باچہ خان ایر پورٹ پر دہشت گردوں
کے منظم حملے نے بہت سارے سوالات کو جنم دے کر سیکورٹی و امن امان کے حوالے
سے ارباب بست و کشاد کے تمام تر دعوﺅں کو حرفِ غلط کی طرح مٹاڈالا ہے ۔
کہاجا رہا ہے کہ حملہ آوروں کا اصل ٹارگٹ پاک فضائیہ کا ہوائی اڈہ ”پی اے
ایف بیس پشاور“ تھا۔ دہشت گردی کی اس تازہ واردات سے وطن دشمن عناصر نے
گزشتہ وارداتوں کی طرح پھر یہ ثابت کر دیا ہے کہ ملک کے سیکیورٹی اداروں کی
طرف سے ہمیں شکست دینا آسان نہیں اور بلاشبہ تلخ حقیقت بھی یہی ہے کہ یہ
کارروائیاں حکومت اور قانون کے نفاذ کرنے والے اداروں کے لیے کسی کڑے چیلنج
سے کم ہر گز نہیں لیکن یہاں پر حالت وہی ہے کہ حکمران طبقے کو اپنی ”موج
مستیوں‘ ‘ اور” پوائنٹ سکورنگ“ سے ہی فرصت نہیںجس سے ملک دشمنوں کو کھل کر
کھیلنے کے مواقع میسر آرہے ہیں ۔ صاحبان اقتدار اور قانون نافذ کرنے والے
قومی سلامتی کے اداروں کی جانب سے ان وارداتوں کی روک تھام کے لیے کوئی
ٹھوس قدم نہیں اٹھا یا جا رہا جس سے تخریب کاروں کے حوصلے مزید بلند ہو رہے
ہیں اور ملک کے کسی بھی حصے میں خواہ پبلک مقامات ہوں یا دفاعی مراکز و
حساس تنصیبات وہ ان پر ضرب لگانے کی پوری پوری صلاحیت حاصل کر چکے ہیں ۔ ان
وارداتوں کے پس منظر میں یہ رپورٹس بھی کب کی واضح ہو چکی ہیںکہ عالمی
طاقتوں کی آشیر واد سے ان لوگو ںنے مستقل طور پر پاکستان کے اندر ہی ڈیرے
ڈال رکھے ہیں اور وہ جونہی فضاءکو اپنے لیے سازگار پاتے ہیں کارورائی کر
ڈالتے ہیں او راب نوبت بایں جا رسید کہ دفاعی مراکز سے لے کر ملک کے کسی
بھی حصے میں کارروائی کر کے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان سے دوچار کر
ڈالنا ان کے بائیں کا کھیل بن گیا ہے۔ درحقیقت عالمی طاقتوںکے تنخواہ دار
یہ دہشت گرد گروپس پاکستان کی سیکیورٹی فورسز اور دفاعی مراکز پر حملے کر
کے عالمی دنیا کو یہ پیغام دینا چا رہے ہیں کہ جو فوج اپنے مراکز کا دفا ع
نہیں کر سکتی وہ جوہری تنصیبات یا جوہری ہتھیاروں کو دہشت گردوں کی پہنچ سے
دو ر کیسے رکھ سکتی ہے ۔۔۔؟ ہم سمجھتے ہیں کہ اس ضمن میں اگر سیکیورٹی حکام
کی کارکردگی واقعی شاندار ہوتی تو اسے یقینا سراہا جانا چاہیے تھا لیکن
قابل افسوس امر یہ ہے کہ سیکیورٹی حکام پر بھی حکمرانوں کا سا ”غازہ“ چڑھ
چکا ہے اور وہ حالات سے نبرد آزما ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔ ان روح فرسا
واقعات کے مشاہدے وتجزیے کے بعد یہی کچھ کہا جا سکتا ہے کہ عوامی تحفظ کے
ضامن اداروں کی کارکردگی کم ازکم عوام کی نظروں میں صفر رہ گئی ہے اور
کامرہ حملے کے بعداس تازہ واردات سے سیکیورٹی اداروں اور خاص طور پر خفیہ
ایجنسیوں کے کردار پر انگلی اٹھنا ایک فطری امر ہے ۔توجہ طلب معمہ ہے کہ
اہم قومی اثاثوں تک حملہ آور معلومات و رسائی بھی بخوبی حاصل کرلیتے ہیں
اور پھر کافی حد تک اپنے مکروہ مشن میں کامیاب بھی ٹھہرپاتے ہیںجب کہ قوم
کے حصے میں حکمرانوں کی طرف سے محض طفل تسلیاں ہی آتی ہیں ،آخر ایسا کیوں
ہے ۔۔۔؟ عبد الرحمن ملک ایسے وزیر داخلہ ودیگر کی طوطا چشمی اور اپنی
کوتاہی ، نااہلی کی ریت وہی ہے کہ کروڑوں لوگوںکے جذبا ت سے مسلسل کھیلا جا
تا ہے اور کسی بھی دہشت گرد حملے کے بعد اپنے ہی عوام کو حقیقت سے کوسوں
پرے رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ شاید اس میں یہی راز پوشیدہ ہے کہ حکمران
طبقہ ایسے حقائق اگل کراپنی قابلیت کا ”کچا چٹھا “نہیں کھولنا چاہتا کہ جس
سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو سکے ۔ ان قومی مسائل بارے حکمرانوں کی
دلچسپی کا انداز ہ اس بات سے لگایے کہ جس وقت باچہ خان ایر پورٹ پر
سیکیورٹی فورسز کے جوان حملہ آور وں سے نبر د آزما تھے اور پوری قوم کی
نظریں اس پر مرکوز تھیں عین اسی وقت اپنے راجہ صاحب ”کوثر و تسنیم“ سے دھلی
گفتگو کے ساتھ فرما رہے تھے کہ ”اگر کسی نے ہم سے زیادہ ترقیاتی کام کروائے
ہوں تو وہ سامنے آئے “۔جنابِ راجہ صاحب کے اس بیان پر یہی تبصرہ کیا جا
سکتا ہے کہ روم جل رہا تھا اور نیرو بانسری بجا رہا تھا، وہی نیرو جو روم
پر حکومت کرتا تھا ،کہتے ہیں کہ اس کے دور میں روم کو آگ لگ گئی اور فائر
بریگیڈ چھٹی پر تھا ، چنانچہ اس نے بانسر ی کے سروں سے آگ پر قابو پانے کی
کوشش کی تھی لیکن روم جل گیا کیونکہ ظاہر ہے آگ میوزک کے بارے میں اتنی ہی
نابلد تھی جتنا آج کے پاکستانی حکمران قومی مسائل سے ۔ موجود ہ حکمرانوں نے
بھی نیر و کی طرح بانسری بجاتے بجاتے آخرِ کار اپنی پانچ سالہ مدت اقتدار
پوری کر لی ہے ، پتہ نہیں نیرو کے دور ِ حکومت میںروم میں خوشحالی اور
تعمیر و ترقی کا کیا عالم تھا لیکن راجہ صاحب کی حکومت کی پانچ سالہ شاندار
کاکر دگی ایک کھلی کتاب کی مانند اٹھارہ کروڑ عوام کے سامنے ہے ۔امن و امان
کی خراب صورتحال کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت کا پہیہ تو کب سے رک چکا ، باقی
جہاں تک وزیر اعظم اپنے کارناموں کا تذکرہ کرتے نہیں تھکتے اگر وہ خود بھی
ذرا امن و امان کا جائز ہ لیں تو ان پر اپنی اور اپنے دوستوں کی شاندار
کارکردگی واضح ہوتے دیر نہیں لگے گی اور۔۔۔۔ آج کل تو ویسے بھی قومی
اخبارات میں سیاستدانوں کی” کرپشن “کے سنہری کارنامے اور” ٹرانسپرنسی
انٹرنیشنل “کی ہوش ربا رپورٹس منظر عام پر آرہی ہیں، ان کے متعلق جنابِ
وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کے ارکان کیا کہیں کہنا چاہیں گے۔۔۔۔۔؟ |