ایک چھوٹی سی خبرجسے اکثریت نے
تو بڑے مزے لے لے کر پڑھا ہو گا اور سیاسی کارکنوں نے ایک دوسرے پر فقرے
بھی کسے ہونگے مگر اصل میں یہ خبر بڑی بھیانک اور خوفناک تھی جسے پڑھ کر دل
دھل گیاکہ ہمارے حکمرانوں نے قائد اعظم کی محنت،اقبال کے خواب اور ہزاروں
مسلمانوں کی قربانیوں کے بعدقائم ہونے والے پاکستان کا کیا حشر کر دیا کہ
جہاں پر لوگ صرف ایک وقت کے کھانے کیلیئے کیا کچھ نہیں کرجاتے جس سے نہ صرف
پاکستان کا وقار اپنوں میں مذاق بن جاتا ہے بلکہ پوری دنیا میں یہ پیغام
بھی چلا جاتا ہے کہ ہم لوگ صرف کھانے کیلیے زندہ ہیں دیکھنے کو یہ صرف ایک
خبر ہے کہ اتوار کودادو میں مسلم لیگ (ق) کا جلسہ اس وقت بدنظمی کا شکار
ہوگیا جب چوہدری شجاعت حسین نے اپنی تقریر شروع کی تھی کہ کسی کارکن نے
آواز لگادی کہ کھانا شروع ہوگیا ہے جس پر مسلم لیگ(ق) کے کارکنوں نے آﺅ
دیکھا نہ تاﺅ اور کھانے پر ٹوٹ پڑے کارکن کھانا دیگوں سے نکال کر کھاتے رہے
اور جو کھانا بچ گیا وہ چادروں اور پارٹی پرچم میں باندھ کر ساتھ لے گئے۔
یہ صرف ایک جماعت کے کارکنوں کا ہی کارنامہ نہیں ہے بلکہ پاکستان میں ہر
سیاسی جماعت میں یہی ہو رہا ہے کہ سیاسی جلسوں میں عوام کو کھانے کا لالچ
دیکر بلایا جاتا ہے اور پھر انکی بھوک کا مذاق اڑا کر انہیں تقریریں سننے
پر مجبور کیا جاتا ہے اور پھر جیسے ہی کھانے کی دیگیں میدان میں پہنچتی ہیں
تو پھر صبر ختم ہو جاتا ہے اور کھانے پر عوام ٹوٹ پڑتی ہے پاکستان اور اسکی
عوام کا یہ حشر کرنے والے کوئی غیر نہیں بلکہ یہ ہمارے اپنے ہی ہیں جنہوں
نے ہمیں خوشحالی کا لالچ دیکر ہمیں ہی لوٹا اور خود خوشحال بن گئے اپنے
خاندان اور عزیزواقارب کو بھی جی بھر نوازا اس ملک کو بھی لوٹا اور عوام کی
گردنوں پر بھی چھری چلائی خود تو ٹیکس نہیں دیے غریب عوام کو روٹی ،کپڑا
اور مکان کا جھانسہ دیکر ان بنیادی سہولتوں سے بھی محروم کردیا یہی وجہ ہے
کہ اب پاکستان میں ووٹ بکتے ہیں ہر کوئی کچھ نہ کچھ کمانے کے چکر میں اور
اسکے لیے اسی خواہ کوئی بھی راستہ اختیار کرنا پڑے کیونکہ ہر پاکستانی نے
اپنے بچوں کو بھی پالنا ہے گھر کا کرایہ بھی دینا ہے بجلی، گیس اور پانی کے
بلوں کے ساتھ ساتھ بچوں کی فیسیں بھی دینی ہے جبکہ روزگار کوئی نہیں اگر
کسی کا کوئی روزگار ہے بھی تو وہ اس قابل نہیں ہے کہوہ یہ سب اخراجات اپنی
جیب سے پورے کرسکے جبکہ اس ملک پر قابض ڈاکوﺅں نے لوٹ مار کا ایسا سلسلہ
شروع کیا ہوا ہے کہ ان کو دیکھ کر سب اسی کام میں لگے ہوئے ہیں اب ہر کوئی
کسی نہ کسی چکر میں دوسرے کی جیب صاف کرنے کا کوئی نہ کوئی منصوبہ بنائے
ہوئے ہیں کوئی کسی کو نوکری کا جھانسہ دیکر لوٹ رہا ہے تو کوئی کسی کو
تھانے کچہری میں الجھا کر دیہاڑی لگا رہا ہے اور تو اورمختلف محکموں بلخصوص
پولیس اور انٹی کرپشن کے ٹاﺅٹوں نے بھی لوٹ مار کا بازار گرم کررکھا ہے یہ
سب لوگ جو کسی نہ کسی کو چھری پھیرنے چکر میں اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع
کررہے ہیں کیا ہی اچھا ہوتا کہ حکومت ان سب کو انکی معاشی پریشانیوں سے
نجات دلانے کا کوئی انتظام کرتی خود بھی لوٹ مار بند کرتی اور پاکستان کی
ترقی کا زریعہ بھی بنتی مگر یہاں پر آج تک جو بھی آیا اس نے لوٹ مار ہی کی
اگر کوئی کسی سرکاری محکمہ میں چلا گیا تو اس نے اپنی اوقات کے مطابق وہاں
پر بھی لوٹ مار شروع کردی جس کا جتنا اختیار ہوتا وہ اتنی ہی لوٹ مار
کرلیتا عوام کے ٹیکسوں پر پلنے والے یہ سرکاری سانڈ ٹیلی فون سے لیکر بڑی
بڑی عیاشیاں سرکاری خرچ پر کررہے ہیں جبکہ سرکاری گاڑیا ں اور سرکاری
پیٹرول کا بے دریغ استعمال ایسا کرتے ہیں جیسے یہ لوٹ کا مال ہو جبکہ آج کے
دور کا غریب اور موٹر سائیکل سوار پچاس روپے کا پیٹرول ڈلواتے ہوئے بھی
پچاس بار سوچتا ہے اور اسی وقت اپنی موٹر سائیکل استعمال کرتا ہے جب اسے
ضروت ہوتی ہے جبکہ ہمارے سرکاری افسران مال مفت دل بے رحم کی زندہ مثال بن
کر ڈاکے ڈالنے میں مصروف ہیں اور جہاں پر ایسے حکمران اور افسران ہو وہاں
پر ملک کے عوام بھی ایسے ہی ہوتے ہیں جو صرف پارٹی جلسوں میں اسی لیے جاتے
ہیں کہ کھانا ملے گا اور اسی کھانے کی بھوک کو دیکھتے ہوئے ہمارے
سیاستدانوں نے عوام کو بیوقوف بنا کر ووٹ حاصل کیے اور پھر اسی ووٹ کی طاقت
سے نوٹ کمائے خود تو کچے مکانوں سے محلوں تک پہنچ گئے اور بیچاری عوام کو
چھت سے بھی محروم کردیا اور آج انہی حکمرانوں کی وجہ سے پورے ملک میں سے
گنتی کے چند ایماندار اور فرض شناس انسانوں کا ملنا مشکل ہو گیا ہے اگر
کوئی باامر مجبوری اور دکھاوے کیلیے ایماندار ہے تو اسکے بارے میں کچھ کہنا
مشکل ہے - |