سیاست اور اقتدار کے سینے میں دل
ہوتا ہے نہ درد، اسی طر ح دل و درد سے نا آشنا سیاستدان بھی اتنا ہی بے رحم
ہوتا ہے جتنا ایسے کسی بھی شخص کو ہونا چاہیے،رہ گئی اخلاقی قدریں اور وعدے
قسمیں تو ان کی ویلیو پرانے خیالات کے پرانے لو گوں کے ہاں ہی شاید اہمیت
رکھتی ہو تو ہوکیوں کہ اب نئے زمانے کے نئے تقاضے کچھ اور ہی ہیں جن کے
مطابق وعدے قرآن ہوتے ہیں نہ حدیث اور یہ قول زریں کسی ریڑھی چھابے والے کے
منہ سے نہیں نکلا بلکہ یہ خوبصورت جملہ اس ملک کے سب سے بڑے اور طاقتور
منصب پر بیٹھے شخص کے کنجہ لب سے پھوٹا،اور مجال ہے کہ ان کے کسی چاہنے
والے کی جبیں پہ کو ئی ایک شکن تک بھی تلخی کی نمودار ہوئی ہو،اور تو اور
اس سب کے با وجود صدر مملکت اپنے عہدے پر دھڑلے سے قائم و دائم ہیں اور
پاکستان کی سب سے بڑی جماعت کے کو چئیرمین بھی ہیں اصل چئیرمین کو دن دھاڑے
قتل کر دیا گیا جن کے قاتلوں کو قانون کے کٹہرے میں لانے اور کڑی سے کڑی
سزا دینے کے اعلانات اور وعدے کیے گئے اور پھر انہی کے ساتھ رازو نیاز بھی
بڑھا لیے گئے جن کو محترمہ اپنی زندگی میں ہی اپنا قاتل نامزد کر گئیں تھیں
کہ اگر مجھے کچھ ہوا تو یہ ذمہ دار ہوں گے ان میں سے ایک کو گارڈآف آنرز دے
کر اپنے آقاﺅں کے پاس بھیج دیا گیا جبکہ دوسرے کو جپھا مار کے سینے کے ساتھ
لگا لیا گیا کیوں کہ وعدے کوئی قرآن و حدیث تو ہوتے نہیں ، جو مر جائے اس
کے لیے کسی دوسرے زندہ کو مار دینا بھی ان کے نزدیک دانشمندی نہیں ،اور
نظریاتی کارکن جائیں بھاڑ میں ،منڈی میں بظاہر خوشنما نظر آنیوالی جنس کی
ہی مانگ ہوتی ہے، سردار غلام عباس اس ضلعے کے واحد سیاستدان ہیں جو پورے
ضلع میں لاوہ سے لے کر سوہاوہ تک ،ڈھڈیال سے لیکر منارہ تک اور چوا سیدن
شاہ سے لیکرڈھوک پٹھان تک اپنا ذاتی وسیع وو ٹ بنک رکھتے ہیں،یہ کسی بھی گاﺅں
یا ضلع چکوال کی کسی ڈھوک پہ بھی چلے جائیں کسی نہ کسی بیٹھک اور ڈرائنگ
روم کا دروازہ بڑی کشادہ دلی سے ان کے لیے کھل جاتا ہے ان کے علاوہ تمام
سیاسدانوں کا حلقہ اثر مخصوس علاقوں تک محدود ہے اور خود ان سیاستدانوں میں
سے بھی کئی ایسے ہیں جن کو پورے ضلع تک رسائی ہے نہ پورے علاقے کی آشنائی
اس سب کے باوجود مجھے سردار غلام عباس خان کی تازہ قلابازی سے قطعاً کوئی
حیرت نہیں ہوئی یہ خبر میرے لیے ناقابل یقین تھی اور اسکی معقول وجہ بھی ہے
میرے پاس ہے جو آگے چل کے بیان کروں گا مگر حیت اس لیے نہیں ہوئی کہ جب
مطمع نظر صرف اقتدار ہو تو پھر کوئی بھی شخص کسی بھی وقت پھسل سکتا ہے،یہ
خلفائے راشدین کا دور تو ہے نہیں کہ حضرت ابوذر غفاری ؓ جیسے جلیل القدر
صحابی کسی اجنبی کی خاطر اپنی جان گروی رکھ دیں اور جب خلیفہ تہ المسلمین
نے پوچھا کہ ابوذر جس کی خاطراپنی جان ضمانت دے رہے ہو اسے جانتے بھی ہو تو
جواب دیا بالکل بھی نہیں تو عمر بن خطاب ؓ نے کہا یاد رکھنا یہ ایک قاتل ہے
اگر واپس نہ آیا تو انصاف کے لیے آپ کی گردن اتار دی جائے گی،ابوذر نے کہا
منظور ہے اور وہ جس کی خاطر جان گر وی رکھی وہ بھی موقع غنیمت جان کے غائب
ہونے کی بجائے وقت مقررہ سے پہلے قتل گاہ میں پہنچ گیا ورنہ آج کا دور ہوتا
تو یا تو استثناءآڑ ے ا ٓ جاتا یا پھر وعدے قرآن وحدیث نہیں ہوتے والا جناب
زرداری صاحب کا تازہ فرمان ،مگر وہ لوگ قول وعمل کے سچے اور کھرے تھے باتوں
سے کبھی لوہے پہ لکیریں پڑی ہیں نہ پڑیں گی مگریہ کسی مرد کے منہ سے نکلی
ہوئی بات کے بارے میں ہی کہا گیا کہ فلاں کی بات لوہے پہ لکیر ہوتی ہے،کبھی
وقت تھا لوگ سالوں عشروں بعد جا کر کہیں کسی بہت بڑی وجہ کو بنیا د بنا کر
پارٹی بدلتے تھے اور وہ بھی شرمندہ شرمندہ مگر اب بات سالوں سے مہینوں اور
دنوں پہ آن پہنچی ،بلکہ اگر یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ اب تو گھنٹو
ں اور صبح شام کا بھی اعتبار نہیں رہا ،اور اقتدا ر کا کھیل تو ہوتا ہی بڑا
بے رحم ہے،اگر کوئی سی بھی کسی کی بھی تاریخ اٹھا کے دیکھی جائے تو اقتدار
کے پجاریوں نے باپ کی آنکھیں نکالیں،بھائیوں کو زندان میں ڈالا،پورے خاندان
کو تہ تیغ کیا،حاکم حکومت اور حکمرانی کا رسیااپنی اقتدار کی حرص وحوص کی
خاطر کچھ بھی کر سکتا ہے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے پارٹی بدلنا اور
قلابازیاں کھانا تو عام سی بات ہے،اپنے ملک کو دیکھیں تو یہاں ایسے سیا
ستدان آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں جنھیں اپنی بات اپنے قول و فعل کا ذرا
سا بھی پاس ہو،محسن کشی اور پیٹھ میں خنجر گھونپنا ہی یہاں کی سیاست کا
اصول ہے ،اسکندر مرزا نے آئین کو تاراج کر کے جنرل ایوب کو اپنی نگاہ کرم
سے نواز ا اسی جنرل ایوب نے فقط چند دن بعد اسکندر مرزا کو اقتدار تو رہا
ایک طرف ملک سے بھی نکال دیا،پھر ایوب یحیٰ کو لے آیا اور یحیٰ ایوب کو لے
گیا،ذولفقار علی بھٹو نے میرٹ کی دھجیاں اڑا کے ضیا الحق کی طرف نظر التفات
کی اسی ضیاءنے بھٹو کے گلے میں پھانسی کا پھندا ڈالا،غلام اسحٰق ،فاروق
لغاری اور پھر میاں نواز شریف اور مشرف کس کس کا ذکر کیا جائے اور کس کس کا
نہ کیا جائے،اور اپنے سردار عباس پہلے پیپلز پارٹی میں بے نظیر کے دیرینہ
ساتھی رہے ،بے نظیر نے صوبائی وزارت کا تاج سر پر سجا دیا ،پھر انہوں نے
صلے میں پیپلز پارٹی اور بے نظیر کے ساتھ جو کچھ کیا وہ کسی سے بھی ڈھکا
چھپا نہیں،پھر مشرف صاحب منتخب حکومت پر قبضہ کر کے جلوہ گر ہوئے تو سردار
صاحب نے ایک منٹ کی دیر نہ لگائی اور نہ صرف ایک ڈکٹیٹر کے حلقہ بگوش ہو
گئے بلکہ متعدد جلسوں میں اپنے حق میں جعلی کالم لکھوانے والے گورنر خالد
مقبول کی موجودگی میں پرویز مشرف کو اس قوم کا نجات دہندہ اور اپنا حقیقی
لیڈر قرار دے دیا، مشرف کی موجودگی میں اس کی شان میں یوں قصیدے پڑھے کہ اس
قوم کو اب اصلی مسیحا ملا ہے جو اس قوم کی تقدیر بدلے گا،اور بلدیہ چکوال
میں ایک دفعہ جب صحافیوں کی موجودگی میں سردار عباس نے یہ بات متعدد دفعہ
دھرائی کہ پرویز مشرف میرے لیڈر ہیں تو مجھے دلی طور پر دکھ ہوا کہ ایک
خالصتاً عوامی سیاستدان کو ایسی بات نہیں کرنی چاہیے کہ وہ ایک آمر کو اپنا
لیڈر کہے تاہم اس مشرفی قصیدہ گوئی کی وجہ سے تین چار پیارے ناظمین میں
شامل ہو گئے،پہلی بار جنرل مجید ملک سے اتحاد کر کے ضلع ناظم بنے اور ناظم
بننے کے بعد تو کون اور میں کون،بعد ازاں ناظم بننے کے لیے ق لیگ کی جھولی
میں بیٹھ کر پرویز الہیٰ پر ایسا جادو کیا کہ وزیراعلیٰ کو دو ٹوک میڈیا پر
کہنا پڑا کہ ضلع ناظم کے لیے جنرل عبدالمجید ملک نہیں( جو بظاہر ق لیگ کے
درجنوں نائب صدور میں سے ایک تھے) سردار غلام عباس ق لیگ کے اور سرکاری
امید وار ہیں،اس اعلان میں درپرہ حافظ عمار یاسر کا نام بھی لیا جاتا ہے جن
کے چوہدری برادران سے فیملی تعلقات ہیں،پرویز الہیٰ نے نہ صرف سردار عباس
کی دھواں دھار انتخابی مہم چلائی بلکہ گورنمنٹ کے خزانے کا منہ بھی ان کے
لیے کھول دیا،سردار عباس ناظم منتخب ہو گئے سردار صاحب نے پرویز الٰہی کے
احسان کا بدلہ چکانے کے لیے ڈحڈیال کے جلسہ عام میں انہیں اپنے حلقے سے
الیکشن لڑنے کی پیشکش کر ڈالی اورخود ان کی الیکشن کمپین کی اور آج اسی
پرویز الٰہی کا مقابلہ کرنے اور اسے ہرانے کے لیے جناب ن لیگ میں جا رہے
ہیں سبحان اللہ،،، دوسری مرتبہ اپنی نظامت کے چار سال پورے ہونے اور مشرف
اور اس کے نظام کے جانے کے بعد نہ وہ پروٹوکول رہا نہ وہ طنطنہ ،جس کے
سردار عباس عادی ہو چکے تھے،تاہم جب ضلعی ناظمین کے احتساب کا شور مچا اور
ان ناظمین کی کرپشن کے بڑے بڑے اشتہارات پنجاب گورنمنٹ نے اخبارات میں شائع
کروانا شروع کیے تو سردار عباس نے وزیر اعلیٰ پنجاب اور ن لیگ پر بھرپور
تنقید کی اور ایک بڑے ناقد کے طور پر سامنے آئے،پھر جنرل پاشا کی کرامت تھی
یا لاہوری سونامی کا جلوہ ،سردار عباس کی حاکمانہ اور اقتدار پرست طبیعت
عمران خان کو دیکھ دیکھ کے مچلنے لگی،اور سردار صاحب نے جھٹ پٹ عمران خان
کو دورہ چکوال کی دعوت دے ڈالی کہ آئیں اور ہمارے سروں پہ دست شفقت رکھیں
ساتھ ہی اپنے مصاحبین کو یہ شاہی حکم بھی دے ڈالا کہ وہ بہت بڑے جلسے کا
اہتمام کریں اور لوگوں کو یہ باور کرایا گیا کہ اس فیصلے سے قبل عوام کی
رائے لی جائے گی جو فیصلہ کریں گے وہی کیا جائے گا ،اتنے بڑے جلسے میں عوام
کی رائے لینے پر مجھے بچپن میں کسی جنگل میں کسی پہاڑی جسے پنجابی میں دند
کہتے ہیں کے سامنے کھڑے ہو کر ؛دندی اے دندی اے ما موئی آکہ پیوءاور دندی
سے آخری آواز ٹکرا کے واپس آتی اور لگتا کہ دند جواب دیتی ہے حالانکہ وہ بے
چاری کیا جواب دیتی آپ جو بھی اس سے پوچھیں آپ کی ہی بات کا آخری لفظ اس سے
ٹکرا کر آپ تک پہنچتا ہے چاہے پہلے ما کہیں یا پیو،اور سردار عباس نے بھرے
جلسہ عام میں عمران خان کا ہاتھ پکڑ کر کہا کہ میں عمران کا ساتھ دے رہا
ہوں بتاﺅ تمیں قبول ہے یا نامنظور،،، ،ضیاءالحق کا ریفرنڈم،پاکستان کا مذہب
اسلام ہونا چاہیئے ہاں یا نہیں میں جواب دیں،اور ہاں میں جواب پا کر مرد
مومن 95 فی صد لوگوں کی حمایت سے صدر پاکستان منتخب ہو گئے،اور ابھی تحریک
انصاف میں شمولیت کی چکا چوند باقی ہے اور وزیرستان کے پھیرے کو تو چند دن
بھی نہیں گزرے کہ جب آپ کہتے تھے کہ ہے کوئی ایسا دلیر لیڈر عمران خان کے
سواجو ان حالات میں وزیرستان کا دورہ کرے اور اب اچانک بیٹھے بٹھائے ن لیگ
کی ہمدردی جاگ پڑی اور مسیحائی کی تمام خوبیاں،بے نظیر و مشرف وچوہدریوںاور
عمران خان سے ہوتی ہوئی اب میاں نواز شریف میں یکجا ہو کر آپ کو نظر آنے لگ
گئیں، مجھے جب یہ خبر ملی تو بہت سوں کی طرح میرے پاس بھی اس خبر پر یقین
نہ کرنے کی معقول وجہ سردار صاحب سے فقط چند روز قبل بلکسر کے مقام پر ہونے
والی وہ ملاقات تھی جس میں چکوال سے صرف چند سرکردہ صحافیوں کو بلایا گیا
تھا اور یہ ملاقات بقول سردار صاحب کے انہی چہ مہ گوئیوں اور غلط فہمیوں کے
ازالے کے لیے تھی جو سردار عباس کی ن لیگ میں شمولیت کے حوالے سے پھیلائی
جارہی تھیں،سردار صاحب نے لگ بھگ ڈیڑ ھ گھنٹہ عمران خان کے گن گائے اور وضح
اور دو ٹوک الفاظ میں بتایا کہ میں ابھی عمرہ کر کے آیا ہوں کوئی غلط فہمی
میں نہ رہے میں نے دوستوں کو اعتماد میں لے کر عمران خان کا ہاتھ پکڑا ہے
اور دوستوں اور چکوال کی عوام نے مجھ پہ جو اعتماد کیا میں اس کو نہیں
توڑوں گا اور اب میرا جینا مرنا عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ
ہے میں اگلا الیکشن تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے لڑوں گا البتہ آپ لوگوں سے
گذارش ہے کہ مجھ سے یہ سوال نہیں کریں گے کہ میں کس حلقے سے لڑوں گا کیوں
کہ ابھی اس کا فیصلہ ہم نے نہیں کیا اور ابھی اس پریس کانفرنس کی سیاہی بھی
خشک نہیں ہوئی اور،،،،،،،،، سردار صاحب یہ آپ کا فیصلہ ہے جسے آپ کے سوا
کوئی دوسرا نہیں بدل سکتا مگر پہلے پرویز مشرف راہبر و راہنما پھر چوہدری ،کل
تک عمران خان اور اب میاں برادران،کبھی اکیلے بیٹھ کر سوچیئے گا ضرور کہ اس
فیصلے سے آپ کی ساکھ کو تقویت پہنچی ہے یا اس نے آپ کے ان دوستوں کو شدید
مایوس کیا ہے جو ہر دکھ درد اور مشکل وقت میں آپ کے ساتھ رہے اور آپ کی ہر
قلابازی سے پہلے وہ لوٹنی لگانے کو تیار ہوتے تھے،اور اگر پھر بھی فیصلہ نہ
ہو تو جنرل عبدالمجید ملک اور چوہدری لیاقت کا موازنہ کر لیجیے گا ایک جگہ
ڈٹے رہنے اور آنیاں جانیاں لگائے رکھنے والوں کی عزت، اہمیت اور شخصیت واضح
ہو جائے گی،،،،،،،،،،،، |