ٹیٹو والے طالبان ،کیا ہم اب بھی نہیں سمجھے؟

پشاور ائر پورٹ پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد پاکستان کی سکیورٹی فورسزاور حساس اداروں کے ہاتھ لگنے والے ثبوتوں نے قوم اور پاکستان کی گورنمنٹ پر بہت کچھ واضع کر دیا ، جو پانچ حملہ آور مارے گے انکے جسموں پر شیطانی ٹیٹو کندہ ہیں اور کہا جاتا ہے کہ یہ ٹیٹو برطانیہ میں بنائے جاتے ہیں ، ماضی میں مہران ائر بیس حملہ ، واہ کینٹ حملہ اور پشاور اءپورٹ پر حملہ میں تقریبا ایک کی تکینک استعمال کی گئی ، اور تمام لوگ غیر ملکی تھے ، مگر ٹیٹو والے دہشت گردوں نے تو سب کو ہکا بکا کر کے رکھ دیا ، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کے خلاف عالمی قوتیں کیا کیا کھیل کھیل رہی ہیں ، مگر ہماری گورنمنٹ اور ادارے ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہے ، بہرحال ٹیٹو والے طالبان آنے کے بعد تو اب تقریبا یہ واضع ہو گیا ہے امریکہ برطانیہ سمیت دوسری عالمی قوتیں ہم سے ڈبل گیم کھیل رہی ہیں اور ہم ابھی تک کوئی واضع فیصلہ کرنے سے قاصر ہیں ، اگر کوئی مسلمان شخص انڈیا امریکہ برطانیہ میں کچھ غلط سوچ لے یا کچھ کرنے کی کوشش کرے تو یہ ممالک اسکا کیا حشر کرتے ہیں یہ سب کو پتہ ہے،واضع مثال ، ڈاکٹر عافیہ ہے امریکی فوجیوں پر گن تاننے کے نام نہاد الزام پر 86 سال قید ، اور ہمارے ملک ،میں پچھلے پانچ سال سے اتنے اتنے بڑے واقعات ہو گے ، مگر ہم کسی سے شکایت تو دور کی بات شکوہ بھی نہیں کرتے ، اگر ہماری جگہ انڈیا برطانیہ یا کسی اور ملک میں ٹیٹو والے طالبان حملہ آور ہوتے ، تو انکا میڈیا اور گورنمنٹ کیا کیا پروپگنڈا کرتے ، یہ سوچ کر ہی جسم کانپ جاتا ہے ، حملے کے بعد اگلی رات کو میں ٹی وی دیکھ رہا تھا ، کسی بڑے چینل نے اس پر پروگرام کرنا گوارا نہیں کیا ، اور کریں بھی کیوں ، اگر کریں گے تو یو ایس ایڈ کے کروڑوں کے اشتہار کہاں سے حاصل کریں گے ، ایک عام پاکستانی سمیت میرے ، ہم سب کچھ سمجھ رہے ہیں مگر پتہ نہیں حکمرانوں کو سمجھ کیوں نہیں آرہی ، انکے نہ سمجھنے کی جو وجہ ہم کو سمجھ آتی ہے ، وہ بھی سادہ سی ہے ، بھائی صاحب جب عالمی طاقتوں کے کندھوں پر بیٹھ کر حکمرانی ملے تو کون سے شکوے اور کس سے شکایت ، سمجھ تو ہم کو اس وقت جانا چاہیے تھا جب میمو سکینڈل سامنے آیا تھا ، مگر یہ کتنی ستم ظریفی ہے کہ مرکزی ملزم ایوان صدر میں براجمان رہا ، اور وہیں سے بغیر کسی روک ٹوک کے آپنے غیر ملکی آقاوں کے پاس جا پہنچا ، آج سپریم کورٹ انکو یاد فرما رہی ہے اور وہ مزے سے امریکہ میں موج مستی کر رہا ہے ، بہرحال بات ٹیٹو والوں کی ہو رہی تھی ، ایک بات کی سمجھ نہیں آرہی ، آخر ہم اتنے بے بس کیوں ہیں کہ ان ٹیٹو والے طالبان کے فنڈ نگ کرنے والوں کو ہم باضابطہ احتجاج بھی نہیں کر سکتے ، کیوں ان سے نہیں پوچھتے کہ بھائی ہمارا قصور کیا ہے ، دس سا ل دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ہم کو یہ انعام دے رہے ہو، اگر افغانسان میں تمھاری دال نہیں گل رہی تو ہمارا کیا قصور ہے ، ہم کو کیوں زمانے میں رسوا کر رہے ہو ، سوال تواور بھی بہت ہیں مگر سوال پوچھنے والا کوئی نظر نہیں آرہا ،  دسمبر 1971 میں بھی اسی طرح عالمی قوتیں پاکستان کے خلاف اکھٹی تھیں ، اور اس وقت انکا وار پاکستان کو دو ٹکڑے کر گیا ، اب پھر یہ عالمی قوتیں پاکستان کے خلاف اکھٹی ہو چکی ہیں ، اور حالات بتاتے ہیں کہ پاکستان کے ارباب اختیا ر ایک بار پھر 1971 کی طرح باری باری کے چکر میں پڑے ہوئے ہیں ، اور اپنی باری کے لیے ان عالمی قوتوں سے سرٹیفیکٹ لیتے پھر رہے ہیں، جو دراصل ماضی کی طرح ایک بار پھر پاکستان کے وجود کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں ، ایک طرف انہوں نے کراچی میں چکر چلا رکھے ہیں اور دوسری طرف بلوچستان کے خزانوں پر نظریں جما رکھی ہیں ، اور خیبر پختونخواہ میں تو گویا قیامت برپا ہے ، اور ہم انہی کے اتحادی اور دوست بھرنے کا دم بھرتے ہیں ۔ اور وہ ماضی کی طرح ہماری جڑیں کاٹتے جا رہے ہیں ،جڑیں کاٹنے کے لیے سی آئی اے اور اسکی زیلی شاخیں جن میں بلیک واٹر سب سے اہم ہے ، وہ پاکستان میں اپنے خفیہ کام جاری رکھے ہوے ہیں ، پاکستان کی فوج بلاشبہ بہت دباؤ میں ہے ، کیوں کہ سیاسی حکومت فوج کی پشت پر ہونی چاہیے ، مگر یہ سیاسی لوگ صرف باری کے چکر میں ہیں ۔ پاکستان جائے بھاڑ میں،پاکستان کی فکر ہے تو ہم عوام کو یا کچھ فوج کو ، کیوں کہ پاکستان پر حکومتیں کرنے والے حکمران تو پہلے ہی سب کچھ سمیٹ کر باہر بنکوں میں منتقل کر چکے ، اللہ کے بعد اس وقت تک فوج اس ملک کی عوام کی حمایت سے واحد حفاظت کرنے والی قوت کی ، رہی بات عوام کی تو بیچارے جائیں تو جائیں کہاں ،اور حکمران کی بے بسی دیکھیں ، ٹیٹو والے طالبان کی لاشیں ہمارے قبضہ میں ہیں، اور ہم ان نام نہاد عالمی طاقتوں سے یہ سوال بھی کرنے کی جسارت نہیں رکھتے کہ یہ کون ہیں ، کس ملک کے شہری ہیں ، انکے جسموں پر شیطانی ٹیٹو ہم کو کیا پیغام دے رہے ہیں ،انکو فنڈنگ کون کر رہا ہے ، اور فنڈنگ کرنے والوں کیا مقاصد ہیں ۔مگر یہ حکمران تو کم از کم یہ سوال کبھی نہیں پوچھیں گے ، کیوں یہ سوال پوچھنے پر ہو سکتا ہے یہ اپنی باری نہ لے سکیں ، مگر ان عقل کے اندھوں کو کون یہ سمجھائے ، کہ ملک ہو گا تو باریاں لو گے ، خدانخواستہ ملک نہ رہا تو تم میر جعفر اور میر صادق کی طرح اپنے آقاوں کوجتنی مرضی اپنی حمایت کو یقین دلاو، پستی اور بربادی تمھا را مقدر ہو گا ، اس جہاں میں بھی ، اور یقیناً اگلے جہاں میں بھی ،کیوں کہ بات کسی ایرے غیرے ملک نہیں پاکستان کی ہے ، جو اللہ کے نام پے وجود میں آنے والا واحد ملک ہے ، تم اگر اللہ کے نام پر وجود میں آنے والے ملک سے کھیلو گے ، تو کیا اللہ تم کو معاف کر دے گا ، کھایہ ہوا بھس بنا کر رکھ دے گا ، اور وہ بھی عجیب گھروں کے لیے -
Naveed Rasheed
About the Author: Naveed Rasheed Read More Articles by Naveed Rasheed: 25 Articles with 23870 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.