خالد مشعل: فانوس بن کے جس کی حفاظت ہوا کرے (قسط دوم)

ملکِ فلسطین کےمشرق میں دریائے اردن بہتا ہے اس لئے اس سے متصل علاقہ غربِ اردن یا مغربی کنارہ کہلاتا ہےجبکہ مغرب کی جانب بحیرۂ روم کا ساحل ہے جس پر غزہ کی پٹی واقع ہے ۔ یہودی سوچتے ہوں گے غربِ اردن کے لوگ میٹھے پانی کے پروردہ ہونے کے باعث شیرین زبان ہیں اورغزہ کے لوگوں کا سابقہ سمندر کےنمکین پانی سے پڑتا ہے اس لئے وہ مزاجاً ترش رو ہیں لیکن ان کی اس غلط فہمی کو خالد مشعل نے دور کردیا جن کی جائے پیدائش رام للہ ہے۔گزشتہ دنوں غزہ میں ان کا غیر معمولی خیر مقدم کیا گیا ان کے خطاب کو سننے کیلئے پانچ لاکھ افراد جمع ہوئے ۔اس جمِ غفیر کو مخاطب کرتے ہوئے جب انہوں نے اعلان کیا کہ وہ اسرائيل کو کبھی تسليم نہيں کريں گے۔فلسطين ہمارا ہے، دريا سے سمندر تک اور جنوب سے شمال تک۔ ہم اپنی اس سرزمين کے ايک انچ پر بھی سمجھوتہ نہيں کريں گے۔ آج غزہ کل رام للہ اور پھر یروشلم اس کے بعد حیفہ اور جافا ۔اس طرح گویا ارضِ فلسطين کو اسرائيل کے وجودسے پاک کرکے اس پر اپنی حکومت قائم کریں گے تو اسرائیلی حکام کو اس شعر کا مطلب سمجھ میں آگیا ہوگا ؎
آئینِ جواں مرداں حق گوئی و بیباکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی

خالد مشعل کے اس بیان پر اسرائیلی وزیراعظم نے ساری دنیا کو برا بھلا کہا’’ حماس اسرائیل کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کی بات کرتی ہے لیکن ہر طرف خاموشی ہے کوئی اس پر احتجاج نہیں کرتا ۔محمود عباس تو نہ صرف اس کی تائید کررہے ہیں بلکہ اس سے اتحاد کی جانب پیش قدمی کررہے ہیں‘‘ ۔ نتن یاہو کا اندیشہ صحیح نکلا دو دن بعد مقبوضہ مغربی کنارے کے شہر نبلوس میں حماس نے سلور جوبلی جشن کا اہتمام کیا ۔؁۲۰۰۷ میں فتح سے اختلاف کے بعد یہ پہلی عظیم ریلی تھی جس میں ہزاروں فلسطینو ں نے شرکت کی ۔ اس موقع پر حماس کے رہنما حسنی البرونی نے کہا ہمارا پیغام یہی ہے کہ حماس اس سرزمین اور پر یہاں کی عوام کے دلوں میں رچی بسی ہے ۔ یوسف استقلال نامی نوجوان نے حماس کا پرچم لہراتے ہوئے کہا کہ یہ عظیم دن غزہ کی حالیہ کامیابی کے مرہونِ منت ہے۔ پانچ سال بعد پہلی مرتبہ فلسطینی انتظامیہ نے غربِ اردن میں حماس کو ریلی کرنے کی اجازت دی ۔اس ریلی سے ایک ہفتہ قبل فتح پارٹی کےنمائندے نے غزہ میں خالد مشعل کے ساتھ سلورجوبلی تقریبات میں شرکت کی تھی ۔ نبلوس میں بھی فتح کی انقلابی کونسل کے سکریٹری جنرل امین مقبول شریک ہوئے اور حماس کی قربانیوں کو سراہتے ہوئے کہا حماس نے ہزاروں شہا دتیں پیش کیں اور اس کے ہزاروں کارکن زخمی ہوئے نیز صہیونی جیل کے اندر قیدو بند کا شکار ہیں۔ انہوں یہ خوشخبری بھی سنائی کہ جلد ہی محمود عباس اور خالد مشعل بھی باہمی مفاہمت کی غرض سے ملاقات کرنے والے ہیں اور وہ ایک تاریخی دن ہوگا ۔

ایران کے رہنما مجتبی فردوسی پور نےخالد مشعل کے دورۂ غزہ کو صہیونی ریاست کی توسیع پسندیوں کے مقابلے کے مقابل غزہ کے لوگوں کے استقامت اور اس کی کامیابی کی علامت قراردیا۔انہوں نے کہا: ملت فلسطین کو ہر دور سے زیادہ آج واحد اور متحدہ قیادت کی ضرورت محسوس ہورہی ہے۔ چنانچہ اگر حماس اور جہاد اسلامی تنظیموں سمیت تمام سیاسی دھڑوں کی شراکت سے قومی اتحاد کی حکومت قائم ہوجائے تو وہ فلسطینی حکومت فوجی اور سیاسی شعبوں میں صہیونی فوج کی جارحیتوں کا زیادہ طاقت کے ساتھ مقابلہ کرسکے گی لہذا اختلافات کا خاتمہ فلسطین میں قومی اتحاد کی حکومت کی تشکیل پر منتج ہوسکتا ہے ۔ یہی بات اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی کے بعد خالد مشعل نے کہا تھا کہ اسرائیل سے فائر بندی کے بعد اگلے مرحلے میں ہم قومی وحدت اور مصالحت کا سفر شروع کریں گے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ قومی اتحاد اور مصالحت کی بنیاد مسلح مزاحمت پر ہونی چاہیے۔ محمود عباس نے بھی اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ فتح اور حماس کے درمیان سیاسی اختلافات کی خلیج کم کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔آج ہم اقوام متحدہ میں جارہے ہیں۔پھر مفاہمت کی کوشش کی جائے گی اور اس کے بعد ہم اپنی ریاست کے قیام کے لیے کوشاں ہوں گے۔ اس طرح گویا مغربی کنارہ اور مشرقی ساحل ایک دوسرے کے ساتھ بغلگیر ہوا چاہتا ہے۔ حماس اور فتح علامہ اقبال کی صدا پر لبیک کہہ رہے ہیں ؎
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلئے
نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کاشغر

غزہ عربی زبان کا لفظ ہے۔ جس کامعنیٰ مضبوط یاطاقتور کے ہوتے ہیں۔ زمانہ قدیم سے غزہ شمالی افریقہ، عرب ممالک اور یورپ کے درمیان اہم تجارتی شاہراہ رہا ہے۔ سکندر اعظم نے بھی پانچ سال تک غزہ کو اپنے قبضے میں رکھا۔ مصری اسے "انعامات کا شہر" کہتے تھے۔ حضرت محمد ﷺ کے پردادا حضرت ہاشم کی قبر مبارک بھی غزہ ہی میں ہے۔ اسی نسبت سے غزہ کو "غزہ ہاشم" بھی کہا جاتا ہے۔ حضرت ابو بکرؓ کے زمانے میں غزہ کو اسلامی سلطنت میں شامل کیا گیا۔ حضرت عمرؓ کے دور میں غزہ میں ایک عظیم الشان مسجد تعمیر ہوئی جسے مسجد عمر کا نام دیا گیا۔ اموی اور عباسی دور میں بھی غزہ کو اسلامی سلطنت میں اہم انتظامی حیثیت حاصل رہی۔ فقہ شافی کے بانی حضرت محمد ابن ادریس الشافی غزہ میں ہی پیدا ہوئے صلیبی جنگوں کے دوران عیسائیوں نے فاطمی حکمرانوں سے غزہ چھین لیا تھا۔ عیسائیوں نے اس عظیم مسجد کو چرچ بنا دیا مگر ؁۱۱۹۱ میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے عیسائیوں کو عبرت ناک شکست دے کر غزہ کو فتح کیا۔

پہلی جنگ عظیم کے دوران ؁۱۹۱۷ میں عثمانی ترکوں نے غزہ پر کو انگریزوں سے آزاد کرایا۔ جنگ عظیم دوئم کے بعد لیگ آف نیشنز نے غزہ کو دوبارہ برطانوی حاکمیت میں دے دیا۔ ؁۱۹۴۸ تک یہ علاقہ برطانوی علمداری میں رہاپھر اسے مصر کے حوالے کردیا گیا ۔ ؁۱۹۶۷ میں اسرائیل نے غزہ پر قبضہ کر لیااور بارہ سال بعد اسرائیل اور مصر کے درمیان ایک معاہدے کے تحت اس علاقے کی محدود خودمختار حیثیت کو تسلیم کر لیا گیا۔؁۱۹۹۳ کے اندر اوسلو معاہدے کے تحت اسے فلسطین کا حصہ بنا دیا گیا۔؁۲۰۰۵ میں غزہ سے اسرائیلی فوجوں کا انخلاء عمل میں آیا اور ؁۲۰۰۶ کے انتخابات میں حماس نے غزہ میں غیر معمولی کامیابی حاصل کرکے طاغوتی طاقتوں کی نیند اڑا دی ۔ عوام کی منتخبہ حکومت کو سازش کے ذریعہ الٹنے کی ایک ناکام کوشش کی گئی جسے اسلامی تحریک کی بیدارمغز قیادت نے ناکام بنا دیا۔ اس کے بعد غزہ کو چہار جانب سے محصور کرکے اسے عملاً ایک جیل میں تبدیل کر دیا گیا۔ وہاں کی عوام پر طرح طرح کے ظلم توڑے گئے چار سال قبل حملہ کرکے اسرائیل نے ۱۶۰۰ لوگوں کو شہید کردیا اور گزشتہ ماہ ۱۷۰ لوگ اسرائیلی حملے میں جان بحق ہوئے۔ اس کے باوجود غزہ کے جیالےعوام نے ظلم کے آگے کھٹنے ٹیکنے سے انکار کر کے یہ ثابت کردیا کہ ؎
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی

حماس کی سلور جوبلی تقریبات میں قطر، ترکی، مصر اور بحرين سےسرکاری وفود کی شرکت اس بات کی ایک علامت ہے کہ حماس کو بین الاقوامی سطح پر سندِقبولیت حاصل ہو گئی ہے۔ حماس کے ترجمان ابو زہری کے مطابق خالد مشعل کے دورے کا مطلب یہ ہے کہ ’اب غزہ آزاد ہے اور اب اُس کی مرضی کے مہمان یہاں کا دورہ کر سکتے ہیں‘۔اسرائیلی وزارتِ خارجہ کے ترجمان یگال پالمور نے بھی اعتراف کیا کہ اسرائیل کا اس پر کوئی اختیار نہیں ہے کہ مصر کی جانب سے غزہ میں کون داخل ہوتا ہے؟خالد مشعل نے غزہ میں تین روز تک قیام کیا اور وہ حماس کے بانی شیخ احمد یٰسین کے گھر بھی گئے۔

شیخ یٰسین نے ؁۱۹۸۷ میں انتفادہِ اول یعنی پہلی فلسطینی مزاحمتی تحریک کا آغاز کیا جو بعد میں حماس کے نام سے مشہور ہوئی ۔ اسرائیل نے مارچ ؁۲۰۰۴ میں شیخ احمد یٰسین کو اور ان کے بعد ڈاکٹر عبدالرحمٰن رنتیسی کو شہید کردیا۔ ان نازک حالات میں حماس کی ذمہ داری خالد مشعل کے کندھوں پر آئی۔ چند ماہ قبل خالد مشعل نے قیادت سے دستبردار ہو نے کا ارادہ ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ نئی مدت کے لیے اپنا دوبارہ انتخاب نہیں چاہتے اس وقت حماس نے خالد مشعل پر زور دیا تھا کہ وہ اپنے فیصلے پر نظرثانی کریں اور ان پر واضح کیا کہ تحریک کی قیادت کا فیصلہ کوئی ایک شخص حتیٰ کہ اس کا رہنما بھی اپنے تئیں نہیں کرسکتا بلکہ پوری جماعت اتفاق رائے مستقبل کے قائدکا منتخب کرے گی ۔ ایک طرف آزادی اور مساوات کا ڈھونگ رچانے والی جمہوریت نواز بے دین قیادت ہے جس نے اقتدارکو اپنے دانتوں سے پکڑ رکھا ہے ۔ وہ کسی صورت اس سے دستبرداری کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے اور اسے جاری و ساری رکھنے کی خاطر دنیا بھرکی جوڑ توڑ کرتے رہتے ہیں اور دوسری جانب اسلامی تحریک عالم انسانیت کے لئے مشعلِ راہ بنی ہوئی ہے جس میں ایک ایسی جماعت کا قائد جسے اقتدار حاصل ہے ازخود اقتدار سے دستبرداری کی پیش کش کرتا ہے

حماس جذبۂ شہادت سے سرشار ایک اسلامی تحریک ہے اسی لئے اس کے سربراہ نے اپنے بانی کے علاوہ شہید احمد الجعبری کے گھر کا دورہ بھی کیا۔ الجعبری کو اسرائیل نے گزشتہ ماہ نومبر میں حماس کے ساتھ آٹھ روزہ تنازعے کے دوران شہید کیا تھا۔ خالد مشعل اس فلسطینی خاندان کے گھر بھی گئے جس کےکل۱۴ ارکان اسرائیلی جنگی طیاروں کی بمباری میں شہید ہوئے تھے۔ اسرائیل کے ساتھ جنگ کے دوران خالد مشعل نے عرب ممالک سے فلسطینیوں کے فوجی معاونت کا مطالبہ کیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ فلسطین میں اس وقت ایک ایسے قومی سیاسی پروگرام کی ضرورت ہے جو مزاحمت کی بنیاد پر قائم کیا جائے۔ خالد مشعل نے صہیونیوں کے حملوں کے مقابلے میں غزہ کے باشندوں کی استقامت کی تعریف و توصیف کی اور کہا کہ سائنس و ٹیکنالوجی ترقی کا ایک عامل ضرورہے ، لیکن ملت فلسطین کے لئے سائنس و ٹیکنالوجی کے زمرے میں اسلحہ بھی شامل ہے ۔

حماس کی سلور جوبلی کے جشن میں خالد مشعل نے ایک دلچسپ اعلان یہ کیا کہ طویل جلاوطنی کے بعد غزہ میں آمد میرا تیسرا جنم ہے ۔ خالد مشعل کے دوسرے جنم کی داستان پہلے اورتیسرے سے زیادہ دلچسپ ہے ۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب حماس کے اردنی شاخ کی باگ ڈور مشعل کے ہاتھوں میں تھی۔ ۲۵ ستمبر ؁۱۹۹۷کی صبح اردن کے دارالخلافہ عمان میں واقع حماس دفتر میں جب وہ داخل ہو رہے تھے تو موساد کا ایک ایجنٹ ان کے قریب آیا اورایک آلہ کے مدد سے نہایت ژود اثر زہرلیفوفنٹانل انکےکان میں ڈالنے کی کوشش کی۔ مشعل کے ڈرائیور نے جاسوس کی اس مذموم حرکت کو بھانپ کر فوراً اپنے ہاتھ کے اخبار سےاسے جھٹک دیا لیکن اس کے باوجود زہر کا کچھ حصہ ان کے جسم میں چلا گیا ۔ محافظوں نے جاسوس کا پیچھا کیا اور اس کے ساتھی سمیت گرفتار کرکے قریب کے پولس تھانے میں جمع کرا دیا۔ یہ واقعات اس قدر دلچسپ ہیں کہ اس پر پال مک گیوغ نے بڑی تحقیق کے بعد’’ خالد کو قتل کرو(Kill Khaled )‘‘ نامی ناول لکھا جو حماس پر ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔

؁۲۰۰۵ میں اسرائیل کا اردن سے امن معاہدہ ہوا تھا اور ان ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات تھے ۔اس معاہدے کو محٖفوظ رکھنے کی خاطر خالد مشعل کو شہید کرنے کی خاطر زہر دینے کا طریقہ اختیار کیا گیا جس سے دودن کے اندر دم گھٹنے سے واقع ہونے والی موت بالکل فطری معلوم ہولیکن قاتلوں کی گرفتاری نے ساری بازی الٹ دی ۔ تحقیق و تفتیش سے پتہ چلا کہ پانچ جاسوس جن میں سے تین سفارتخانے میں روپوش ہیں کینیڈا کے پاسپورٹ پر بھیس بدل عمان آئے تھے اور انہیں اس مہم پراسرائیلی وزیراعظم بن یامن نتن یاہو کے ایماء پر روانہ کیا گیا تھا ۔چند گھنٹوں بعد خالد مشعل بے ہوش ہوگئے اور اس خبر کے منظرِ عام پر آتے ہی سفارتخانے کو عوام نے گھیر لیا ۔ اس کے بعد ہونا تو یہ چاہئے تھا ساری دنیا میں اس قاتلانہ حملے کے خلاف غم و غصہ کا اظہار کیا جاتا اور نتن یاہوکو اس گھناؤنے جرم میں گرفتار کرنے کی غرض سے انٹر پول کی جانب سے ریڈ کارنروارنٹ جاری کیا جاتا تاکہ اس بین الاقوامی مجرم کو قرار واقعی سزا دی لیکن ہوا یہ کہ نتن یاہو نے موساد سربراہ کے ساتھ عمان کا دورہ کر کے اردن کےشاہ حسین سے معافی مانگی اور اپنے قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کر ڈالا ۔

بستر مرگ پر کینسر کے موذی مرض میں مبتلا شاہ حسین اس موقع پر کمال دلیری کا مظاہرہ کیا اور سب سے پہلے زہر کی تریاق کو حاصل کرکے خلد مشعل کی جان بچانے پر اصرار کیا۔نتن یاہو نے اڑیل رویہ اختیار کرتے ہوئے ایسا کرنے سے صاف انکار کردیا ۔ اسکے جواب میں شاہ حسین نے کہا خالد کی موت کے ساتھ امن معاہدے کا جنازہ اٹھ جائیگا۔عوام سفارتخانے پر دھاوا بول دیں گے اور کوئی ایک بھی آدمی زندہ بچ کر نہیں جا سکے گا۔معاملہ طول پکڑ گیا یہاں تک کے امریکی صدر بل کلنٹن نے مداخلت کی اور نتن یاہو کو مجبورہونا پڑا۔اسرائیل سے موساد کے سربراہ ڈینی جاتوم خود زہر کا تریاق لے کر عمان آیا اور خالد مشعل کو ۱۰ گھنٹے بعد دوبارہ ہوش آیا ۔ اس طرح ان کا تیسرا جنم ہوا۔ بقول شاعر ؎
فانوس بن کے جس کی حفاظت ہوا کرے
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے

خالد مشعل کی صحتیابی حماس تحریک کیلئے ایک نویدِ صبح بن کر طلوع ہوئی۔ یہودی جاسوسوں کے بدلے فلسطینی قیدیوں کی رہائی پر گفت و شنید کا آغاز ہوا۔اس بار پھر شاہ حسین کا میاب ہوئے اور حماس کے بانی و روحانی پیشواشیخ احمدیٰسین سمیت ۶۱ فلسطینی اور ۹ اردنی قیدیوں کو رہائی نصیب ہوئی ۔یہ گھناؤنی سازش نتن یاہونے حق کا ایک چراغ کو بجھانے کی خاطر رچی تھی لیکن اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ چاند جو بادلوں میں چھپا دیا گیا تھا اپنی آب و تاب کے ساتھ پھر سے روشن ہوگیا اور اس کے نور سے تاریکی کے علبرخداروں کا منہ کالا ہوگیا۔ قرآن مجید میں یہی مثال ہے کہ اللہ مالک الملک ہے ۔ وہی زندگی کو موت سے موت کو زندگی سے نکالتا ہے اندھیرے سے روشنی کو نکالتا ہے اور روشنی میں اندھیرے کو پروتا چلا جاتا ہے ۔ بنیامن نتن یاہو نے اس وقت سوچا بھی نہیں ہوگا کہ خود اس کی وزارت إ عظمیٰ کے دور میں ایک ایسا وقت بھی آئیگا جب خالد مشعل کا غزہ میں پرجوش استقبال کیا جائیگا اور اس کے پاس خاموش تماشائی بنے رہنے کے علاوہ کوئی چارۂ کارنہیں ہوگا ۔ اس وقت برطانوی جریدے تھرڈ وے میگزین کو اپنے ایک انٹرویو میں خالد مشعل نے یہ کہا تھا کہ اسرائیلی دہشت کے دو اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ اس سے خوفزدہ ہوکر سہم جاتے ہیں اورکچھ دلیر اور بے جھجک ہو جاتے ہیں۔ میں مؤخر الذکر لوگوں میں سے ہوں۔ اس لئے کہ بقول شاعر ؎
ظلم کے کالے بادل سے ڈرنا کیسا؟
یہ موسم تو آنے جانے والے ہیں

اپنے تاریخی دورے میں خالد مشعل نے اپنے تیسرے جنم کے ساتھ ساتھ چوتھے جنم کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ میرا چوتھا جنم اس وقت ہوگا جب فلسطین آزاد ہوگا۔ فلسطین کے حق میں بننے والی عالمی رائے عامہ اور حماس و فتح کے درمیان مفاہمت فلسطین کی آزادی کا پیغام سناتی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اللہ کی نصرت اوراس کے نتیجہ میں حاصل ہونے والی فتح قریب ہے ۔
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2049 Articles with 1238227 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.