کہتے ہیں کہ الیکشن اور انتخابات
کے زمانے میں دوست دشمن کو پہچاننا انتہائی مشکل کام ہوتا ہے، پتا ہی نہیں
چل پاتا کہ کون کس خیمے اور کس پارٹی کا ہے، کل تک جو حزبِ مخالف میں ہوتا
ہے آج وہ دوسرے محاذ میں دکھائی دیتا ہے۔ آج جو اُس پارٹی کے گیت گا رہے
ہیں کل دوسری کے کھا کر گائے گا۔یہ تمام مشاہدات سیاسی لیڈروں پر ہی منحصر
نہیں ہے بلکہ ایسے لوگ بھی اس کی زد میں آجاتے ہیں جو عوام میں انتہائی
مقبول اور بھروسے مند ہوتے ہیں۔ اس تنازعے سے ہٹ کر دیکھا جائے تو پاکستان
میں اب بھی کئی پارٹیاں ایسی ہیں جس کے ممبر ٹَس سے مَس نہیں ہوتے شروع دن
سے ہی اپنی پارٹی کے خیر خواہ رہے ہیں جو سیاست کے لئے بہت ہی نیگ شگون ہے۔
مگر یہ تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ بڑی مچھلیاں تو ایسی ہیں کہ دریا کا
پانی خشک ہونے لگا تو سمندر میں غوطے لگانے چل پڑتے ہیں اور کبھی کبھی تو
سمندر کو چھوڑ کر جھیلوں کے سفر سے بھی باز نہیں آتے۔
تمہاری تہذیب اپنے ہاتھوں سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، نا پائیدار ہوگا
یہ الفاظ ادا کرتے وقت مجھے بھی دِقّت کا سامنا ہو رہا ہے مگر ہمارے مہذب
معاشرے میں یہ کھیل تو بالکل عام فہم ہے اگر اسی کو جمہوریت کہتے ہیں تو
ایسی جمہوریت سے ہم ترقی تو نہیں کر سکتے کیونکہ تبدیلی دل سے ہوتی ہے مفاد
پرستی سے نہیں ، ادھر بات نہیں بنی تو دوسرے کروٹ ہو گئے ، بڑا آسان سا
راستہ ڈھونڈھ نکالا ہے ہمارے رہبروں نے۔ ایسی صورت میں ہمارے عوام کے
آنکھوں سے آنسو رواں نہیں ہونگے تو اور کیا ہوگا ، اور حد تو یہ ہے کہ یہاں
کوئی آنسو پوچھنے والا بھی نہیں بیچاری عوام خود ہی اپنی انگلیوں سے آنسو
پونچھتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہماری سیاست بس اسی
ڈگر پر چل رہی ہے اور نہ جانے کب تک یہ سلسلہ جاری و ساری رہے گا۔
ہم سب بھی تاریخ کے دوراہے پر کھڑے ہیں۔ پورے ملک میں ہر جگہ احتجاج اور
مظاہروں کا سلسلہ جاری و ساری ہے، املاک کو نقصان پہنچایا جاتا ہے، جس سے
ہمارے یہاں کے حالات ابتر ہو گئے ہیں۔ ایسی صورتحال میں جمہوریت کا راگ
الاپنے والی مغربی دنیا بھی آج ہم پر ہنس رہی ہے۔ بدعنوانی کے ذریعے جو
عناصر مستفیض ہو رہے ہیں وہ تو کبھی نہیں چاہیں گے کہ حالات درست سمت میں
جائے بلکہ ان کا خاصہ ہی یہ رہا ہے کہ عوام انہی تمام مسئلوں میں گِھرے
رہیں اور ہم اپنا کام خاموشی سے چلاتے رہیں۔ تو کہنا یہ ہے کہ ایسی صورتحال
کو بھی سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔ ہمارے یہاں جانشینی کی سیاست عروج پر
ہے ۔ ملک کی تقریباً بڑی پارٹیوں میں جانشینی کا رجحان دیکھنے میں آ رہا
ہے۔ اور آئندہ الیکشن میں یہ سلسلہ عروج پر ہوگا۔ عوام کا حال تو آپ سب کے
سامنے ہی ہے ، آج کل براہِ راست میڈیا پر آپ دیکھتے ہیں کہ چاہے پارٹی ورکر
ہو یا عوام پارٹی کی دعوت میں کس طرح گتھم گتھا ہوتے ہیں۔ایسا کیوں ہوتا ہے
یہ سوچنے کیلئے کسی کے پاس وقت نہیں ، جبکہ ان کاروائیوں سے اچھی طرح علم
ہوتا ہے کہ غربت کی شرح کہاں جا رہی ہے۔اور غریب کس قدر پریشان حال ہیں۔
جمہوریت میں عام جن لوگوں کو منتخب کرکے اسمبلیوں میں اپنی بھلائی کیلئے
بھیجتے ہیں وہ وہاں پہنچ کر عوام سے ہی دھوکہ دہی کرتے نظر آتے ہیں جس کی
وجہ سے جمہوریت دھیرے دھیرے کمزور ہوتی جاتی ہے۔ آزاد عدلیہ ہمارے ملک میں
کام کر رہی ہے تو انہیں اس بات پر از خود نوٹس لینا چاہیئے تاکہ عوامی
نمائندے جن کو عوام نے ووٹ ظاہر ہے کہ اُس وقت کی پارٹی کی اہمیت کے پیشِ
نظردیا تھا تو انہوں نے اپنا مفاد دیکھتے ہوئے پٹری سے کیسے اُتر گئے۔ یہ
ایک سنگین مسئلہ ہے مگر ہمارے یہاں یہ رواج رہا ہے کہ جب تک مسئلہ بامِ
عروج پر نہ پہنچ جائے اس مسئلے کی طرف کوئی سنجیدگی سے آتا ہی نہیں ہے۔
ہمارے ملک کی اابادی کا نصف سے زیادہ حصہ غربت و مفلسی میں گزر بسر کر رہا
ہے مختلف قدرتی آفات، گرانی اور وسائل کی کمی کے باعث کئی صوبوں میں تو
صورتحال اس قدر تشویشناک ہے کہ لگ بُھک مَری سے دم توڑتے نظر آتے ہیں۔
لہٰذا آج ضرورت اس امر کی ہے کہ کہ قوم کو جو معاشی وسائل فراہم ہیں ان کا
پورا ذمہ داری اور بہتر ڈھنگ سے استعمال کیا جائے تاکہ عوام کے دکھ درد میں
ہی کمی نہ آئے ان کی اقتصادی حالت بھی بہتر ہو سکے اس سلسلے کا ایک اہم قدم
یہ ہوگا کہ کیا عوام اور کیا حکومت سب اپنی فضول خرچی پر قابو پائیں، اپنے
غیر ضروری مصارف کو محدود کریں ۔ مہیا وسائل کو زیادہ سے زیادہ ترقیاتی
منصوبوں پر صَرف کیا جائے ورنہ وہی ہوگا جو آج تک ہوتا رہا ہے کہ آزادی کے
بعد کی چھ دہائیوں میں ہوتا رہا ہے۔ واصف فاروقی صاحب کا یہ شعر ان تمام
مسائل کی ترجمانی کرتا ہوااور حل کیلئے سخت مزاجی بھی لیئے ہوئے ہیں۔
راہِ حق میں آیئے ایثار کرنا سیکھئے
ظلم پر صبر و رضا کا وار کرنا سیکھئے
خود بخود ظلم و تشدد سر نِگوں ہو جائے گا
ابنِ حیدر ؓ کی طرح انکار کرنا سیکھئے
فراخ دل جمہوریت کو اس طرح کام کرنا چاہیئے کہ جس سے عوام الناس خوش ہوں،
صرف کاغذی بازار لگانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ کیونکہ ہمارے یہاں رواج چل
نکلا ہے کہ غوطے لگاتے رہو اور عوام کو ہر پانچ برس بعد یاد کرنے کا جب وقت
آئے تو انہیں چند ترقیاتی اسکیموں کے ذریعے بہلا لیا جائے ، اور بس ! یہی
ہمارے یہاں زوروں پر ہے جس کی وجہ سے ہمارا پیارا وطن دوسرے ملکوں کی ترقی
کی نسبت خاصہ پیچھے ہے۔ ہمارے یہاں وہ سب کچھ ہو رہا ہے جو کسی بھی معاشرہ
کو کھوکھلا کرکے رکھ دیتا ہے اس لئے ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ موجودہ
حکومت ہو یا نئی آنے والی حکومت (ماضی کی حکومتوں کا ذکر یہاں پر بیکار ہے)
سماج کی اصلاح کے لئے مہم چلائے وہیں اپنے بے جا مصارف پر بھی قابو پائے
تاکہ حرص و ہوس کی اس دوڑ پر کسی حد تک روکا جا سکے ۔ اور نئی آنے والی
حکومت جو بھی ہو وہ اپنی اولین ترجیح میں یہ اِدھر سے اُدھر کی سیاسی آمد و
رفت پر کڑا پہرہ لگائے اور اس کے لئے ٹھوس اور واضح پالیسی مرتب کرے تاکہ
دنیا بھر میں ہماری واہ واہ ہو سکے۔ اور یہ اسی صورت ممکن ہو سکے گا کہ
سادگی اور معیارِ زندگی میں مساوات کو ملحوظ رکھا جائے، ہر سطح پر نمو د و
نمائش اور لالچ کا سلسلے کو اپنی گرفت میں لے لیا جائے۔ رئیسانہ طرزِ زندگی
کو خیر باد کہتے ہوئے سادہ زندگی اپنائی جائے۔ |