16دسمبر، سقوط مشرقی پاکستان پر
خصوصی تحریر
بھارتی لیفٹیننٹ جنرل جے ایف آر جیکب جنگ 71ءکے دوران میجر جنرل تھے اور
بھارتی فوج کی مشرقی کمانڈ کے چیف آف سٹاف کی حیثیت سے تعینات تھے۔ یہ وہی
کمانڈ ہے جس نے مشرقی پاکستان میں پیش قدمی کی اور بنگلہ دیش کے قیام میں
اہم کردار ادا کیا تھا۔ 1997ءمیں جنرل جیکب نے ”سرینڈر ایٹ ڈھاکہ ، برتھ آف
اے نیشن“ کے عنوان سے ایک کتاب تحریر کی جس میں اس نے جنگ 71ءکا بھارتی فوج
کے حوالے سے جائزہ لیا ہے اوراس کے سیاسی اور فوجی پہلوﺅں پر خوب بحث کی ہے۔
اس کتاب میں بھارتی فوج کے خلاف کچھ بھی نہیں لکھا گیا بلکہ مشرقی پاکستان
میں بھارتی مداخلت کو ”تیز اور موثر“ ثابت کیا گیا مگر پھر بھی اسے بھارت
کے فوجی حلقوں میں خوب تنقید کا نشانہ بنایا گیا بلکہ ایک بھارتی میجر جنرل
کلدیپ سنگھ نے تو جواب آں غزل کے طور پر اس کے خلاف ایک پوری کتاب لکھ دی
ہے۔ جس میں اس نے جنرل جیکب کو ”تاریخ مسخ“کرنے پر کڑی تنقید کا نشانہ
بنایا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ جنرل جیکب نے اپنی کتاب میں جنگ 71ءمیں بھارتی
کامیابیوں کا سہرا اپنے سر سجانے کی کوشش کی ہے جبکہ اس کا اصل کریڈٹ فیلڈ
مارشل مانک شا اور جنرل اروڑہ کو جاتا ہے اور چونکہ دونوں بھارتی جرنیل اس
کتاب کے شائع ہونے سے قبل مرچکے تھے لہٰذا جنرل جیکب کو ”حقائق مسخ“ کرکے
خود کو ہیرو ثابت کرنے کا خوب موقع ہاتھ آیا۔اس طرح 71ءکی جنگ کو ختم ہوئے
41سال گزر چکے ہیں مگر بھارتی فوجی حلقوں میں اس کا” کریڈٹ “ لینے کی جنگ
ابھی تک جاری ہے اور یہ اتنی شدت اختیار کرچکی ہے کہ ایک ہی فوج کا حصہ
رہنے والے، کورس میٹ اور ایک ہی محاذ پر لڑنے والے سینئر افسر ایک دوسرے
پرکیچڑ اچھال رہے ہیں اور اس مقصد کے لئے وہ اخبارات اور سوشل میڈیا کو خوب
استعمال کررہے ہیں۔ ایک بھارتی فوجی افسر نے جنرل جیکب کو تنقید کا نشانہ
بناتے ہوئے لکھا کہ ”جیت کے تو ہزاروں باپ ہوتے ہیں مگر ناکامی کا کوئی
نہیں، جیکب جی ذرا بتائیے کہ 1962ءکی جنگ میں آپ کہاں تھے؟ کہیں ماں کی گود
میں تو نہیںچھپے بیٹھے تھے!!“
بہرحال یہاں میرا مقصد بھارتی فوج کے جرنیلوں کی اس ”کریڈٹ“جنگ کے قصے کو
چھیڑنا نہیں بلکہ ان کی کتابوں میں موجود ایسے حقائق کو سامنے لانا ہے جو
یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں کہ مشرقی پاکستان میں بنگالیوں کے قتل عام
اور خواتین کی آبروریزی میں پاکستانی نہیں بلکہ بھارتی فوج ملوث تھی جو
مکتی باہنی کے روپ میں وہاں داخل ہوئی اور دنیا کی ہمدردی اور حمایت حاصل
کرنے کی خاطر انہوں نے بنگالی عوام پر ظلم و تشدد کے پہاڑ توڑڈالے اوران کا
الزام پاکس فوج پردھر دیا۔ اس طرح ایک منظم پراپیگنڈہ کے ذریعے مشرقی
پاکستان میں نہ صرف مداخلت کا جواز پید اکیا گیا بلکہ عالمی رائے عامہ کو
اپنے حق میں کرنے کی کوشش کی گئی۔ بھارتی جنرل جے ایف آر جیکب نے اپنی کتاب
”سرینڈر ایٹ ڈھاکہ، برتھ آف اے نیشن“ کے باب ”اسباق“ (ص 162)میں لکھا ہے کہ
: ”ابتدائی مراحل اورپھر فوجی آپریشن کے لئے عالمی حمایت کا حصول انتہائی
اہم تھا۔ مارچ 1971ءمیں بنگلہ دیش کی آزادی کے لئے عالمی حمایت سرد مہری کا
شکار تھی۔ آزاد بنگلہ دیش کے لئے عالمی حمایت حاصل کرنے کے لئے یہ ضروری
تھا کہ عالمی میڈیا وہاں ہونے والے مظالم کونمایاں طور پر اجاگر کرے۔
ابتدائی طورپر یہ نمائندے پاکستان کی طرف سے ڈھائے جانے والے ظلم و تشددپر
زیادہ متاثر نظر نہ آتے تھے۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ان کی ساری ہمدردیاں
بنگلہ دیش کی آزادی کے حق میں ہوگئیں۔ “ بادی النظر میں یہ تحریر قاری کے
لئے کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتی اور وہ اس عام تاثر کے ساتھ آگے بڑھ جاتا ہے
کہ مشرقی پاکستان کے حوالے سے ابتدائی طور پر عالمی رائے عامہ کچھ خاص نہیں
تھی مگر غور کیا جائے تو بھارتی جرنیل کے قلم سے نکلی ان چند سطور میں
بنگالیوں پر تشدد اوران کے قتل عام میں ملوث اصل چہروں کو شناخت کیا جاسکتا
ہے کیونکہ بھارت نے ان دونوں مقاصد کے حصول کیلئے بنگالیوں کا قتل عام کیا۔
ستمبر 1968ءمیں بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ کے قیام کے ساتھ ہی مشرقی پاکستان
میں اس کی باقاعدہ مداخلت کا عمل شروع ہوگیا تھا۔ ”را“ نے کثیر جہتی پالیسی
کے ذریعے مشرقی پاکستان میں زبان، رنگ اور قومیت کے بیج بونا شروع کئے ۔
بھارتی کوششوں سے مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان ذہنی اور نفسیاتی
کشمکش کی خلیج گہری ہوتی چلی گئی۔ شیخ مجیب الرحمان کے ذریعے بھارت کے
ناپاک عزائم کو عملی شکل ملنا شروع ہوئی۔ ”را“ نے مکتی باہنی کے قیام میں
اہم کردار ادا کیا اور اسے باقاعدہ فوجی تربیت کے ساتھ ساتھ اسلحہ اور گولہ
بارود فراہم کیا۔ یہی نہیں بلکہ اس کی تنظیم سازی اور لاجسٹکس میں بھی کوئی
کمی نہیں چھوڑی ۔ بھارتی فوج کے باقاعدہ سپاہی بھی مکتی باہنی کا حصہ بنے
جنہوں نے ابتدائی طور پر غیر بنگالیوں کے خلاف کارروائیاں شروع کیں اور
حکومت پاکستان کی رٹ کو چیلنج کرنا شروع کیا۔ پاک فوج اور مکتی باہنی کی
چپقلش میں بھارتی ایجنٹوں نے خوب فائدہ اٹھایا اور شہری علاقوں میں
بنگالیوں کا قتل شروع کردیا۔ 1971ءکے ابتدائی مہینوں میں یہ صورتحال مزید
خراب ہوئی گئی مگر حالات اتنے نہیں بگڑے تھے کہ عالمی رائے عامہ بھارت کو
ایک آزاد مملکت میں براہ راست مداخلت کوجائز خیال کرتی۔ بہت سے بھارتی
تجزیہ نگار اس بات پر متفق ہیں کہ بھارت نے بنگلہ دیش میں مداخلت میں جو
تاخیر کی اس کی بڑی وجہ بھارت کو عالمی رائے عامہ کا حمایت حاصل نہ ہونا
تھا۔ لہٰذا اس مقصد کے لئے بھارت نے بڑی تعداد میں مکتی باہنی کے روپ میں
اپنے باقاعدہ فوجی مشرقی پاکستان کی حدود میں داخل کئے اور انہیں لوٹ
کھسوٹ، قتل و غارت اور خواتین پر تشدد اور آبروریزی کی کھلی چھٹی دے دی
تاکہ صورتحال کو مزید بگاڑ کرعالمی میڈیا توجہ حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ
عالمی رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرے۔ معروف مصنفہ شرمیلا بوس نے اپنی
کتاب ڈیڈ ریکیننگ میں تو اس حوالے سے مزید حقائق پیش کئے ہیں اور پاک فوج
پر تیس لاکھ بنگالیوں کے قتل عام کے الزامات کو مضحکہ خیز اور غیر حقیقی
قراردیا ہے۔ بنگلہ دیش کی وزیر اعظم حسینہ واجد نے گزشتہ دنوں اسلام آباد
میں ڈی ایٹ کانفرنس میں شرکت سے اس لئے انکار کردیا کہ پاکستان پہلے بنگلہ
دیش میں ڈھائے جانے والے مظالم پر معافی مانگے ۔ ان کے اس طرزعمل پر
پاکستان بلکہ عالمی سفارتی حلقوں کو بڑی حیرانی ہوئی کیونکہ پاکستان نے
بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کے بعد اس سے دوستانہ تعلقات میں بڑی وسیع القلبی
کا مظاہرہ کیا بلکہ اس سلسلے میں عملی اقدامات بھی کئے۔ حسینہ واجد کو
چاہئے کہ وہ اپنے رویے پر غور کریں اورخطے میں نفرت کے مزید بیج بونے کی
بجائے دوستانہ تعلقات کی راہ میں حائل کانٹوں کو چنیں۔ پاکستان کو اپنے
مشرقی بازو کے جدا ہونے کا دکھ ضرور ہے مگراس نے اس رستے زخم کا ذمہ
دارکبھی بھی بنگالی عوام کو نہیں ٹھہرایا۔ مگر بھارت 41سال بعد بنگلہ دیش
کو پھر پاکستان کے مدمقابل لانا چاہتا ہے ، اس چال کو سمجھنے کی ضرورت
ہے۔حسینہ واجد پر یہ حقیقت جلدآشکار ہوگی کہ مشرقی پاکستان کے عوام کے ساتھ
زیادتی کرنے والی اصل قوتیں کون تھیںکیونکہ وہ دن دور نہیں جب یہی بھارتی
جرنیل جو اس وقت”71کی جنگ کا کریڈٹ“ لینے کیلئے ایک دوسرے سے دست و گریبان
ہیں،اسی توں تکرار میں مشرقی پاکستان میں بنگالیوں کے قتل عام میں بھارتی
فوج کے ملوث ہونے کا سچ بھی اگل دیں گے۔ |