پاکستان کے مستقبل کی ٹارگٹ کلنگ

کراچی اور پشاور میں پولیو مہم کے کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ کے واقعات نے شہریوں کو کرب و خوف کی کیفیات سے دوچار کردیا ہے۔ دونوں شہروں کے مختلف علاقوں میں بیک وقت ہونے والے حملوں ، ان کے طریقہ کار اورا ہداف کے انتخاب سے واضح ہوتا ہے کہ ان کے پیچھے کس قدر منظم قوتیں کارفرما ہیں۔ ہم اکثر کراچی سے خیبر تک کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں اوراس سے مراد’ ’پاکستان بھر“ لی جاتی ہے۔ اس طرح دونوں شہروں میں ہونے والی اس ٹارگٹ کلنگ کے واقعات بعد جس میں تین خواتین سمیت نو افراد جاں بحق ہوئے ،پاکستان بھر میں پولیو کے خلاف مہم کو روکنا پڑا۔ گو کہ پنجاب اور سندھ کے پرامن علاقوں میں یہ مہم جاری رہی مگر محکمہ صحت کے کارکنان ، رضاکار اور بچوں کے والدین شدید خوف میں مبتلا رہے۔ اس طرح دفاعی تنصیبات ، معیشت، امن و امان اورجان و مال تباہ کرنے کے بعد اب دہشت گردوں نے ’بڑی کامیابی سے‘ پاکستان کے مستقبل پر وار کیا ہے کیونکہ پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں سے ہے جہاں پولیو کی بیماری موجود ہے اور وہ وبائی شکل اختیارکرسکتی ہے۔ اس حوالے سے عالمی ادارہ صحت نے گزشتہ کئی سال سے تواتر کے ساتھ پولیو کے خلاف مہم شروع کررکھی ہے اور کافی حد تک اس پر قابو پایا جاچکا ہے۔ اس مہم کے کارکنوں اور رضاکاروں کی ٹارگٹ کلنگ کے بعد یہ مہم شدید متاثر ہوگی ظاہر ہے جس کے اثرات ہمارے مستقبل کے اپاہج ہونے کی صورت میں ظاہر ہوں گے۔

9/11کے بعد پاکستان ، انسدادِ دہشت گردی کی جس جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی کی حیثیت سے شامل ہوا تھا، اب وہی جنگ اس کی سلامتی کے درپے ہوگئی ہے۔ امریکہ نے اس جنگ کا آغاز کرکے پاکستان کو بدامنی کی ایک نہ ختم ہونے والی آگ میں جھونک دیا ہے۔ افغانستان پر امریکی قبضے کے بعد القاعدہ اور طالبان کے خلاف جنگ نے پاکستان کے کونے کونے کو خون آلود کردیا ہے۔ اب تک پاکستان کے چالیس ہزار سے زائد شہری اور سیکورٹی اہلکار اس جنگ کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ اس جنگ میں امریکہ کی دوغلی اور غیر واضح پالیسی کا خمیازہ پاکستان کو بھگتنا پڑرہا ہے اور ایک عشرہ گزرنے کے باوجود دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ بدستور مبہم ہے اوراس کے خدوخال، اغراض و مقاصد اور اہداف کم از کم ہماری فہم و فراست سے بالاتر ہیں۔امریکہ بظاہر پاکستان کا اتحادی ہے مگر جس انداز سے وہ دہشت گردی کی جنگ کے مہروں کے ذریعے ہمارے گرد گھیرا تنگ کرتا جارہا ہے لگتا یہی ہے کہ پاکستان کی تباہی ہی اس کا اصل ہدف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان مختلف واقعات کو لے کر بہت سے اختلافات بھی سامنے آئے خاص طور پر سلالہ کا واقعہ اور ایبٹ آباد میں امریکی سیلز کے آپریشن کے بعد دونوں ممالک کے درمیان اختلافات شدت اختیار کرگئے ۔اسی طرح ریمنڈ ڈیوس جیسے جاسوسوں کی پاکستان میں موجودگی اور نورستان اور کنڑ میں پاکستان دشمن عناصر کو محفوظ پناگاہیں فراہم کرنے کے اقدامات نے امریکہ کے کردار کے حوالے سے بہت سے سوالیہ نشانات چھوڑے ہیں۔ افغانستان کے حوالے سے بھی پاکستان کے اختلافات کھل کرسامنے آئے۔ کرزئی کی کٹھ پتلی حکومت نے جب بھی موقع ملا پاکستان کو بدنام کرنے کا موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ بھارت کی ایماءپر کرزئی نے متعدد مواقع پر پاکستان کے خلاف نازیبا زبان استعمال کی۔ گزشتہ دنوں افغان انٹیلی جنس چیف پر ہونے والے حملے کا الزام بھی پاکستان پر دھرنے کی کوشش کی گئی۔

اسی طرح القاعدہ کی قیادت ابھی تک ایک ہوا ہے۔ اسامہ بن لادن کو جس ڈرامائی انداز میں ایبٹ آباد میں کھوج نکالا گیا اور پھر اسے ہلاک کرکے جس عجلت میں سمندر بدر کیا گیا ابھی تک دنیا کے لئے معمہ ہے۔ لوگ ابھی تک حیران ہیں کہ امریکہ نے اپنے انتہائی مطلوب شخص جس کے لئے اس نے لاکھوں افراد کو تباہ و برباد کرڈالا اوراربوں ڈالر خرچ کرکے دہشت گردی کی سب سے بڑی جنگ شروع کی، اس کی لاش کی ایک جھلک دنیا کو نہ دکھا سکا۔ اس آپریشن کے حوالے سے پوری دنیا ابھی تک شک وشبہ کا اظہار کررہی ہے ۔ اس آپریشن میں حصہ لینے والے امریکی سیلز، منصوبہ سازوں اور دیگر افراد کی افغانستان میں ہیلی کاپٹر کے” حادثے“ میں ہلاکت کے بعد تو اب پوری دنیا پر واضح ہوچکا ہے کہ ایبٹ آباد میں امریکی آپریشن محض ایک ڈرامہ اور امریکی ہیلی کاپٹرکی تباہی اس حوالے سے تمام ثبوت مٹانے کا اقدام تھا۔ اب جبکہ امریکہ افغانستان سے اپنا بوریا بستر گول کررہا ہے وہ چاہتا ہے کہ خطے کا کنڑول ان قوتوں کو سونپ جائے جو یہاں بدامنی کی آگ کو ہوا دیئے رکھیں۔ افغانستان میں بھارت کے کردار کو پہلے سے ہی شک کی نگاہوں سے دیکھا جارہا ہے۔ اسی طرح امریکہ کی طرف سے اب اچھے اور برے طالبان کی اصطلاح نے معاملات کو مزید الجھا دیا ہے اور سب سے بڑھ کر امریکی سی آئی اے اور اس کے اہلکاروں کی افغانستان اور پاکستان میں موجودگی اس طرف اشارہ کررہے ہیں کہ امریکہ کے باقاعدہ رخصت ہونے کے بعد بھی پاکستان اور افغانستان بدامنی کا گڑھ بنے رہیں گے ۔

ان حالات میں ہماری قیادت کوچاہئے کہ وہ ہوش مندی کا مظاہرہ کرے۔ سب سے پہلے تو حکومتی، سیاسی اور انتظامی سطح پر ملک کی حالت بہتر بنائی جائے۔ عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے جان ومال کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے پولیس ، سول خفیہ ایجنسیوں اور انتظامی اداروں کوجدید خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت ہے۔کیونکہ ہم اپنی صفوں کو مضبوط بنا کر ہی دشمن کی سازشوں کو ناکام بنا سکتے ہیں۔ دہشت گردی کے حوالے سے بھی اب واضح پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لئے سول اور عسکری اداروں میں ہم آہنگی اور معلومات کا تبادلہ کافی حد تک دشمنوں کے چہروں کی شناخت میں ممدو معاون ثابت ہوسکتا ہے۔ جہاں مذاکرات سے مسئلہ حل ہو وہاں دہشت گردوں کی نیک نیتی کو دیکھتے ہوئے مذاکرات کئے جائیں اور جہاں دہشت گردمحض اپنی صفوں کو درست کرنے اور اپنی مذموم کارروائیوں کے لئے مناسب وقت کے حصول کے لئے ایسا کرنے کی کوشش کریں ان سے مذاکرات کی بجائے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے۔ امریکہ کے ساتھ تعاون کے حوالے سے بھی پاکستان کو واضح پالیسی اخذ کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو چاہئے کہ اپنے مفادات کے تناظر میں امریکہ سے تعاون کرے اور جہاں پاکستان اور اس کے مفادات کو خطرے کا احتمال ہو وہاں امریکی ڈکٹیشن یا دباﺅ کو خاطر میں نہیں لانا چاہئے۔ فرقہ واریت، بدامنی اور ٹارگٹ کلنگ میں مختلف قوتیں ملوث ہیں جن میں ریمنڈ ڈیوس جیسے سی آئی اے کے جاسوسوں اور ”را“ کے تنخواہ یافتہ ایجنٹوں کے علاوہ کچھ سیاسی پارٹیوں کے عسکری ونگ بھی شامل ہیں۔ خاص طور پر کراچی میں بدامنی بعض سیاسی پارٹیوں کی رسہ کشی کا نتیجہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سرکاری ادارے ایسے عناصر کی نشاندہی کرکے انہیں بے نقاب کریں اور حکومت انہیں کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے تمام مفادات اور وابستگیوں کو بالائے طاق رکھے تو معاملات کافی حد تک سدھر سکتے ہیں۔

فی الوقت دہشت گردوں کا پلڑا بھاری ہے اور وہ کراچی سے خیبر تک پولیو مہم کورکوانے میں ”کامیاب“ ہوچکے ہیں جس سے یقینا ان کے حوصلے مزید بڑھیں گے اور ان کی نظریں اس سے بڑے اہداف پر ہونگی۔ یہ صورتحال ہم سب کے لئے لمحہ فکریا ہے۔خاص طور پر ہماری اشرافیہ اور ارباب بست کشاد کے لئے جو پانچ پانچ کروڑ کی گاڑی میں بیٹھ کر عوام کے مسائل کو بھول گئے اور اپنی کمزوریوں اور نااہلیوں کی بدولت ملک کو دہشت گردوں کے رحم وکرم پر چھوڑگئے۔ یہ لوگ اب بھی یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ عوام ان کی غفلت اور عیاشیوں کو فراموش کرکے آئندہ بھی ان کے ناز نخرے اٹھانے اور غیروں کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بن کر اپنے ذاتی مفادات بٹورنے کے لئے انہیں ووٹ دیں گے۔
Muhammad Amjad Ch
About the Author: Muhammad Amjad Ch Read More Articles by Muhammad Amjad Ch: 94 Articles with 63111 views Columnist/Journalist.. View More