جس کو دیکھیں "نیا پاکستان "بنانے
کا اعلان کرتا نظر آتا ہے 1947ءکے پاکستان کی اساس پر لاتعداد مباحثوں کے
نہ رکھنے والے سلسلے اب تک جاری ہیں ۔ قائد اعظم کیسا پاکستان چاہتے تھے ؟
اس بات کا کوئی فیصلہ نہیں کرسکا۔ شائد یہی وجہ ہے کہ ہر کوئی "نیا پاکستان"
بناناچاہتا ہے ۔
محمد منیر (ریٹائرڈ ) چیف جسٹس آف پاکستان نے" پاکستان ٹائمز" 1964ءمیں ایک
مقالہ جس کا عنوان Days To remember کے آخر میں لکھا تھا کہ "تشکیل ِپاکستان
کے وقت کسی کے ذہن میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ پاکستان ایک اسلامی مملکت
ہوگی "۔ انھوں نے 1979ءمیں اپنی کتاب From Jinnah to Zia میں بھی اپنے
سابقہ خیال کو دوہرایا اس خیال پر بڑی لے دے ہوئی کہ یہ بات کہنا ایسا ہی
ہے کہ جیسے کل کوئی مورخ یہ لکھ دے کہ قائد اعظم لنگوٹ باندھ کر مسٹر
گاندھی کی پرارتھنا میں جایاکرتے تھے ،تو کوئی اُنکے لاتعداد دو قومی
نظرئےے والی تقاریر کو نظر انداز کرکے 11اگست تقریر کے اقتباس کو اساس
پاکستان سمجھتے ہیں۔سقو ط ڈھاکہ کے المیے پر مغربی پاکستان خاموش اور مشرقی
پاکستان کا بنگلہ دیش دو قومی نظریہ کی ناکامی پر جشن منانے کیساتھ دو قومی
نظرئےے کی پامالی پر معافی مانگنے کے بجائے الٹا پاکستان سے معافی مانگنے
کے مطالبے کو دوہرا رہا ہے جسکا احسن جواب بھارتی مصنفہ سرمیلا یوس نے اپنی
کتاب "ڈیڈ ریکوننگ ، میموریز آف دی 1971بنگلہ وار"میں اکہتر کی جنگ کے
حوالے سے پاکستانی افواج کیجانب سے تیس لاکھ افراد کی مشرقی پاکستان میں
ہلاکتوں کی سختی سے تردید کرتے ہوئے دیا کہ" نہ تو اس جنگ میں لاکھوں لوگ
مارے گئے تھے ، نہ ہی بے حرمتیوں کا تناسب بیان کےمطابق تھا اور نہ ہی یہ
کہ صرف پاکستانی فوجیوں نے کیا تھا سر میلا کےمطابق اکہترکی جنگ کے حوالے
سے جو دستاویزات دیکھنے کو ملیں وہ اتنی کمزور تھیں کہ ان کی بنیاد پر کوئی
دعوی کرنا کسی طرح دانشمندی نہیں۔ "
بھارتی مصنفہ کا یہ بھی ماننا ہے کہ" جیسور میں آزادی کے حامی بنگالیوں نے
مغربی پاکستانیوں کو مارا تھا "، وہ ایسے کئی واقعات کی مثالیں دیتی ہیں۔ان
کےمطابق "علیحدگی کے حامی بنگالی مغربی پاکستانی فوجیوں کونو یڈر یا در
انداز کہتے تھے جبکہ اس جنگ میں در انداز صرف ہندوستان تھا"۔ سرمیلا یوس نے
کافی عرصہ محنت کی، واقعے سے جڑے بنگالی ، پاکستانی ، بھارتی متاثرہ
خاندانوںسے ملاقاتیں کیں اسکے علاوہ خودبھارتی لیفٹینٹ جنرل اروڑہ بھی تیس
لاکھ افراد کے دعوی کو ناممکن قرار دے چکے تھے لیکن بنگلہ دیش دو قومی
نظرئےے کی پامالی پر شرمندگی کے بجائے دعوی کرتا ہے کہ نو ماہ کی جنگ کے
دوران پاکستانی فوج نے تیس لاکھ بنگالیوں کا قتل عام کیا ۔ اگر حقیقت
پسندانہ نظرسے بھی لمبی اور تلخ لڑائیوں پر نظر ڈالی جائے تو اس دعوے کی
قلعی کھل جاتی ہے۔ویت نام کی بارہ سالہ جنگ میں دس لاکھ ہلاکتیں ہوئیں یعنی
سالانہ 83ہزار بنتی ہے ۔الجیریا کی ساڑھے سات سالہ جنگ میں ایک لاکھ ،
کمبوڈیا کی 23سالہ جنگ میں گیارہ لاکھ ، افغانستان کی چودہ سالہ جنگ میں
بیس لاکھ ، بوسینا میں مسلمانوں کے تین سالہ قتل عام میں ایک لاکھ 42ہزار
افراد ہلاک ہوئے ۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ وےت نام میں امریکہ کیجانب
سے اٹیم بم کے علاوہ قریب قریب تمام مہلک ہتھیار استعمال کرڈالے لیکن بارہ
سال میں ہلاکتوں کی تعداد دس لاکھ کے قریب تھی۔
مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے اسباب اور وجوہات معلوم کرنے کےلئے تحقیقاتی
کمیشن بھی بیٹھے لیکن اب سب بے سود ہے کیونکہ بنگلہ دیش ایک حقیقت بن کر
دنیا کے نقشے پر موجود ہے ۔ دو قومی نظریہ کے جگر خراش المیہ پر شادیانے
بجاتے ہوئے بنگلہ دیش کے اُس وقت کے قائم مقام صدر نذر اسلام نے اعلان کیا
تھاکہ"ہماری یہ فتح نہ کسی فوج کی فتح ہے ، نہ کسی ملک کی ، یہ فتح ہے حق
کی باطل پر ۔ یہ فتح ہے ، ایک صحیح نظریہ کی غلط نظریہ پر ، تقسیم ہند سے
پہلے سر پھرے مسلمانوں نے یہ دعوی کیا کہ قومیت کا مدار مذہب کا شتراک ہے ،
وطن کا اشتراک نہیں اور حکومت کی بنیادمذہب پر ہے ، سیکولر نہیں ، وہاں ان
لوگوں کو لاکھ سمجھایا کہ یہ نظریہ غلط ہے اور ناممکن العمل ، اس پر اصرار
نہ کرو ، لیکن وہ نہ مانے اور غلط مفروضہ کی بنیاد پر ایک جداگانہ قوم بن
کر ایک الگ مملکت کے بانی بن گئے ، لیکن چوبیس سالہ تجربے نے ثابت کردیا کہ
جو نظریہ یہ لوگ پیش کر رہے تھے وہ باطل تھا اور حق وہی تھا جو ان کے
مخالفین پیش کررہے تھے۔سقوط ڈھاکہ نے اس حقیقت پر مہر تصدیق ثبت کردی ، اب
یہ شہادت تاریخ کے صفحات پر ہمیشہ کے لئے منقوش رہے گی۔"
نہ جانے دو قومی نظرئے کے پاکستان کو نہ ماننے والے بنگلہ دیش بننے کے
بعدبھارت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے اپنی پارلیمان میں"فتح بنگالہ"پر
خطاب پر کیا کہیں گے, جو کہہ رہی تھیںکہ "یہ کامیابی نہ ہماری فوجوں کی
کامیابی ہے اور نہ ہی حکومت کی کامیابی ، یہ کامیابی ہے ، حق پر مبنی نظریہ
کی ، اس نظریہ کےخلاف جو باطل پر مبنی تھا ، مسلمانوں نے تحریک پاکستان کی
بنیاد ایک باطل نظریہ پر رکھی تھی ۔ ہم انھیں بار بار سمجھاتے رہے کہ ان کا
نظریہ غلط ہے ، یہ کامیاب نہیں ہوسکتا ، انھوں نے نہیں مانا اور اپنی ضد پر
قائم رہے اب ۵۲ سال کے تجربہ نے بتا دیا کہ جو کچھ ہم کہتے تھے ، وہ حق تھا
اور ان کا نظریہ باطل ، یہ ان کے باطل نظریہ کی شکست ہے۔ "
دو قومی نظرئے کو ہم سے زیادہ پاکستان کے مخالفین سمجھتے تھے انھوں نے دو
قومی نظرئے پر جو تشریح کی اسکے بعد بھی ہم پاکستان کی اساس پرمشکوک ہیں کہ
قائداعظم کیسا پاکستان چاہتے تھے ؟ آج جو عناصر" نیا پاکستان" کا گیت الاپ
رہے ہیں یا تووہ محمد منیر کے خیالات کی ترجمانی کے زیر اثرہیں یا پھر خان
عبدالغفار خان نے 1973ءمیں "ٹائمز آف انڈیا "کے نمائندے دلیپ کمار مکر جی
کودئےے جانے والے انٹرویو"چند سال پہلے کا پاکستان اب مر چکا ہے ، مغربی
پاکستان میں چار قومیتوں کے درمیان رشتہ کےلئے اسلام کافی نہیں رہے گا اس
کےلئے سیکولر بنیادوں پر رشتے کی تعمیر کرنا ہوگی۔"پر نئے پاکستان کےلئے
کوشاں ہیں اگر ایسا ہے تو ہمیں اپنے دستور سے جمہوریہ کےساتھ"اسلامی" کا
نام ختم کرکے صرف جمہوریہ پاکستان رکھ لینا چاہیے کیونکہ پاکستان کو
جمہوریہ بنالو یا اسلامی، یہی وجہ ہے کہ آج بھی ماضی کی غلطیوں کو دوہرانے
سے باز نہیں آتے۔
ملکی یکجہتی کے بجائے صوبائیت کا جادو اپنے عروج پر ہے خیبر پختونخوا ،سندھ
سے کہا جاتا ہے کہ کالا باغ ڈیم چاہیے یا پاکستان؟ کیا پاکستان اسلئے وجود
میں آیا تھا کہ کوئی قتل ہو جائے تو" پاکستان نہ کھپے" انتظامی ،یا تکینکی
معاملات الجھے یابلوچستان کا معاملہ نہ سلجھے، تو کسی سنجیدہ حل کے بجائے
مملکت توڑ نے کی دہمکیاں دیں جائیں؟ کیا یہی حب الوطنی ہے ؟؟۔نئے پاکستان
بنانے کا مطلب تو یہی ہوا کہ موجودہ پاکستان دو قومی نظریہ والا پاکستان
نہیں ہے پرانا پاکستان تو دو قومی نظرئےے کی بنیادوں پر قائم ہوا تھا ۔وہ
قومی نظریہ بنگلہ دیش بننے کے بعد دریا بُرد ہوا ، باقی ماندہ کو بٰحیرہ
عرب میں ڈبونے سازش جاری ہے۔ کرم خوردہ پاکستان پر سر جوڑ کر ڈیڑھ اینٹ کے
نئے پاکستان کی سازش کو ناکام بنانے کےلئے صرف دو قومی نظریہ والے پاکستان
کو کامیاب بنانا ہوگا جو انتخابی نعروں ، دوہرے معیار کے بجائے صرف فکری
تبدیلی سے ہی ممکن ہوسکتاہے۔ |