چند حقائق اور سابقہ مشرقی پاکستان

تحریر۔ انور مختیار

دسمبر کا مہینہ ہمیں اُس سانحے کی یاد دلاتا ہے جب مشرتی پاکستان ہم سے الگ ہوا۔ پاکستان کے وہ لوگ جنہیں مشرقی پاکستان جانے کا اتفاق ہوا۔ لوگوں کے ساتھ ملنے اور ان کے خیالات سے آگاہ ہوئے وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ مشرقی پاکستان کے محب وطن لوگ کبھی علیحدہ نہ ہونا چاہتے تھے ۔ان کے دلوں میں پاکستان کی محبت آج بھی زندہ ہے جبھی لاکھوں کی تعداد میں آج بھی وہ اپنے ہی ملک میں پاکستان سے محبت کرنے کی سزا بھگت رہے ہیں اور بد حالی کے عالم میں کیمپوں ہی میں ان کی دو نسلیں جوان ہوگئی ہیں۔

مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی وجوہات کچھ بھی ہوں لیکن ان میں ہمارے سیدھے سادے معصوم بنگالیوں کا کوئی ہاتھ نہ تھا اور نہ ہی وہ الگ ہونا چاہتے تھے ۔ مورخین نے اس سانحے پر بہت کچھ لکھا لیکن جو سادہ سی بات سمجھ آتی ہے وہ یہی ہے کہ قیام پاکستان کے بعد مشرقی پاکستان میں دوری کی وجہ سے رابطے میں کمی رہی ۔ بھارت کی سرحدیں ملتی تھیں اور جہاں زمینی رابطے ہوں وہاں آنا جانا اور اثر و رسوخ قائم کرنا آسان ہوجاتا ہے ۔ مشرقی پاکستان کے اہم شہروں میں تعلیمی اداروں اورکاروبار میں ہندؤں کا بہت عمل دخل تھا ۔ اسمگلنگ زور و شور سے جاری رہتی تھی۔ مغربی پاکستان سے جو لوگ وہاں جا کر کاروبار کرتے تھے وہ مغربی پاکستان میں سے کتنا کچھ لاسکتے تھے یہ سوچنے کی بات ہے ۔ ہوائی سفر میں ہمارے پاس فوکر طیارے تھے جو کہ ہفتے میں دو بار جاتے تھے وہ بھی ڈھاکہ ائیر پورٹ تک۔

پانی کے راستے کافی وقت لگتا تھا ۔ پھر یہ پراپیگنڈہ کہ مغربی پاکستان نے مشرقی پاکستان کو کنگال کردیا ہے ۔ کس نے کیا ؟ یہ سب بہت سوچی سمجھی اور گہری سازش تھی جس کا ادراک اس وقت نہ ہوسکا ۔

بھارت کو قیام پاکستان اور 1965ء کی جنگ کا بدلہ لینا تھا ۔ اس کے لئے آسان ہدف مشرقی پاکستان تھا ۔ بزرگ سیاست دان ایک ایک کر کے ساتھ چھوڑ رہے تھے اور جو پاکستان کی اہمیت کو سمجھتے تھے وہ کنارہ کشی اختیار کر رہے تھے ۔ سیاسی اور معاشی حالات کا جائزہ لے کر بھارت نے ایک بھر پور نفسیاتی جنگ کی منصوبہ بندی کی۔ اگر تلہ سازش اسی کا ایک بنیادی حصہ تھی۔ 1968 میں اس سازش کے عیاں ہونے سے بھارت کو ایک دھچکا تو ضرور لگا لیکن ابھی اس کے ترکش میں بہت تیر باقی تھے۔

اگر ہم بھارتی تجزیہ نگار بی رامن کی تحریریں پڑھیں تو ساری تصویرواضح ہوجاتی ہے کہ کس طرح را اور دیگر اداروں نے مل کر خفیہ طور پرمشرقی پاکستان کو الگ کرنے کے لئے ہر اقدام کیا۔ بی رامن نے خود تحریر کیا ہے کہ را کے پانچ مقاصد تھے ۔ اول ہرقسم کی خفیہ معلومات پالیسی سازوں اور فوج کو فراہم کرنا ۔ دوم بنگالیوں کو خفیہ تربیتی کیمپوں میں ٹریننگ دینا ۔ سوم مغربی پاکستان اوربیرونی ممالک میں تعینات ان بنگالی سرکاری افسروں سے رابطے کرنا اورانہیں قائل کرنا کہ وہ مشرقی پاکستان کی آزادی میں ساتھ دیں اورہر طرح کی معلومات فراہم کریں ۔ چہارم خصوصی طورپرچٹاگانگ ہل ٹریک میں ناگا اور میزو کے خلاف اپریشن کرنا اور پانچواں پاکستانی حکمرانوں کے خلاف بھر پور نفسیاتی جنگ کا آغاز جس میں ایسی خبروں اور رپوٹوں کی تشہیر جن میں بنگالیوں کا قتل عام اور بنگالی لوگوں کے انخلاء کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا۔

اگر ہم ان پانچ منصوبوں پر ہی غور کر لیں تو دل دہل جاتا ہے کہ اس حد تک ہمارے خلاف اس وقت سازشیں ہوئیں جب رابطے کے وہ ذرائع نہیں تھے جو آج میسر ہیں۔ بھارت نے صرف پاکستان کے خلاف کامیاب پراپیگنڈہ کرکے بنگلہ دیش کے قیام میں کردار ادا نہیں کیا بلکہ وہاں پر اپنا تسلط قائم رکھنے کے لئے یہ نفسیاتی جنگ آج بھی جاری ہے جس کے نتیجے میں پاکستان کے 1971 ء کے کردارپر منفی رائے دی جاتی ہے۔ اگر بھارت کے جرنیل اور تجزیہ نگار یہ مانتے ہیں کہ انہوں نے وہ تمام سازشیں کیں جن کی وجہ سے مشرقی پاکستان میں ان کے اپنے لوگوں اور مکتی باہنی کے ذریعے قتل عام اور دیگر جرائم کئے گئے تاکہ پاکستانی فوج کو بدنام کیا جائے صرف پاکستان میں ہی نہیں بیرونی ممالک میں بھی یہ پروپیگنڈا پھیلایا گیا۔ تو کیا آج وہ ایسی سازش نہیں کر سکتے جب کہ ان کے پاس جدید ترین مواصلاتی نظام اور بہترین سہولتیں موجودہیں جن کی سر پرستی غیر ممالک بھی کرتے ہیں ۔ کیا آج بھارت پہلے سے زیادہ بہتر طورپرنفسیاتی جنگ کے ساتھ ساتھ دیگر حربے استعمال نہیں کر سکتا تاکہ پاکستان میں انتشار پیدا ہو اوراس کے لوگ صوبائی خود مختاری کی باتیں کرنے لگیں ۔

مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا ۔ محترمہ شیخ حسینہ واجد اور کچھ بزرگ سیاست دانوں نے بر ملا اگرتلہ سازش کو قبول کیا کہ یہ سب صحیح ہے ۔ وہ ڈی ایٹ کے اجلاس میں بھی اپنی ناراضگیوں کی وجہ سے شامل نہیں ہوئیں ۔ لیکن کبھی تو بنگلہ دیش کے لوگ سوچیں کہ اگر اگر تلہ جیسی سازش آج ان کے ملک میں ہو تو کیا وہ برداشت کریں گے ۔ بنگلہ دیش کے چند لوگ جو شاہد حقائق سے آشنا نہیں ہیں پاکستان پر کیوں الزام تراشی کرتے ہیں ؟ کیا بھارت اور بنگلہ دیش کے ان لوگوں کو جو بھارت کی سازش میں شریک ہوئے پاکستان سے معافی نہیں مانگنی چاہئے کہ انہوں نے ایک ملک کو توڑنے کی سازش کی۔ انہوں نے معصوم بنگالیوں کا قتل عام کیا۔ انہوں نے سزا کے طور پر محب وطن بنگالیوں کو مہاجر بنا کر آ ّج تک کیمپوں میں رکھا ہوا ہے صرف اسلئیے کہ وہ پاکستان کے خلاف سازش میں شامل نہیں ہوئے۔

بھارت رقبے اور آبادی کے لحا ظ سے ملک تو بہت بڑا ہے ۔ کیا اس کا دل بھی اتنا بڑا ہے کہ اگر اس کے جرنیل ، سیاست دان اور تجزیہ نگار بڑے فخر سے پاکستان کے خلاف سازشوں کی تفصیل بتاتے ہیں تو کیا بھارت اپنی ان گھناؤنی کا روائیوں پر معافی مانگ سکتا ہے ۔

ہم نے آج سے چالیس سال پہلے اگر اعتماد کرنے کی اور خود فریبی کی غلطی کی تو آج تو ہمیں اپنے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کو پہچاننا ہوگا اور ان کی سازشوں کو ناکام بنا نا ہوگا ۔
Anwar Parween
About the Author: Anwar Parween Read More Articles by Anwar Parween: 59 Articles with 40189 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.