ہم نہ ہوں ہمارے بعد ۔۔۔ الطاف
الطاف۔ سندھ سمیت پاکستان کے بیشتر شہروں میں ایم کیو ایم کی جانب سے بلند
کئے جانے والے نعرے نئے نہیں ہیں ۔ لیکن اس نعرے کی فلسفے اور سوچ کو نظر
انداز نہیں کیا جاسکتاکہ ایسے نعرے انسانی جذبات کی انتہا ہیں جس کا مظاہرہ
بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے ۔ ایسی تناظر میں دیکھنا ہوگا کہ کیا وجہ ہے کہ
ایم کیو ایم نے عدالتی جنگ کےساتھ ، عدلیہ کے فاضل جج کےخلاف سیاسی محاذ
آرائی کےلئے سخت رویہ اختیار کیا ؟۔ اس ضمن میں سنیئر تجزیہ کاروں، سیاسی
پنڈتوں اور مخالفوں سمیت ایم کیو ایم کے اتحادیوں نے ایک ہی رویہ اپنایا ہے
کہ ایم کیو ایم ، عدلیہ کے احترام میں سیاسی احتجاج سے گریز کی راہ کرے اور
اپنا موقف عدالت میں پیش کرے ۔ یقینی طور پر اس میں ایم کیو ایم کیجانب سے
انکار نہیں کیا گیا کہ عدالت میں توہین عدالت کے نوٹس کا جواب نہیں دیا
جائے گا ۔ لیکن اس حوالے سے ایم کیو ایم کے کارکنان اور ہمدروں کا سخت رویہ
ناقابل فہم بھی نہیں ہے۔جس وقت میں یہ سطور لکھ رہا ہوں تو یہ خدشہ میرے دل
و دماغ میں ہے کہ جن اخبارات کےلئے میں متواتر مختلف موضاعات پر بے لاگ غیر
جانبدارانہ کالم لکھتا رہا ہوں ، میرے اس تجزیئے کو شائع کرتے ہیں کہ نہیں،
۔ لیکن اس بات سے قطع نظر میرے لئے یہ ضروری ہے کہ میں اپنا غیر جانبدارنہ
تجزیہ عوام کے سامنے رکھوں ۔اب ادارے کی مرضی ہے کہ وہ میرے آرٹیکل کو کس
پیرائے میں لے جاتے ہیں۔میں اصل موضوع کی جانب آتا ہوں کہ ایم کیو ایم
کیجانب سے عدالتی جنگ کےساتھ سیاسی جنگ کا اعلان کیوں کیا گیا تو اس کا صاف
جواب یہ ہے کہ ایم کیو ایم کے قیام سے اب تک مختلف ادارے ، سیاسی مخالفین
کسی نہ کسی ایم کیو ایم کو کراچی کی حد تک محدود رکھنے کی کوشش کرتے رہے
ہیں اور ان کےخلاف جب حکومت کا اتحادی ہونے کے باوجود سندھ میں ڈاکوﺅں کے
خلاف آپریشن کا جواز بنا کر 1992میں فوجی آپریشن کیا اور ایم کیو ایم کے
بطن سے مہاجر قومی موومنٹ (حقیقی) نے گھر کے بھیدی ہونے کا کردار ادا کیا ۔
اس عمل نے ایم کیو ایم کی اعلی قیادت سمیت اہم رہنماﺅں کو روپوش ہونے پر
مجبور کردیا ۔ لیکن اس کے باوجود کہ پہلے اور دوسرے درجے کی قیادت موجود
نہیں تھی ایم کیو ایم نے انتخابات میں حصہ لیکر پھر بھی کامیابیاں حاصل
کیں۔1992ءکے بعد ایم کیو ایم نے اپنے تنظیمی ڈھانچے کو مزید مضبوط کیا اور
مہاجر قومی موومنٹ جیسے عناصر افراد کی دوبارہ موجودگی سے بچنے کی کوشش کی
لیکن ان افراد کو دوبارہ بھی شامل کرلیا جن کی وجہ سے ایم کیو ایم میں دھڑے
بازی ہوئی تھی ۔سیاسی اتار چڑھاﺅ میں ایم کیو ایم سندھ کے شہری علاقوں میں
مضبوط ہوتی چلی گئی تو اس کی کئی بنیادی وجوہات میں ایک اہم وجہ ان کا
24گھنٹے مسلسل کام کرنا بھی ہے جو کوئی دوسری سیاسی جماعت نہیں کرتی ۔ایم
کیو ایم خورشید میموریل سیکرٹریٹ ، لندن سیکرٹریٹ شب و روز کام کرتا ہے اور
سب اس بات کو جانتے ہیں کہ اپنے تنظیمی ڈھانچے اور نظم و نسق کی وجہ سے ایم
کیو ایم کےلئے لاکھوں کا جلسہ کرنے میں صرف اتنا ہی وقت لگتا ہے جتنا اسٹیج
اور جلسہ گاہ کی تیاری میں وقت صرف ہوتا ہے۔بارہ مئی2007ءمیں ایم کیو ایم
نے اپنی میڈیا کے حوالے سے خامیوں کو دیکھا اور ایم کیو ایم کےخلاف جس طرح
میڈیا کے بعض عناصر مخصوص سوچ رکھتے ہیں ۔ ایم کیو ایم نے اپنی کمزوریوں
اور خامیوں کی اصلاح کی اور اپنی میڈیا کمیٹی کو اس قدر موثر کیا کہ ان کے
تمام جلسے ، ریلیاں ، کئی کئی گھنٹوں تک کے خطاب براہ راست دکھائے جانے لگے
۔ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں نے ایم کیو ایم کا مقابلہ کرنے کےلئے کبھی
سیاسی طریقہ کار کو فوقیت نہیں دی بلکہ ریاست کے اداروں ، جیسے پولیس،
رینجرز ، فوج ، حساس اداروں پر دباﺅ بڑھاتے رہے کہ ایم کیو ایم کی سرگرمیاں
محدود کرائیں جائیں ۔ماضی میں ایسے واقعات ہوئے جس نے ایم کیو ایم کے دل
میں بعض اداروں کے سرکردہ افسران کی جانب سے جانب دار روئیے کے سبب عدم
اعتماد کی فضا مستقل قائم کردی ۔قوم پرست جماعتوں کیجانب سے تقسیم سندھ ہوں
، یا شہری علاقوں میں ایم کیو ایم کا منظم نیٹ ورک کے خلاف سیاسی مخالفوں
کی مہم جوئی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ایم کیو ایم اپنے کارکنان کے خلاف تمام
مقدمات کا سامنا عدالتوں میں کرتی رہی ہے اور اب بھی کر رہی ہے ۔ کسی سیاسی
جماعت کے پاس اتنی بڑی لیگل کمیٹی نہیں جو بلا معاوضہ کام کرتی ہو ۔ ایم
کیو ایم کے پاس وکلا ءکی ایک بہت بڑی تعداد ہے۔ عدالتی نوٹس پر ایم کیو ایم
خاموش رہ کر اپنا احتجاج ریکارڈ کراسکتی تھی لیکن اس بار عدلیہ کے ایک فاضل
جج کیجانب سے جب براہ راست ایم کیو ایم کو چیلنج کیا گیا اور ایسے احکامات
دیئے گئے جو اس وقت انتخابی ماحول میں قبل ازوقت تھے ، تو فطری طور پر ایم
کیو ایم کیجانب سے ایک سخت موقف اختیار کیا گیا ۔اس سلسلے میں الیکڑونک
میڈیا بھی کچھ نہ کچھ قصور وار ضرور ہے کیونکہ عدالتوں کے صرف فیصلوں کو
اپنی رپورٹ کا حصہ بنانے کے بجائے ریمارکس کو بھی اس طریقے سے بیان کرتے
ہیں جیسے یہ عدلیہ کا حتمی فیصلہ یہی ہے۔پاکستانی عدالتیں ہمیشہ کبھی فوجی
آمریت کو نظریہ ضرورت کے تحت آشیر باد دیتی رہی ہیں تو کبھی سیاسی آمریت پر
شفقت کی نظر رکھتی رہی ہے ۔ اگر آج عدلیہ اس قدر طاقت ور ہوچکی ہے کہ عوام
کے منتخب وزیراعظم کوگھر بھیج سکتی ہے۔سابق فوجی سربراہان کو کٹہرے میں
کھڑا کرسکتی ہے ، بلوچستان کی حکومت کو غیر فعال کراسکتی ہے تو اس کی
بنیادی وجہ صرف یہی ہے کہ تمام سیاسی قوتوں نے عدلیہ کے وقار کو ملحوظ خاطر
رکھا اورمحاذ آرائی سے گریز کرتے ہوئے جمہوریت کو مضبوط کرنے کی کوشش کرتے
ہوئے تیسری قوت کی مداخلت کو قابو میں رکھا ۔لیکن بعد ازاں عدلیہ کی جانب
سے بعض ایسے فیصلے آنے لگے کہ ہر طرف سے جوڈیشنل مارشل لاءکی باتیں بر
سرعام ہونے لگیں ۔کالا باغ ڈیم سے بڑی مثال اس وقت تک کوئی نہیں ہے۔مملکت
میں ایک انتہائی خطرناک روایت پڑ سکتی ہے اگر سپریم کورٹ کی جانب سے تدبر
کا مظاہرہ نہیں کیا گیا تو سپریم کورٹ کے خلاف زبان بندی ختم ہوجائے گی اور
آج ایم کیو ایم اگر کسی جج کے ریمارکس کے خلاف سڑکوں میں آگئی ہے تو کل ،
کوئی بھی ملک ریاض ، فیصل رضا عابدی ،بابر اعوان ، شر جیل میمن ، ڈاکٹر
ذوالفقار مرزا کی طرح تنہانہیں بلکہ ایم کیو ایم کی طرح اپنے لاکھوں
کارکنوں کی طرح سپریم کورٹ کے ہر قسم کے فیصلوں پر سیاسی گرمی اور جذبات کو
بڑھاتا چلے گا اور پھر خدا نخواستہ ایسا وقت بھی آسکتا ہے کہ کسی کے ہاتھ
میں کچھ نہ رہے اور ماضی کی غلطیوں سے سبق لینے کے بجائے مزید غلطیاں کرتے
رہیں۔سپریم کورٹ اپنے فاضل جج کے ریمارکس پر وضاحتی بیان جاری کرکے ایم کیو
ایم کے اشتعال کو کم کر سکتی ہے۔سپریم کورٹ کی جانب سے یہ پہلی مرتبہ ایسا
نہیں ہوگا بلکہ سپریم کورٹ متعدد بار ایسا عمل کرچکا ہے ۔جس کی سب سے بڑی
مثال ، رجسٹرار کی جانب سے مقدمے کا فیصلہ پہلی مرتبہ ، پریس کانفرنس کے
ذریعے جاری کرنا۔پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کے سامنے پیش ہونے سے انکار کرنے کے
لئے میڈیا کا سہارا لینا ۔علاوہ ازیں بار ایسوسی ایشن میں تقاریر سمیت ایسے
بہت سے مواقع پر سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے جج صاحبان اپنے خیالات کا
اظہار بر ملا کرتے رہیں ہیں۔اگر اجارہ داری کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فاضل
جج یارجسٹرار سپریم کورٹ پریس ریلیزجاری کردیں تو ممکن ہے کہ ایم کیو ایم
اپنی لیگل کمیٹی کے ذریعے سپریم کورٹ میں مثبت طریقہ کار اختیار کرکے ملک
وقوم کے بہتر مفاد کے خاطر اپنے کارکنان کے غیض وغضب اور اشتعال کو کنڑول
کرسکے۔کراچی سے دور ، سوات میں دور افتادہ علاقے چارباغ بیٹھ کر محسوس کر
سکتا ہوں کہ آنے والے دن کراچی ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان کے لئے پل صراط
سے کم نہیں ہیں ۔ کسی بھی دانستہ یا غیر دانستہ غلطی سے ناقابل تلافی نقصان
پہنچنے کا سو فیصد امکان موجود ہے ۔ایم کیوایم ملک و قوم کے مفاد کے خاطر
اپنے کارکنان کو اشتعال سے روکے اور انھیں پر امن رکھنے کی کوشش کرے ۔
نفسیاتی طور پر ایم کیو ایم کے کارکنان الطاف حسین سے انتہائی جذباتی لگاﺅ
رکھتے ہیں ۔ ہم نہ ہوں ہمارے بعد ۔۔ الطاف الطاف ۔۔ اسی سوچ کی عکاسی کرتا
ہے کہ معاملہ جذبات کی انتہا سے بڑھ کر ہے ۔ گیند چیف جسٹس صاحب کی کورٹ
میں ہے۔عدلیہ کا وقار سب کو عزیز ہے لیکن ابھی پاکستان کے کوئی بھی ادارہ
اتنا مضبو ط نہیں ہوا کہ مستحکم بنیادوں پر چل سکے ، سب کو برداشت کی
پالیسی اور تحمل کے ساتھ آے بڑھنا ہوگا ۔ایم کیو ایم سمیت تما م سیاسی
جماعتوں کو ملک کے عظیم مفاد کے خاطر تحمل مزاجی سے فیصلے کرنا ہونگے ۔ خاص
طور پر ایم کیو ایم کو سوچنا ہوگا کہ ان کے کارکنان کے کسی جذباتی اقدام سے
انتخابات ملتوی کرانے کی کوشش تو کامیاب نہیں کرائی جا رہی ۔ پاکستان کا
ایک ایک شہری ، ایم کیو ایم کے ایک ایک عمل کو نہایت باریک بینی سے دیکھ
اور اپنے مستقبل کے حوالے سے سوچ بنا رہا ہے ۔ہمیں یقین ہے کہ ایم کیو ایم
اپنے قائد سے جذباتی لگاﺅ کے ساتھ ساتھ مملکت کو درپیش سنگین مسائل کا بھی
ادارک رکھتی ہوگی اور یہی توقع سپریم کورٹ سے بھی ہے ۔ |