عدم نے کہا تھا اور کیا خوب
کہا تھا کہ عدم خلوص کے بندوں میں ایک خامی ہے،ستم ظریف بڑے جلد باز ہوتے
ہیں۔خلوص کی چونکہ ہم میں کمی نہیں اس لئے جلد بازی سے بھی ہمیں انکار
نہیں۔جب تحریکِ انصاف نے پارٹی الیکشن کا اعلان کیا تو ہم اس کے ناقدین میں
شامل تھے۔تحریک کے جن بڑوں تک ہماری رسائی تھی ہم نے باآوازِ بلند اپنا
پیغام ان تک پہنچایا کہ دوسری پارٹیاں تو جنرل الیکشن کے لئے اپنے امیدوار
تک نامزد کر چکیں جب کہ ہم ابھی پارٹی الیکشن کا کھڑاک کرنے جا رہے ہیں۔اس
سے پارٹی کے اندر پہلے سے موجود دھڑے بندیوں میں اضافہ ہو گا۔اختلافات
بڑھیں گے۔رسہ کشی اور کھینچا تانی ہو گی۔عہدوں کے حصول کی جنگ میں گھمسان
کا رن پڑے گا اور بالآخر اس سے پارٹی کو نقصان ہو گا۔ہم کہ اب عمر کے اس
حصے میں ہیں جہاں ذرا سا نقصان بھی زندگی کا زیاں محسوس ہوتا ہے اس لئے
ہمارے نزدیک تو تحریکِ انصاف کا یہ فیصلہ سیاسی خود کشی کے مترادف تھا۔پھر
ہم نے جب یہ سنا کہ کپتان نہیں مانتا اور وہ اس پہ مصر ہے کہ الیکشن تو ہوں
گے ہی تو ہم نے اپنا مرغا بغل میں دابا اور گھر جا کے سو رہے۔آپس کی بات یہ
ہے کہ پارٹی کے بہت سے بزرجمہر بھی ہمارے ہم خیال تھے لیکن ہاتھی کے پاﺅں
میں سب کا پاﺅں جب فیصلہ ہو گیا تو سب نے چپ سادھ لی۔
اسلام آباد کے الیکشن ہوئے تو ہمارا خیال تھا کہ جوتیوں میں دال بٹے گی تو
ہمارے مشورے کی قدر آئے گی لیکن جب وہاں پہ الیکشن بخیر و خوبی ہو گئے اور
سوائے چند ایک کے باقی سب نے اسے تسلیم کر لیا تو کے پی کے میں الیکشن کے
دوسرے مرحلے کا اعلان کر دیا گیا۔ہزارہ مسلم لیگ نون کا گڑھ تھا لیکن جب سے
نون نے تیسری باری کے چکر میں ہزارے والوں کی پیٹھ میں یہ بڑا چھرا گھونپا
ہے یہ گڑھ اب نوا زلیگ کے لئے ہندکو والا "گڑھ "بن گیا ہے(ہندکو میں" گڑھ
"بڑے پیپ بھرے دانے کو کہتے ہیں) ہزارے وال اب مسلم لیگ کا نام بھی سننا
پسند نہیں کرتے۔ایک تو عمران کی بے مثل قیادت اور دوسرے اس "گڑھ "کی تکلیف
نے انہیں تحریکِ انصاف کا دیوانہ بنا دیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہزارہ میں ہر
نامی اب تحریکِ انصاف کا علم تھامے ہوئے ہے۔ان میں سے کچھ تو ہوا کا رخ
دیکھ کے آئے تھے۔ان کا مطمعِ نظر ووٹوں کا حصول تھا لیکن زیادہ ایسے تھے جو
آئے تو ڈھلمل یقین کے ساتھ تھے لیکن اب وہ پرانے نظریاتی کارکنوں سے بھی
زیادہ نظریاتی ہیں۔کارکن بھی خوب جانتے ہیں کہ کون ان کا ہے اور کس نے اڑ
جانا ہے۔وہ بھی رویے دیکھ کے عزت دیتے ہیں۔
ذکر ہورہا تھا ہزارہ میں پارٹی الیکشن کا۔شروع شروع میں جب ان انتخابات کی
تیاریوں کا سلسلہ چلا تو ہم بھی اپنے خدشات کا مرغ اصیل بغل میں دابے ان
ساری کاروائیوں کو دیکھا کئے۔جوں جوں الیکشن کے دن قریب آتے جا رہے
تھے۔کارکنان کا جوش و خروش بڑھتا جا رہا تھا۔ایبٹ آباد میں پارٹی کے رابطہ
آفس میں آنے والوں اور الیکشن کے بارے میں ان کے سوالات اور فکرمندی اس قدر
زیادہ تھی کہ اسے سنبھالنا مشکل ہو رہا تھا۔جنرل الیکشن تو نجانے کب ہوں
لیکن چیئرمین کے ایک فیصلے نے الیکشن سے پہلے الیکشن کا ماحول پیدا کر دیا
ہے۔صرف ضلع ایبٹ آباد کی باون یونین کونسلز میں جوش کا یہ عالم ہے کہ
مضافاتی علاقوں میں برفباری کے باوجود روزانہ سینکڑوں لوگ ضلعی رابطہ آفس
سے رابطہ کرتے ہیں۔وہ خود یونین کونسل کا الیکشن لڑنا چاہتے ہیں۔وہ اپنے
امیدواروں کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔وہ اپنے لیڈر اپنے قائد خود منتخب
کرنا چاہتے ہیں۔وہ جن پہ انہیں اعتماد ہو۔وہ جو اس قابل ہوں کہ تحصیل کی
سطح پہ ان کی نمائندگی کر سکیں۔وہ جو ذات برداری فرقہ یا جماعت کی سطح سے
اٹھ کے خالصتاََ قابلیت کی بنیاد پہ اپنی قیادت کا انتخاب کر سکیں۔جو ہر
طرح کے تعصب سے پاک ہوں۔جنہیں اپنی نہیں اپنی ووٹروں کی فلاح و بہبود زیادہ
عزیز ہو۔ جن کی سوچ کو زمانہ سلام کرتا ہو۔جو پاکستان کے بارے میں سوچتے
ہوں۔کارکنان کی تربیت شروع ہو چکی۔ سارے شاید نہ سیکھ سکیں لیکن منتخب ہو
کے آنے والوں کی اکثریت انشا ءاللہ اپنے چیئرمین کے خیالات کی امین ہو
گی۔اسی فورس نے آگے جا اپنے قائد کے سنگ کرپشن، بد عنوانی ،اقربا پروری اور
ملک دشمنی کے خلاف جنگ لڑنی ہے۔یہی چراغ جل کے اس تعفن زدہ معاشرے کو گل
رنگ کریں گے۔
تحریکِ انصاف کے پارٹی الیکشن میں پائے جانے والے اس جوش و خروش نے ایک بات
تو بہرحال ثابت کر دی ہے کہ ٹیم نے کپتان صحیح چنا ہے۔قائد وہی ہوتا ہے جو
مقبول فیصلوں کے بر عکس اپنے وژن سے مستقبل ساز فیصلے کرتا ہے اور تاریخ
بدل دیتا ہے۔عمران خان نے یونین کونسلز کی سطح پہ اپنی پارٹی کے الیکشن
کروانے کا فیصلہ کر کے اور پھر اس فیصلے کو عملی شکل دے کے ملکی تاریخ میں
ایک نئی مثال قائم کی ہے۔اس سے نہ صرف پارٹی کے اندر کارکنوں کے شعور کی
سطح بلند ہوئی ہے بلکہ دوسری سیاسی پارٹیوں کے کارکن بھی یہ سوچنے پر مجبور
ہو گئے ہیں کہ اگر پاکستان تحریکِ انصاف کے اندر انتہائی نچلی سطح تک کے
انتخابات ہو سکتے ہیں تو ہماری پارٹیوں میں ہمیشہ ہی نیلی آنکھوںوالے
چہیتوں کو کیوں نوازا جاتا ہے۔وہ جو پیا من بھاتے ہیں انہیں ہی کیوں سہاگن
بننے کی سعادت حاصل ہوتی ہے۔خان نے جہاں اپنے اس تاریخ ساز فیصلے سے اپنی
پارٹی کے کارکنوں کو قیادت کا اعزاز بخشا ہے وہیں ایک ایسے تربیتی پروگرام
کا آغاز بھی کر دیا ہے جس سے نہ صرف اس کے اپنے کارکن مستفید ہوں گے بلکہ
اس کا یہ فیصلہ ملک کے عمومی سیاسی شعور کی بڑھوتری کا سبب بھی بنے گا۔
ان انتخابات کے فیصلے نے پارٹی کے اندر نئے اور پرانے کی بحث بھی اب
تقریباََ ختم کر دی ہے ۔قیادت اب وہی کرے گا جسے کارکنوں کی حمایت حاصل ہو
گی۔کچھ لوگ اب بھی اس امید پہ قیادت کی آس لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ تحریکِ
انصاف کے ان نو منتخب قائدین کو اپنی دولت سے خرید لیں گے۔وہ شاید تحریک
انصاف کے ان متوالوں کے عزائم سے واقف نہیں۔طرزِ کہن پہ اڑنے والوں کی شکست
قریب ہے۔ماننا پڑے گا کہ قوم نے کپتان ٹھیک چن لیا ہے۔اب ٹیم چننے کی باری
ہے ۔اگر کپتان یہ کام بھی کر گذرا اور اپنے وعدے کے مطابق اس نے مصلحتوں
اور مجبوریوں کو نظرانداز کر کے اپنی ٹیم اناﺅنس کر لی تو انشا ءاللہ یہ
ورلڈ کپ بھی پاکستان ہی جیتے گا۔ سونامی کو بے نامی کہنے والوں کو خبر ہو
کہ جس دن کپتان نے میچ شروع ہونے سے پہلے کپتان نے جب گراﺅنڈ کا چکر لگایا
تو اس کی مقبولیت دیکھ کے بہت سوں کے ہوش اڑ جائیں گے۔ کپتان کے ابتدائی
فیصلے دیکھ کے لگتا ہے کہ اس کے انتہائی فیصلے بھی کمال کے ہوں گے۔اللہ اسے
اور اس کے نظریئے سے محبت کرنے والوں کو بے مثال کامیابیاں نصیب فرمائے کہ
ان کی کا میابی ہی اب ہمیں پاکستان کی کامیابی لگتی ہے۔ |