پھر آج دسمبر پوچھ رہا ہے

16دسمبر 1971ءپاکستان کی تاریخ کا وہ سیاہ ترین دن تھا جو بلاشعبہ و یوم ندامت ہے اگر یہ دن پاکستان کی تاریخ میں نہ آتا تو ہمیں ازلی دشمنوں کی طرف سے دو قومی نظریئے کے خلیج بنگال میں ڈوب جانے جیسا ہزیمیت آمیز جملہ بھی اپنی سماعتوں پر نہ سہنا پڑتا۔ بھارت روز اوّل سے ہی پاکستان کا ازلی دشمن رہا ہے 1948ءکی کشمیر جنگ سے لے کر 1999ءکی کارگل جنگ تک اس کا مکروہ چہرہ ہمارے سامنے عیاں ہے پاکستانی عوام کو شدت کے ساتھ اس بات کا احساس ہے کہ بھارت نہ کبھی ہمارا دوست تھا نہ بھارت آج ہمارا دوست ہے نہ ہی بھارت مستقبل میں کبھی پاکستان کا دوست بن سکتا ہے لیکن صد افسوس پاکستانی حکمران کبھی اس حقیقت کی سچائی کو پرکھ نہ سکے وہ کبھی بھارت کو پسندیدہ پڑوسی قرار دیتے ہیں تو کبھی دوستی ٹرینوں کے ذریعے سر تسلیم خم کرتے ہیں جبکہ حقیقت یہی ہے کہ بھارت نے برصغیر کی تقسیم اور پاکستان کے قیام کو کبھی دل سے تسلیم ہی نہیں کیاوہ اکنڈ بھارت کے منصوبے پر عمل کرنے کے لئے کسی بھی اوچھے ہتھکنڈے کو کبھی بھی استعمال کرسکتا ہے۔

پاکستان کی بدقسمتی کہ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد کوئی بھی مخلص حکمران تاحال اس کو میسر نہ آسکا اختلاف رائے اور عدم برداشت کی سیاست نے مغربی اور مشرقی پاکستان کے رہنماﺅں کے درمیان فاصلے بڑھا دیئے زمینی فاصلے تو موجود ہی تھے ذہنی فاصلوں نے اپنا کام کردکھایا اسکندر مرزا، یحییٰ خان، ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو کے غیر منصفانہ اور ابلیسی رویوں نے بنگالیوں اور غیر بنگالیوں کے درمیان نہ پائے جانے والی خلیج کو پیدا کردیا تھا۔ کلیدی عہدوں پر رنگوں اور نسلوں کی بنیاد پر امتیاز برتا گیا اور مغربی پاکستان کو مشرقی پاکستان پر فوقیت دی گئی قوت اور اقتدار کو کامیابی کا سرچشمہ قرار دیا گیا۔ جب مشرقی پاکستان میں سیلاب آیا لاکھوں لوگ ہلاک اور سینکڑوں بے گھر ہوگئے تو مغربی پاکستان سے پہلے برطانیہ سے مدد پہنچی جب دکھ اور تکلیف کے وقتوں میں اپنے مدد نہ کریں اور غیر مدد کو پہنچیں تو ایسے ہی سانحے رونما ہوسکتے ہیں۔ جب مغربی پاکستان سے پاکستان پیپلزپارٹی اور مشرقی پاکستان سے عوامی لیگ کامیاب ہوئی اور اقتدار کی منتقلی نہ ہوسکی تواقتدار کے بھوکوں نے ملک کو ہوس کی آگ میں جھونک دیا مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے درمیان بڑھی ہوئی خلیج نے اپنے خراج وصول کرلیا طاقت کے بے دریغ استعمال اور ہوس اقتدار نے سقوط ڈھاکہ جیسے قابل ندامت سانحے کو جنم دیا۔

حکمرانوں کی بداعمالیوں نے مملکت خداداد کو دو لخت کردیا مگر ان کی آنکھ نم نہ ہوئی پلٹن کے میدان میں جنرل نیازی نے جنرل اروڑہ کے سامنے وہ ذلت آمیز فعل سرانجام دیا جس کے تذکرے سے رہتی دنیا تک ہمارے سر شرم سے جھکے رہیں گے۔ سقوط ڈھاکہ کی شام آتے ہی پاکستانیوں کے گھروں کے چولہے نہ جلے صف ماتم بچھ گئی کئیوں کو ہارٹ اٹیک ہوگیا مرد و زن سکتے کے عالم میں تھے لیکن اقتدار کے ایوانوں میں جشن کا سماں تھا طاقت کا نشہ سر چڑھ کر بول رہا تھا ادھر ہم ادھر تم کے نعرے لگائے جارہے تھے اقتدار کے بھوکے یہ نہیں جانتے تھے کہ اقتدار کے حصول کے لئے ملک و قوم کی عزت و وقار کو داﺅ پر لگا دینے والوں کی خود کی ذات چند روزہ ہے۔ خون کی ہولی تو 1947ءمیں بھی کھیلی گئی تھی مگر تب ظالم اور مظلوم کا فرق نمایاں تھا اور 1971ءمیں تو چشم فلک نے ایک عجیب تماشادیکھا یہاں ظالم بھی ہم ہی تھے اور مظلوم بھی ہم ہی تھے بہادر بھی ہم ہی تھے اور بزدل بھی ہم ہی تھے عالی بھی ہم ہی تھے اور آلہ کار بھی ہم ہی تھے جو نقصان کر بھی رہے تھے اور اسی نقصان کے حصے دار بھی رہے تھے اور اسی نقصان کے حصے دار بھی تھے جو اپنے ہی وطن کو آگ لگا بھی رہے تھے اور اسی آگ میں جل بھی رہے تھے ہر سانحے کی طرح اس المناک سانحے پر بھی ایک کمیشن بٹھا دیا گیا سالوں تک اس کمیشن کی رپورٹ شائع کرنے کی جرات کوئی حکومت نہ کرسکی اور شائع ہونے کے بعد بھی کوئی آنکھ نم نہ ہوئی نہ کسی نے اشک ندامت بہائے یہ خون کے ایسے نمٹ نشانات ہیں کہ ہزاروں برساتوں کے بعد بھی یہ مٹ نہیں سکتے۔
یوں تو ہونے کو گھر ہے سلامت رہے
کھینچ دی گھر میں دیوار اغیار نے
ایک تھے جو کبھی آج دو ہوگئے
ٹکرے کر ڈالا دشمن کی تلوار نے
گھر بھی دو ہوگئے در بھی دو ہوگئے
جیسے کوئی بھی رشتہ ہمارا نہیں

ستم کی بات یہ یہ ہے کہ طاقت کے نشے میں چور اقتدار کے بھوکے آج بھی ہوس اقتدار کے دائرے میں گھوم رہے ہیں۔ ان کا مطمع نظر ملکی و قومی مفاد نہیں ہے بلکہ ذاتی مفاد ہے آج بھی اعلیٰ اور آلہ کار ایک ہی ہیں اقتدار کا ہماایک بار جس کے سر پر بیٹھ جائے تو اس کے ذہن کی سوچنے سمجھنے کی ساری صلاحیتیں صرف اقتدار کے دائرے کے اندر رہنے کے لئے صرف ہوتی ہیں یہ جانے بغیر ہر ذات فانی ہے لافانی تو صرف ایک ذات ہوتی ہے اگر اسے یاد رکھا جائے تو ذات اور اقتدار سے بالاتر ہو کر کام کرنے کا جذبہ خود بخود پیدا ہوجائے گا۔ دسمبر کی سروشامیں اور اداس یادیں آج پھر ہم سے جواب طلب کررہی ہیں کہ ہے کسی کے پاس جواب؟؟؟
وہ جو میرے دیس کا حصہ تھا
کیوں آج وہ مجھ سے دور ہوا
کیوں غیر کی باتوں میں آیا
کیوں اپنوں سے رنجور ہوا
پھر آج دسمبر پوچھ رہا ہے؟؟
پھر آج دسمبر پوچھ رہا ہے؟؟
Nusrat Sarfaraz
About the Author: Nusrat Sarfaraz Read More Articles by Nusrat Sarfaraz: 42 Articles with 48384 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.