کے لئے ڈھاکہ ائر پورٹ پرسیکورٹی سخت تھی کیونکہ کمک پہنچنے کا یہی واحد ذریعہ تھا۔ اسی چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے باغیوں نے بھی اس پر قبضے کا منصوبہ بنا رکھا تھا۔ بھارت نے پہلے ہی پاکستان کے لئے اپنے تمام فضائی راستے بند کرکے کمک کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی تھی۔ ائر پورٹ کو تخریب کاری سے بچانے اور ڈھاکہ پلٹن کی بغاوت کے بعد حکام نے 25مارچ کو آپریشن کیا۔بہرحال مغربی پاکستان سے بیس ہزار فوجی دس روز کے بعد مشرقی پاکستان پہنچے۔ مغربی پاکستان سے مزید کمک ملنے کے بعد جنرل اے کے نیازی نے اسے حکومت کی رٹ کو بحال کرنے کے علاوہ اسے سرحدوں پر بھی منظم کیا۔ اس طرح جو دستے بکھرے ہوئے تھے ، نئے دستوں کی آمد سے ان کے حوصلے مزید بلند ہوئے اور ان کے درمیان رابطہ کاری کا نظام بھی بہتر ہوا۔ یہ مرحلہ گو کہ انتہائی اہم تھا مگر جنرل نیازی نے اسے بخوبی انجام تک پہنچایا ۔ اس طرح اپریل 1971ءتک صورتحال پر قابو پایا جا چکا تھا۔ اس مرحلہ پر اگر قومی اسمبلی کا سیشن طلب کرکے سیاسی عمل شروع کردیا جاتا اور سیاست دان وسیع القلبی کا مظاہرہ کرتے تو حالات اس نہج تک ہرگز نہ پہنچتے جو بعد میں سقوط ڈھاکہ کا سبب بنے اور پوری قوم کو ایک بہت بڑے سانحے کا سامنا کرنا پڑا۔
Ibn-e-Shamsi
About the Author: Ibn-e-Shamsi Read More Articles by Ibn-e-Shamsi: 55 Articles with 34866 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.