حریت چیئرمین کا آزاد کشمیر کو” اچھے چال چلن “کا سرٹیفیکیٹ

حریت کانفرنس کے اعتدال پسند گروپ کے چیئرمین میر واعظ عمر فاروق کی سربراہی میںپاکستان کے سرکاری دورے پر ہیں۔ لاہور پہنچنے کے بعدوہ اسلام آباد سے ہوتے ہوئے مظفر آباد پہنچے ۔ آزاد کشمیر کے صدر اوروزیر اعظم نے ان کے اعزاز میںظہرانہ اور عشائیہ دیا ۔حریت رہنماﺅں نے میڈیکل کالج میں ایک تقریب سے خطاب کے علاوہ مظفر آباد میں قائم ایک مہاجر کیمپ کا دورہ بھی کیا۔صدر آزاد کشمیر کی تقریب میں حریت رہنماﺅں کو آزاد کشمیر کی تعمیر و ترقی کے بارے میں سیکرٹری پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ نے بریفنگ دی جس میں آزاد کشمیر کا 1947ءاور اب کی صورتحال کے تقابل کا طائرانہ جائزہ پیش کیا گیا۔ آزاد کشمیرحکومت نے اپوزیشن جماعتوں کے رہنماﺅں کو شرکت کی دعوت دی تھی لیکن مسلم لیگ(ن) اور جماعت اسلامی نے یہ کہتے ہوئے ظہرانے اور عشائیے کی آزادکشمیر حکومت کی تقریبات میں شرکت نہیں کی کہ حریت رہنماﺅں کے دورے کے حوالے سے ان کو اعتماد میں نہیں لیا گیا اور نہ ہی ان سے مشاورت کی گئی۔

حریت کانفرنس کے اپنے گروپ کے سربراہ میر واعظ عمر فاروق نے مظفر آباد میں صدر آزاد کشمیر کی طرف سے دیئے ظہرانے کی تقریب سے خطاب میں کہا کہ ” بیس کیمپ سے تحریک آزادی کشمیر کے تقاضے پورے کئے گئے ہیں،ہم مقبوضہ کشمیر میں محدود دائرے میں رہ کر اپنا جرات مندانہ کردار اد اکر رہے ہیں جبکہ ساری دنیا نے تسلیم کیا ہے کہ آزاد کشمیر کی حکومتوں،اپوزیشن جماعتوں اور عوام کی مسئلہ کشمیر کی حمایت اور اس کو اجاگر کرنے کی کاوشوں سے مطمئن ہیں“۔وزیر اعظم آزاد کشمیر نے ’جواب آں غزل‘ کے طور پر میر واعظ عمر فاروق کو اپنی کرسی پیش کرتے ہوئے اعلان کیا کہ تمام کشمیر کے لیڈر میر واعظ کی قیادت میں کام کرنے کو تیار ہیں۔مہاجر کیمپ کے دورے کے موقع پر مہاجرین نے شدید نعرے لگاتے ہوئے مطالبہ کیا کہ انہیں واپس بھیجا جائے۔وزیر اعظم سمیت کئی افراد نے مہاجرین کو خاموش کرانے کے لئے ان کی منتیں کیں اور بلال غنی لون کو بھی اس کام میں ان کی مدد کرنا پڑی۔

آزاد کشمیر کا خطہ تحریک آزادی کشمیر کے بیس کیمپ کے طور پر وجود میں آیالیکن گلگت بلتستان کے انتظام کے بعد مسئلہ کشمیر بھی وفاقی حکومت کے سپرد کرکے قبیلائی اور علاقائی ازم پر مبنی مفادات کی دوڑ میں یوں مشغول ہوا کہ اب آزاد کشمیر اپنے سیاسی حقوق کا رونا رو رہا ہے۔مہاجرین مقیم پاکستان کو نظر اندازکرنے کا کیا کہنا ، 1990ءکے مہاجرین بھی مسائل ،مشکلات اور غیر یقینی کی جس صورتحال سے دوچار رکھے گئے و ہی صورتحال کئی کشمیروں کی اپنے بیوی بچوں سمیت واپسی کی موجب ہے۔

یہ خط اور ٹیلی گرام کا نہیں بلکہ گلوبل ولج کا دور ہے جب دنیا میں کہیں بھی کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے، دنیا اس سے آگاہ ہو جاتی ہے۔اسی طرح سرینگر میں کوئی واقعہ ہو، تو ہو سکتا ہے کہ میر واعظ صاحب سے پہلے ہمیں یہاں بیٹھے اس کا علم ہو جائے۔اگر آزاد کشمیر کے بارے میں میر واعظ عمر فاروق کی معلومات کا یہ حال ہے تو اسے کشمیریوں کی ”بدنصیبی“ ہی قرار دیا جا سکتا ہے کہ کشمیریوں کے رہنما کی حیثیت سے دہلی ،اسلام آباد،واشنگٹن،لندن،برسلزسمیت دنیا بھر کے دورے کرنے والا آزاد کشمیر کی گراوٹ کے حالات و واقعات سے بے خبر ہے جبکہ یہاں ان کا ایک نمائندہ خصوصی بھی ہمہ وقت متعین ہے۔اگر آزاد کشمیر کی حکومتوں،لیڈروں نے تحریک آزادی کے لئے شاندار کردار ادا کیا ہے تو پھر ان حریت رہنما ﺅں کا کردار بھی روشن ستاروں کی مانند ہے جو آزاد کشمیر کی حکومتوں اور سیاسی جماعتوں کو ”اچھے چال چلن“ کے سرٹیفیکیٹ دے رہے ہیں۔اس صورت کشمیر کے عوام ہی بدبخت اور نامراد ہیں کہ وہ ایسے شاندار” ایوارڈ یافتہ“ لیڈروں کے ہوتے ہوئے ذلیل و خوار ہیں۔

بیچارے معصوم کشمیری ان کی ڈپلومیسی کے انداز سمجھنے سے قاصر ہیںلیکن ان کی ڈپلومیسی کے نتائج سہتے ہوئے محسوس ضرور کرتے ہیں۔میر واعظ صاحب کو اس بات کا احساس کرنا چاہئے کہ ان کی طرف سے ”شاندار کارکردگی“ کے سرٹیفیکیٹ دینے سے ان کشمیریوں پر کیا گزری ہے جو آزاد کشمیر کی انحطاط پزیری، گراوٹ میں اپنی مہاجرت کے ارمانوں،قربانیوں کا خون ہوتے دیکھتے چلے آ رہے ہیں،کئی قبروں میں اتر گئے اور کئی یہ تماشہ مسلسل دیکھتے رہنے پر مجبور ہیں۔اگر چیئرمین حریت کانفرنس آزاد کشمیر کی حکومتوں،سیاسی جماعتوں کے کردار سے مطمئن ہیں تو ہر باخبر کشمیری کو یہ کہنا پڑے گا کہ اعلی تعلیم اور تمام تر سیاسی و سفارتی گر سے واقف ہونے کے باوجود میر واعظ عمر فاروق صاحب کی کارکردگی باعث اطمینان نہیں ہے۔

” تو میری تعریف کر ،میں تیری“ کے مصداق وزیر اعظم آزاد کشمیر نے میر واعظ عمر فاروق کو تمام کشمیریوں کا قائد اعلی قرار دیتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کے حالات و واقعات سے اپنی لاعلمی کا ثبوت دیا ہے۔مجھے کشمیر کے باغوں میں کام کرنے والے ان پڑھ سے لیکربیوروکریٹ ،بزنس مین اور دوسرے شعبوں سے تعلق رکھنے والے کشمیریوں نے ایک بات کہی۔ان کے جملے مختلف تھے لیکن مفہوم ایک ہی تھا۔ان کا کہنا تھا کہ اگر سید علی شاہ گیلانی ہمیں کہے کہ اپنے بچوں کے سر کاٹ کر اپنے گھر کے باہر پھینک دو تو ہم ایسا ہی کریں گے۔وزیر اعظم آزاد کشمیر کو اپنی ذاتی رائے رکھنے کی آزادی ہے لیکن جب وہ تمام کشمیر کی قیادت میر واعظ عمر فاروق کو سونپنے کی کوشش کرتے ہیں تو ایسا ان کشمیریوں کی توہین محسوس ہوتی ہے جن کی جدوجہد ،قربانیوں اور عزم کی بدولت لیڈروں کی لیڈریاں قائم ہیں۔بدترین مظالم سہتے ہوئے عزم آزادی بلند رکھنے والے کشمیریو ں کے جزبات اور امنگوں سے ” بیس کیمپ“ کا وزیر اعظم لاعلم ہے۔کشمیریوں پر تو سید علی شاہ گیلانی کا راج ہے،وزیر اعظم آزاد کشمیر کس کی خواہشات کی تکمیل میں میر واعظ عمر فاروق کو قائد اعلی کا تاج پہنا رہے ہیں؟
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 777 Articles with 699288 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More