حریت رہنما اور رہنمائی کے تقاضے

مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت سے آزادی/مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کے لئے مسلح جدوجہد 1988ءسے سابق صدر جنرل پرویز مشرف کی طرف سے بھارت کے ساتھ کنٹرول لائین پر سیز فائر ،کشمیری مجاہدین کے ٹریننگ کیمپ اور آنے جانے کا سلسلہ بندکئے جانے تک کشمیری عوام کی بھرپور سپورٹ کے باعث جاری و ساری رہی۔جنرل پرویز مشرف نے صدر پاکستان کی حیثیت سے مظفر آباد میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ” دہشت گردی کے خلاف امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے ہم نے کشمیر کاز اور اپنا ایٹمی پروگرام بچا لیا ہے۔“لیکن بھارت کوکنٹرول لائین پر خار دار تاروں کی باڑ تعمیر کرتے ہوئے کشمیر کی مصنوعی تقسیم کو زمینی حقیقت میں بدلنے کی اجازت دینے سے ہی وا ضح ہو گیا کہ پرویز مشرف انتظامیہ کی کشمیر کاز کو بچا لینے کی تشریح کشمیریوں کی توقع کے برعکس تھی۔

اس کے بعد مقبوضہ کشمیر میں مسلح جدوجہد کی کاروائیوں کا گراف نیچے سے نیچے ہی ہوتا چلا گیا۔تقریبا دو سال پہلے کشمیری عوام نے سڑکوں پر آ کر اپنے بھارت مخالف جزبات کا اظہار یوں مسلسل انداز میں کیا کہ بھارت کے کئی دانشور اور صحافی بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ جب کشمیری بھارت کے ساتھ رہنا ہی نہیں چاہتے تو ان کو زور زبر دستی ساتھ رکھنا فضول ہے۔لیکن افسوس کہ کئی المناک واقعات کی طرح اس بار بھی کشمیر کی لیڈر شپ عوام کی کی رہنمائی کا” کوہ گراں“ اٹھانے سے قاصر رہی،بلکہ چند رہنما صورتحال بھارت کے قابو کرنے میں معاون بھی ثابت ہوئے۔تاہم اس عوامی تحریک سے یہ بات واضح ہو گئی کہ غیر مسلح جدوجہد سے بھی بھارت کو انصاف کی میز پر بیٹھنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔

اس کے بعد کشمیر میںمعمولات زندگی دوبارہ شروع ہوئے اور شہری زندگی کی بحالی کے حالات اس قدر بہتر ہوگئے کہ’ پی ڈی پی‘ اور نیشنل کانفرنس نے بھی بھارتی حکومت سے ”AFSA “ ،بھارتی فورسز کو قتل و غارت گری پر مکمل تحفظ فراہم کرنے کا قانون ختم کرنے کا مطالبہ شروع کر دیا۔لیکن بھارتی فوج اور حکومت مصر ہے کہ کشمیر کے حالات ابھی اتنے ٹھیک نہیں ہوئے کہ ” AFSA“ختم کیا جائے۔گزشتہ ایک سال سے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز پر حملوں کا سلسلہ چل نکلا ہے۔گزشتہ دو تین ماہ سے مقبوضہ کشمیر میں سیز فائز لائین(کنٹرول لائین) کے قریبی علاقوں میں بھارتی فوج سے جھڑپیں ہوئی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے لوگوں میں اب یہ عمومی تاثر ہے کہ کشمیر میں ہونے والی کئی کاروائیوں میںبھارتی فورسز ،بھارتی عناصر کا ہی ہاتھ ہوتا ہے تا کہ کشمیر میں” AFSA“ کا نفاذ اور بھاری تعداد میں فوج رکھنے کا جواز باقی رہے۔اکتوبر کے ماہ سرینگر میں ہائی وے پہ بھارتی فوج کی گاڑیوں کے ایک قافلے پر حملہ ہوا جس میں قریب واقع ایک ہوٹل کا ملازم ہلاک ہوا اور دو فوجی زخمی ہوئے۔وادی کشمیر کے باخبر کشمیریوں کا کہنا تھا کہ یہ حملہ ”خود “ کرایا گیا ہے کیونکہ چند روز بعد وہلی میں ایک اعلی سطحی اجلاس میںکشمیر سے ” AFSA“ کا قانون ہٹانے یا نہ ہٹانے کا جائزہ لیا جانا ہے۔ وادی کشمیر میں یہ بھی عمومی رائے ہے کہ ڈسٹرب ایریا کی وجہ سے بھارتی فوجیوں کو دوگنی سے زیادہ تنخواہ مل رہی ہیں،جو وہ قائم رکھنا چاہتے ہیں ۔بعض کشمیریوں کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ اب بھارت خود ہی کشمیر کی صورتحال کو خراب یا خراب سے قریب تر قرار دیتے ہوئے اپنی فوج کو کشمیر میں حالت جنگ کی طرح حرکت میں رکھے ہوئے ہے، جس سے کئی ٹارگٹ حاصل ہونے کے علاوہ بھارت کو کشمیر میں بجلی کے منصوبے بھی تیزی سے مکمل کرنے کا ماحول میسر آ رہا ہے۔ کشمیریوں کے نزدیک بھارت اس طرح کی جابرانہ پالیسی چلاتے ہوئے کشمیریوں کے خلا ف اسی طرح کے طویل المدتی منصوبوں پر عمل پیرا ہے جس طرح اسرائیل نے فلسطینیوں کے خلاف کام کیا۔ یوں پاکستان کے ” یو ٹرن“ کے بعد اب مقبوضہ کشمیر میں مسلح جدوجہد کی کوئی سمت باقی نہیں رہی،لہذا بھارت کو کشمیریوں پر دست ستم ڈھائے رکھنے کے جواز پیدا کرنے کو اب وادی کشمیر میں بھارت نوازی سے ہی تعبیر کیا جاتا ہے۔

وادی کشمیر کے عوام میں پرویز مشرف کا مسلح جدوجہد کو رول بیک کرنے کا ” پیغام“ پہنچ چکا ہے۔ تاہم اس کے باوجود کشمیر ی پاکستان کے حالات پر متفکر ہیں اور اس بات پر زیادہ پریشان ہیں کہ پاکستان کو کس سمت لیجایا جا رہا ہے۔پاکستان اور بھارت کے درمیان ممبئی حملوں کے بعد منقطع مزاکرات بحال ہو چکے ہیں اور دونوں ملکوں کے درمیان تجارت اور اسی حوالے سے سہولت کاری کے اقدامات جاری ہیں۔پاکستان کے پالیسی ساز شاید یہ بھول رہے ہیں کہ انہوں نے بھارت کے کہنے پر جو راستہ اختیار کیا ہے ،وہ یہ ہے کہ بھارت کے بقول ” دونوں ملک تجارت وغیرہ شروع کریں تو ایک وقت آئے گا جب مسئلہ کشمیر ہی بے معنی ہو جائے گا۔“لیکن کشمیری جو مصائب اور عذاب جھیل رہے ہیں انہیں دیکھتے ہوئے وہ ” کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک“ کے مصداق بھارت اور پاکستان کی انڈر سٹینڈنگ میںمسئلہ کشمیر کی صورتحال کو جوں کا توں رکھنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ لہذا بھارت سے تجارتی جیسے تعلقات سے پاکستان کے پالیسی سازوں کو اس خوش فہمی میں ہر گز مبتلا نہیں ہونا چاہئے کہ بھارت کے ساتھ تنازعات پاکستان کے مفاد میں حل ہو جائیں گے،پاکستان کی طرف سے اپنے مفادات سے دست بردار ہونے کی صورت ہی ان تنازعات کے حل میں کوئی پیش رفت ہو سکتی ہے ،یہ مقام بھی دور نہیں کیونکہ ہمارے حکمرانوں کی طرف سے قومی مفادات سے دستبرداری کا عمل تیزی سے جاری ہے۔

حریت کانفرنس کے اعتدال پسند حلقے کے رہنماپاکستان اور آزاد کشمیر کے دورے پر پہنچ چکے ہیں ۔حکومت پاکستان کی دعوت پر آنے والے حریت رہنما حکومتی ، سرکاری اور سیاسی حلقوںکے علاوہ کشمیر سے متعلق مختلف تنظیموں اور شخصیات سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔میرے خیال میں حریت رہنماﺅں کی ذمہ داریوں میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا ہے۔حریت تنظیموں کے درمیان اتحاد ،اشتراک عمل کی ضرورت ماضی سے بڑھ کر ناگزیر مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔دوسال قبل بھی کشمیری رہنمائی میسر نہ آنے کی صورت ڈیڑھ دو سال کی ایجی ٹیشن کے بعد اپنی معمول کی زندی کی طر ف لوٹ آئے تھے۔ان کے جذبے سرد نہیں ہوئے لیکن وہ اس رہنمائی سے محروم ہیں جو انہیں پرامن جدوجہد کی راہ پہ چلتے ہوئے آگے بڑہا سکے۔شاید حریت رہنماﺅں کے پاس ایسے راستے نہایت محدود ہیں جو انہیں پرامن جدوجہد کی رہنمائی سے سرفراز کر سکے۔شاید کئی حریت رہنما بنی بنائی پالیسی پر عمل پیرا رہنے کے چلن کے ماحول کے عادی ہوتے ہوئے اپنی پالیسی بنانے کی اہلیت سے محروم ہو گئے ہوں؟ یہ میں نہیں جانتا لیکن حریت رہنماﺅں سے ضرور سننا چاہوں گا۔ٍحریت رہنماﺅں کو یہاں بریفنگ اور مشاورت تو ضرور میسر آئے گی لیکن اگر وہ تحریک آزادی کشمیر کے لئے اپنی صف بندی پر توجہ دیں تو یہ آٹھ دہائیوں سے نسل در نسل جدوجہد کرنے اور قربانیاں دینے والے کشمیریوں کی رہنمائی کے تقاضوں کا احساس کرنے کے مترادف ہوگا۔ آزادی ،حق خود اختیاری کی نوید کشمیریوں کو کوئی اور آ کر نہیں سنائے گا،یہ کوہ گراں انہیں ہی اٹھانا ہو گا جو کشمیریوں کی رہنمائی کے دعویدار ہیں۔
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 777 Articles with 699528 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More