الیکشن کمیشن نے جب سے لوٹے کو
انتخابی نشان کے طور پر اپنی لسٹ سے فارغ کیا ہے لوٹا کچھ اور معتبر ہو گیا
ہے ۔ نشان کے طو رپر تو لوٹا ہمیشہ ہی بہت بے ضرر رہا ہے مگر کوئی بھائی
بند بھی اسے نشان کے طور پر اپنانے کو تیار نہیں تھا مگر عملی لوٹے جو اس
ملک کو لوٹنے میں کسب کمال رکھتے ہیں ۔ انہیں ہر شخص نہ صرف گلے لگانے کو
تیار ہے بلکہ اُسے ڈھونڈ ڈھانڈ کے لایا جاتا ہے اور اس کی راہ میں تارے
بچھائے جاتے ہیں کہ کسی طرف ہماری گلی آﺅ تو سہی۔ بد قسمتی یہ ہے کہ کوئی
اندھا خود کو اندھا کہلوانا پسند نہیں کرتا۔ کسی کانے کو اگر کانا کہا جائے
تو تکلیف اور کرب کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس لیے کیسے ممکن ہے کہ آپ ایک لوٹے
کو جو اس ملک میں سب سے معتبر اور بلند مرتبت ہے لوٹا کہیں اور اُسے برا نہ
لگے۔ نشان کے طور پر اگر کوئی لوٹا اپنائے تو یہ شائد اُس کے لیے عمر بھر
کا روگ بن جائے ۔ الیکشن کمیشن کا یہ احسان ہے کہ اُس نے ان معزاز ہستیوں
کا مقام پہچان کر اُن کے علامتی نشان کو اس لسٹ سے خارج کر دیا ہے۔ مگر
لوٹا تو چلا گیا ، لوٹا کلچر نہیں گیا بہر حال ابتداءتو ہوئی۔
کوئی پچیس تیس سال پہلے لاہور ہی میں میرے آبائی علاقے سے ایک شخص نے دیئے
کے نشان پر الیکشن لڑا۔ پنجابی میں دیئے کو ”دیوا“ کہتے ہیں ۔ یہ نشان اس
قدر مقبول ہوا کہ ہر طرف ”دیوا ،دیوا“ ہو گئی اور وہ شخص بآسانی الیکشن جیت
گیا۔ مگر اُس کے بعد دیوے نے اس کی جان نہیں چھوڑی۔ اب یہ دیا اُس خاندان
کی پہچان ہے۔ اُس کے بیٹے ”دیوے “ اس کے داماد ”دیوے “ ، اُس کے پوتے
اورنواسے دیوے ، حتیٰ کہ قریبی عزیز بھی اسی نام اور حوالے سے جانے اور
پہچانے جاتے ہیں۔ شروع میں اس نام سے وہ کچھ غصہ کرتے تھے پھر ایک وقت آیا
کہ کچھ ہچکچاہٹ محسوس کرتے تھے۔ مگر اب یہ عالم ہے کہ کسی کو اپنا مکمل
تعارف کرانا ہو تو بلا رکاوٹ بتاتے ہیں کہ فلاں دیوے کا فلاں رشتہ دار ہوں۔
افسوس یہ ہے کہ لوٹے کو کسی نے اپنایا ہی نہیں۔ ہو سکتا تھا کہ لوٹے کا
نشان بھی اسی طرح مقبولےت کی بلندیوں کو چھو جاتا۔ جس طرح عملی لوٹا ہر
سیاسی جماعت اور سیاسی لیڈر کو عزیز تر ہے۔ لوٹے کے نشان کو بھی آزمانے میں
کوئی حرج نہ تھا۔
الیکشن کمیشن کو لوٹے کا نشان تو نظر آگیا اور اُس نے اُس کو فوری ختم کر
دیا۔ مگر لوٹا کلچر کیوں نظر نہیں آیا۔ ہمارے ممبران اسمبلی عزت اور غیرت
کے اُس پست ترین منصب پر ہیں کہ صبح کہیں تو شام کہیں۔ انہیں فقط
اقتدارعزیز ہے۔ اخلاقی قدریں یا حقیقی علمیت اُن کے پاس سے بھی نہیں گزری۔
ہر وہ شخص جو جائز اور ناجائز طریقے سے الیکشن جیتنے کی پوزیشن میں ہو وہ
ہر سیاسی جماعت اور اُس جماعت کے لیڈر کو عزیز ہے۔ اُس پر باقاعدہ کام ہوتا
ہے اور اُسے اپنی جماعت میں شمولیت کے لیے سبز باغ دکھائے جاتے ہیں۔ وہ شخص
بھی اندازہ لگاتا ہے کہ کونسی جماعت زیادہ مقبول ہے اور اس کے مفادات کو
زیادہ تحفظ دینے کی پوزیشن میں ہو گی۔ وہ اُسی جماعت میں شمولیت کر لیتا ہے
اور اگر کسی صبح اُسے غلطی کا احساس ہو جائے تو سب اخلاقی قدریں بالائے طاق
رکھتے ہوئے شام تک دوسری پارٹی میں شمولیت کا اعلان کر دیتا ہے۔
لاہور کے ایک سیاسی لیڈر ہیں جو بعد میں ایم پی اے بھی ہو گئے اور ایم پی
اے بننے کے بعد بھی قلابازیوں میں مہارت رکھتے رہے۔ کافی عرصہ پہلے جب وہ
صرف ایک سیاسی کارکن تھے۔ میں اُن کے پاس بیٹھا تھا۔ اُنہوں نے ایک پریس
والے کو فون کیا کہ جو پوسٹر میں نے تمہیں چھپنے دیئے ہیں وہ دو بجے تک نہ
ملے تو میرے کسی کام کے نہیں۔ میں ابھی بےٹھا تھا کہ تقریباً ڈھائی بجے
پریس والا پوسٹر لے کر آگیا۔ یہ اُن کی پارٹی کے اُمیدوار لیڈر کے پوسٹر
تھے جن پر اُن کی بھی تصویر تھی۔ ملازم کو انہوں نے کہا کہ فوراً فلاں کے
گھر چھوڑ آﺅ۔ کوئی نہ بھی ہو تو برآمدے میں رکھ آنا۔ واپس نہیں لانے۔ تین
بجے میں اُن کو خدا حافظ کہہ کر واپس آیا۔ گھر پہنچ کر خبریں لگائیں تو پتہ
چلا کہ پندرہ منٹ پہلے انہوں نے مخالف لیڈر کی پریس کانفرنس میں شرکت کر کے
اُس کی پارٹی میں شمولیت کا اعلان کر دیا ہے۔ مجھے دونوں سیاسی پارٹیوں سے
کچھ ہمدردی نہ تھی لیکن اخلاقی قدروں کی یہ پامالی ۔ میںان صاحب سے اُس کے
بعد بہت کم ملا ہوں ۔
چیف جسٹس آف پاکستان اور چیف الیکشن کمشنر آف پاکستان اس ملک پر اگر کوئی
صحیح احسان کرنا چاہتے ہیں تو کچھ سیاستدانوں کے لیے اخلاقیات کا اہتمام کر
دیں۔ ہر وہ شخص جو ایک پارٹی چھوڑ کر کسی دوسری پارٹی میں جائے اُس کے لیے
کوئی ایسی پابندی تو ہو کہ وہ نئی پارٹی میں کسی عہدے یا پارٹی ٹکٹ پر کوئی
الیکشن دو سال تک نہ لڑ سکے گا۔ یہ مدت کچھ تبدیل بھی کی جا سکتی ہے ۔ مگر
راتوں رات پارٹی بدلنے اور چڑھتے سورج کی پوجا کرنے والوں کی حوصلہ شکنی
بہت ضروری ہے۔ وگرنہ میں جو کہتا ہوں کہ کچھ نہیں بدلے گا۔ صحیح ثابت ہو گا۔
عمران خان کی بڑھتی ہوئی پیش قدمی میں کچھ کمی آئی ہے۔ اُس کی وجہ بھی شاید
یہی ہے کہ ایک بڑی تعداد میں آزمائے ہوئے لوگ اُس کی پارٹی میں تیزی سے آئے۔
انہوں نے عمران کی مقبولیت سے فائدہ اٹھانے کے لیے پارٹی میں شمولیت کی۔
پارٹی میں موجود پارٹی کے حامی نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد اس بات پر ایمان
رکھتی ہے کہ ملکی حالات بدلنے کے لیے ان پرانے آزمائے ہوئے مکروہ اور بے
ضمیر لوگوں سے نجات بہت ضروری ہے۔ عمران کا لاہور کا جلسہ اسی سوچ کا مظہر
تھا اور اُس میں لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ایک خاموش انقلاب تھا۔
اسلام آباد میں میرا ایک انتہائی پڑھا لکھا دوست جو پی ایچ ڈی اور
یونیورسٹی کا پروفیسر ہے پاکستان تحریک انصاف کے لیے شاگردوں کے ہجوم کے
ساتھ کام کر رہا تھا۔ اُس نے لاہور کے جلسے کے کچھ دن بعد مجھے فون کیا اور
اسلام آباد کے مضافات میں فلاں گاﺅں کا مشہور رسہ گیر پورے شہر میں بینر
لگائے پھر رہا ہے جس پر متوقع امیدوار تحریک انصاف درج ہے۔ فلاں علاقے کا
بستہ ب کا بدمعاش بھی یہی کام کر رہا ہے اور یہ کیا ہو رہا ہے۔ میں اُسے
کیا بتاتا۔ ہر شخص جس کے پاس رزق حرام کی فراوانی ہے اور جو اپنے پیسے کے
زور پر سمجھتا ہے کہ وہ ٹکٹ اور پارٹی لیڈر دونوں کو خرید سکتا ہے۔ اُسے
ایسی حرکتوں کا حق ہے اور جب تک ملکی قانون اُس سے یہ حق نہیں چھینتا وہ
لوگوں سے انصاف اور عدل چھینتے رہیں گے۔ اور عمران کو یہ بات بھولنی نہیں
چاہیے کہ جب تک ہم لوگ ایسے لوگوں کو مسترد نہیں کریں گے کچھ نہیں بدلے گا۔ |