آج میں جناب نذیر ناجی صاحب کا ایک کالم
پیش کرنا چاہتا ہوں اور میری نظر میں یہ ایک زبردست کالم ہے جس میں مختلف
زاویوں سے حالیہ بحرانوں کی طرف توجہ مبذول کروائی گئی ہے۔ نذیر ناجی راقم
ہیں
“ یہ ایسی جنگ تھی۔ جس میں دونوں جیت سے ڈر رہے تھے۔ اندرونی اور بیرونی
دوستوں نے سمجھا بجھا کر دونوں کو جیت سے بچا کر ایک ایسے نتیجے پر پہنچایا،
جس میں سب کامیاب رہے۔ میں نے ایک ٹیلیویژن انٹرویو میں کئی دن پہلے ایک
سوال کے جواب میں کہا تھا کہ “سب کامیاب ہوں گے۔“ اینکر پرسن نے حیرت سے
پوچھا “سب کیسے؟“ میں نے عرض کیا کہ کسی ایک فریق کی کامیابی تباہ کن ہوگی۔
اس لئے ایسا نتیجہ لازم ہے۔ جس میں سب کامیاب ہوں۔ نتیجہ نکل آیا۔ نواز
شریف اپنا مطالبہ منوا کر کامیاب ہوئے۔ صدر آصف زرداری پاکستان کو خانہ
جنگی اور تباہی سے بچا کر کامیاب رہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان اپنی کرسی حاصل
کرنے میں کامیاب رہے۔ جس قسم کے آرڈر سے وہ معزول ہوئے۔ اسی قسم کے آرڈر سے
بحال ہو گئے۔ پہلا اس لئے غلط تھا کہ خلاف گیا۔ دوسرا اس لئے قابل تعریف ہے
کہ حق میں آیا۔ چودھری اعتزاز احسن اس لئے کامیاب رہے کہ قومی تاریخ کی سب
سے کامیاب سیاسی مارکیٹنگ کا فخر انہیں حاصل ہوا۔ میڈیا اس لئے کامیاب ہوا
کہ صدر اور وزیراعظم کے بعد، چیف جسٹس آف پاکستان بھی اس کی طرف دیکھا کریں
گے۔ اس نے ایک چیف جسٹس کے انکار کو تقدس کا درجہ دے دیا اور دوسرے کے
انکار پر رسوائی کا رنگ چڑھا دیا۔ جتنے ہیرو تحریک چلانے والوں میں ابھرے۔
ان سے زیادہ ہیرو میڈیا نے اپنے لئے پیدا لر لئے۔ آگے چل کر میڈیا میڈ
میٹریل ہی پاکستان پر راج کرے گا۔
میں نے شروع میں لکھا کہ دونوں فریق جیت سے ڈر رہے تھے۔ صدر آصف زرداری کے
ڈر کی وجہ یہ تھی کہ وفاق پاکستان کو بچانا ان کی زمہ داری تھی۔ لیکن جیسے
جیسے اسلام آباد پر یلغار کا وقت قریب آرہا تھا۔ سندھ میں متوقع ردعمل کے
بھیانک خدوخال ابھرتے نظر آنے لگے تھے۔ سندھ کو وفاق کا بہت ہی ازیت ناک
تجربہ ہے۔ وہاں سے اسے ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی میت بھیجی
گئی۔ دوسرے وزیراعظم زوالفقار علی بھٹو کی میت بھیجی گئی اور پہلے خاتون
وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی کی میت بھیجی گئی۔ ہر میت پر کوئی نہ کوئی آگ
بجھانے والا موجود تھا۔ لیاقت علی خان کا دکھ بنگالی بھائیوں نے بانٹا۔
شہید ملت وہیں سے منتخب ہوئے تھے۔ بھٹو کے دکھ پر ان کی بیگم اور بیٹی نے
مرہم رکھا۔ بے نظیر شہید کے غم میں بھڑکتے شعلوں کو “پاکستان کھپے“ کہ کر
آصف زرداری نے ٹھنڈا کیا۔ مگر ان شعلوں کے جھلسائے ہوئے ریلوے اسٹیشن،
وفاقی عمارتیں، ٹرک، بسینں اور کنٹینر آج بھی جگہ جگہ پھیلے پڑے ہیں۔ بے
نظیر کی شہادت پر بہنے والے آنسو ابھی تک رکے نہیں ہیں۔ آصف زرداری کو زندہ
یا مردہ نکال کر پھینکا گیا تو ردعمل میں بھڑکنے والی آگ کے اندر، پہلی
تینوں شہادتوں کا ایندھن ہو گا اور بجھانے کے لئے کوئی نہیں۔ بلاول ابھی
چھوٹا ہے اور صدمہ بہت بڑا ہو گا۔ نتیجے میں کیا ہو سکتا ہے؟ اس کا اندازہ
الطاف حسین اور پیر مظہر الحق کے بیانات اور منجھے ہوئے سیاستدان مولانا
فضل الرحمن کے تبصرے سے کیا جاسکتا ہے۔ صدر آصف زرداری نے ایک بار پھر
“پاکستان کھپے“ کے عزم کو دہرایا۔ پسپائی ہی ان کی کامیابی ہے۔ وکلا نے چیف
جسٹس کو واپس ان کی کرسی پر بٹھا کر اپنا عہد پورا کیا۔ چیف آف آرمی اسٹاف
جنرل اشفاق پرویز کیانی نے ملک کی سالمیت اور تحطظ کا فرض جرات و دانش کے
امتزاج سے ادا کیا۔ امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنے اتحادی کو
کمزور ہونے سے بچایا۔ پاکستان میں سیاسی استحکام اس کی ضرورت ہے ۔ وہ چاہتا
ہے کہ اس ملک کی دونوں بڑی جماعتیں مل کر کام کریں۔ مگر دونوں بیک وقت
اقتدار میں کیسے رہ سکتی ہیں؟ پہلے بھی امریکہ نے زبردستی کر کے دونوں کو
اکھٹے کیا۔ ایک ہی کرسی پر بیٹھے دو افراد، زیادہ حصے پر قبضہ کرنا چاہیں
تو ایک کو اٹھنا یا گرنا پڑتا ہے۔ نواز لیگ جن دو کرسیوں پر بیٹھی۔ تنگ آکر
ان میں ایک سے اٹھ گئی اور دوسری سے سلمان تاثیر نے گرا دیا۔ چند ماہ کے
بعد کرسی کی چھینا جھپٹ تیز ہونے ہی والی تھی کہ امریکہ ایک بار پھر بیچ
میں آیا اور سیاسی استحکام کے ٹائر کو پنکچر لگانے میں کامیاب ہوا۔ لیکن یہ
پنکچر بہت کمزور ہے۔ زیادہ دن نہیں نکالے گا۔ اس پورے ڈرامے کے جس کردار کو
بھی دیکھیں۔ وہ کامیاب نظر آتا ہے۔ اطہر من اللہ، اٹل ارادے سے مشہور ہوئے،
طارق محمود اپنی سنجیدگی اور خوش گفتاری پر پسندیدہ ٹھرے، علی احمد کرد
کوئل کے گلے سے شیر کی دھاڑ نکال کر ہجوم کو حیرت زدہ کرتے رہے۔ حامد خان
نے تحریک کے اندر اپنی تحریک بھی جاری رکھی۔ اس تحریک کے کندھوں پر سوار ہو
کر “منجی کتھے ڈاہواں؟“ گروپ کے سیاستدان ایک بار پھر زمیں پر آکھڑے ہوئے
ہیں اور اپنی منجی اٹھائے پھر سے وہ جگہ ڈھونڈ رہے ہیں جہاں یہ اپنی سیاست
کی چارپائی رکھیں۔ اللہ سب کا وارث ہے۔ پاکستان بہت زرخیز ہے، یہاں ہر وقت
نئے سے نئے فتنے اٹھتے رہتے ہیں۔ “منجی کتھے ڈاہواں گروپ“ کو مایوس ہونے کی
ضرورت نہیں۔ جلد ہی پی سی او ججوں کو نکالنے کی تحریک شروع ہونے والی ہے۔
اپنی پنی مرضی کا جج ڈھونڈ کر اس کے خلاف نعرے لگائیں۔ کامیابی سب کے قدم
چومے گی۔ جج کافی ہیں۔ ہر لیڈر اور ہر جماعت ایک جج کو ہدت بنا کر اس کی
بطرفی پر اپنی چھاپ لگا سکتی ہے اور تحریک کی کامیابی پر دعویٰ کر سکتہی ہے
کہ جج کو نکلوانے کا کارنامہ اس کا ہے۔
ٹی وی چینلز اتنے ہو گئے ہیں کہ دانشور پورے نہیں پڑتے۔ ایک ایک اینکر کو
اپنے شو کے لئے روز تین تین چار چار دانشوروں کی ضرورت پڑتی ہے۔ قلت کے
نتیجے میں بڑے بڑے تماشے ہوتے ہیں۔ عییدالاضحیٰ پر آپ نے دیکھا ہو گا کہ
مرغی کاٹنے والے قصائی، بکرے اور گائے زبح کرنے نک کھڑے ہوتے ہیں اور جب
کھال اتارنے کا وقت آتا ہے ان کی بے بسی دیکھنے والی ہوتی ہے۔ درجنوں ٹی وی
چینلوں پر درجنوں ٹاک شوز کا پیٹ بھرنے کے لئے، مرغیوں کے ماہر دانشوروں کا
بھی دائ لگ رہا ہے۔ میں بھی انہی میں ہوں۔ ایک شرارتی اینکر نے کہا “ایک ہی
دن دو بڑے واقعات ہوئے، چیف جسٹس کی بحالی اور مختاراں مائی کی شادی“ میں
نے کہا فکر مند نہ ہوں۔ آپ لوگ جلد ہی کوئی نئی مختاراں مائی ڈھونڈ لیں گے۔ |