معروض پاکستان کی جانب اگر نظر
دوڑائی جائے تو ہمیں مولانا شوکت علی جوہر، مولانا محمد علی جوہر، سرسید
احمد خان کی شخصیات کے وہ پہلو سامنے آجاتے ہیں جنھوں نے برصغیر پاک و ہند
کے مسلمانوں میں علم و شعور کو بیدار کرنے کیلئے اپنی تمام تر کوششیں صرف
کردی تھیں گو کہ اُس وقت کے نام نہاد دینی ملاﺅں نے شدید مخالفت کا بازار
گرم کردیا تھا لیکن یہ لوگ سیسہ پلائی دیوار کی طرح اللہ اور اس کے حبیب کی
رضا کیلئے اس قوم کو تعلیم و شعور سے بہرہ مند کرنا چاہتے تھے وقت اور
تاریخ نے بتایا کہ ان کی مسلسل نیک نیتی اور صحیح خطوط پر کام کرنے سے منزل
حاصل ہو جاتی ہے۔ سرسید احمد خان نے بھانپ لیا تھا کہ ان انگریز سامراج کے
جانے کے بعد اگر قوم کو دنیا میں اپنا مقام بنانا ہے تو اُسے بہتر تعلیم
اور اعلیٰ شعور سے مامور ہونا پڑیگا تاکہ بعد کی نسلیں شعور کے فقدان کی
بناءپر پھر پستی و غلامی کا شکار نہ ہوجائیں ۔ویسے بھی علم و شعور کیلئے
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی مقدس کتاب قرآن الحکیم الفرقان المجید میں بار
ہا بار امت محمدی کو علم و شعور کو حکم فرمایا خود نبی پاک صلی اللہ علیہ
وآلہ وبارک وسلم نے تعلیم کے حصول کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے اور حکم فرمایا
کہ تعلیم حاصل کیلئے کیلئے دور دراز کا سفر کرنے کیلئے بھی اجتناب نہ کرو!
سرسید احمد خان نے بھارت کے شہر علی گڑھ میں مسلم یونیورسٹی کا قیام کیا ۔
اس درسگاہ سے لاکھوں مسلم نوجوان اور بچے تعلیم کے زیور سے مستفیض ہوئے۔
سرسید احمد خان نے علی گڈھ مسلم یونیورسٹی کو اس طرح ڈیزائن کیا تھا کہ
کہیں بھی معمولی کی اعلیٰ ترین تعلیم میں کمی نہ رہ جائے یاد رہے تحریک
پاکستان میں سب سے زیادہ اس ہی یونیورسٹی کے طالبعلموں نے دوران تعلیم گاﺅں
گاﺅں ، شہر شہر قائد اعظم محمد علی جناح کی سرپرستی میں تحریک پاکستان کو
پروان چڑھایا۔ سیاسی و سماجی شعور مولانا شوکت علی جوہر اور مولانا محمد
علی جوہر نے اس قوم میں پیدا کیا ۔ در حقیقت تحریک پاکستان اُس وقت سے ہی
شروع ہوگئی تھی جب انگریزوں نے مغلیہ بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی سلطنت پر
قبضہ کرلیا تھا ۔ تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ انگلینڈ نے برصغیر کو سونے کی
چڑیا سمجھتے ہوئے اس کے تمام قیمتی ذرات سمیٹ لیئے باقی ایسا سلسلہ پیدا
کیا کہ ہمیشہ کیلئے اپنے کارندے بٹھا کر اس خطے کی دولت سمیٹتے رہیں گے۔ جب
تقسیم کا وقت آیا تو اسی انگیز نے ہندوﺅں سے مل کر ایسے اشو پیدا کیئے کہ
جو نہ تو پاکستان کو کبھی بھی مستحکم ہونے کا سبب بنیں گے اور نہ ہی بھارت
کیلئے ۔ اکثریتی مسلم خطوں میں اتر پردیش سب سے زیادہ تصور کیا جاتا تھا
لیکن پاکستان کو بیابان ، ریگستان، پہاڑوں پر مشتمل حصہ دیا۔ اللہ کی نعمت
کو سمجھتے ہوئے صبر سے کام لیا اور اسے قبول کیا یہ جان کر کہ ان خطوں میں
ایک اللہ اور ایک رسول ﷺ کی اطباءکی جائیگی اور ایسا وطن عزیز بنایا جائیگا
کہ جس مین بھائی چارہ، محبت، اخوت کا عنصر پیوست ہوگا الحمد للہ سب سے
زیادہ سندھ کے لوگوں نے خوش آمد کیا جبکہ دیگر علاقوں میں اس قدر پزیرائی
نہ ملی بحرحال پاکستان بن گیا ۔پاکستان دو حصوں پر مشتمل تھا ایک مغربی
پاکستان جس میں ہم رہ رہے ہیں دوسرا مشرقی پاکستان جو اب بنگلہ دیش کے نام
سے دنیا میں موجود ہے ۔ پاکستان دو لخت کیسے ہوا؟ یہ ایک الگ مفصل بحث ہے
لیکن یہاں اس بات کو قطعی رد نہیں کیا جاسکتا ہے جب بھی کسی کا استحصال
ہوگا انجام ہمیشہ منفی ہی برآمد ہوگا۔ مانا کہ پاکستان کا پہلا آئین انیس
سو چھپن میں بنا لیکن پاکستان کے وجود کی اساس اور کیفیت و حقیقت اسلامی
نظام ہی تھا کیونکہ دو قومی نظریہ ہی مسلم اور ہندوتھا ۔ قائد اعظم محمد
علی جناح اپنی تقاریر میں بار ہا بار فرماتے تھے کہ اس خطے میں دو بڑی
قومیں ہیں ایک ہندو مذہب پر دوسری دین اسلام پر ۔ ہم پاکستان اس لیئے چاہتے
ہیں کہ وہاں ہم آزادی کے ساتھ دین اسلام کے اصولوں اور قانون کو نافذ
کرسکیں مخالفین اس بات کو ہدف کرکے قائد اعظم محمد علی جناح کی شخصیت پر
نقسان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں مگر یہ بھول گئے کہ قائد اعظم محمد علی
جناح کے کارکنانوں کی اولادیں ابھی زندہ ہیں وہ کبھی بھی قائد اعظم محمد
علی جناح اور شہدائے تحریک پاکستان کی جانثاری کو برباد نہیں ہونے دیں گے
اس سے پہلے دشمنان پاکستان کو نیست و نابود کردیں گے۔ اسلام نے سیاسی نظام
دیا ہے لیکن پاکستان میں نظر نہیں آتا اس کی سب سے بڑی وجہ قائد اعظم محمد
علی جناح کا جلد انتقال ہوا ہے اگر اللہ تبارک و تعالیٰ قائد اعظم محمد علی
جناح کو پانچ سال مزید عطا کردیتا تو پاکستان دنیا میں آج امتیاز نظر آتا ۔
قائد اعظم محمد علی جناح جانتے تھے کہ دنیا میں سب سے اعلیٰ ترین سیاسی
نظام صرف اسلام نے دیا ہے جسے اپنانے سے کامیابیاں قدموں کو چومیں گی۔
اسلام کے سیاسی نظام کو تین اصولوں پر دیکھا جاتا ہے یعنی توحید (خدا کی
وحدانیت)، رسالت(نبوت) اور خلافت (خلافت) پر مبنی ہے۔ یہ مکمل طور پر ان
تین اصولوں کو سمجھنے کے بغیر اسلامی کی پالیسی کے مختلف پہلوؤں کی تعریف
مشکل ہے۔(وحدانیت) توحید کا مطلب ہے کہ ایک اکیلے خدا اس کائنات کا اور جو
کچھ اس میں موجود ہے خالق پروردگار ہے۔اسلامی ریاست کی خود مختاری صرف اللہ
ہی کو زیب ہے۔ وہ واحد کمانڈ ہےاور تمام حق ،عبادات و اطاعت اسی اکیلے ہے۔
اکیلا خدا، خداہی ہے اور اس کے احکام اسلام کے قانون ہیںاور بنی پاک اللہ
تبارک و تعالیٰ کے آخری رسول و نبی ہیں اور آپ کی سنت کی تکمیل ہی اسلامی
سیاسی نظام کا جذ ہے درحقیقت نبی کریم ﷺ نے ہی سیاست کا اصل ڈھنگ سیکھایا
ہے ، آپ ﷺ نے کفار و مشرقین سے جس طرح مصلحتاً معاہدے کیئے اور سچ و حق کا
بلند رکھا آج بھی صحیح سیاست کی اساس بنائ۔آپ ﷺ نے قرآن سے ریاست کا ڈھنگ
سیکھایا ہے ۔آپ ﷺ نے اللہ کے احکامات سے قانون کے نفاذ اور ضروری تفصیلات
فراہم کیں اور ایک اسلامی ریاست کے نظام کا ایک ماڈل قائم کیااسی لیئے اسے
اسلامی اصطلاحات کے مطابق، "شریعت" بھی کہا جاتا ہے۔ انسان کا وجود ایک خاص
مقصد ہے، اس مقصد کو حاصل کرنا ہی انسان زندگی ہے یہ مقصد بھی اللہ کے حکم
سے نبی کریم ﷺ نے نبی نوع انسان کو بتایا۔اللہ نے اپنی مقدس کتاب قرآن میں
فرمایا"دیکھو، تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا: میں نے زمین پر ایک نائب پیدا
کرے گا "(2:30 قرآن) ۔ یہ زمین انسان کیلئے بنائی گئی جس میں وہ اللہ کے
عطا کردہ وسائل اور توانائی کی تلاش، اللہ کے اس کے وسائل کی مکمل استعمال
کرنے کے اور اس پر زندگی کی ترقی کے مقصد کی تکمیل کے تحت زندگی بسر کرے۔
مختصرسیاست و ریاست کو اللہ کے قانون کے ساتھ ہم آہنگی میںرکھے۔ قرآن واضح
طور پر کہا گیا ہے کہ ریاست کا مقصد اور مقصد قیام، بحالی اور ان فضائل کی
ترقی، اور اس کائنات کا خالق کے احکام کے تحت رعایا کی زندگی کو سہل بنایا
جائے اور ریاست کو قرآنی احکامات کے تحت آراستہ رکھا جائے اور معاشرتی
برائیوں کا خاتمہ ریاست کے قانون اور حاکم کی ذمہ داری ہے ۔ سیاسی نظام صرف
انتظامیہ کے لئے نہیں بلکہ اس کے ذریعے لوگوں کی کسی بھی اجتماعی ضروریات
کا حصول فراہم کرنا بھی لازم ہے اسی لیئے ریاست سے پہلے اسلام اور اس کے
قوانین ہیں ۔اسلامی ریاست کا اصل جزعوامی فلاح و بہبود کے پروگرام کی
منصوبہ بندی ہے۔ لہذا اسلامی ریاست کے لئے ایک اقوام کی تبدیلی، پالیسی
انصاف، سچائی اور ایمانداری اس کی سیاست کی بنیاد ہے۔ کسی بھی حالات کے تحت،
کسی بھی سیاسی، انتظامی یا قومی مصلحت کی خاطر کے لئے دھوکہ دہی، باطل، اور
ناانصافی برداشت نہیں چاہے وہ حکمرانوں کے باہمی تعلقات، ریاست، یا دوسری
ریاستوں کے ساتھ ریاست کے تعلقات کے اندر اندر حکومت، مقدم ہمیشہ سچ مواد
پر غور کے دوران، ایمانداری اور انصاف ہونا چاہئے۔اگرچہ زمین کے کسی بھی
حصے میں ایک اسلامی ریاست قائم کیا جا سکتا ہے، اسلام اپنی ریاست کی
جغرافیائی حدود میں انسانی حقوق یا مراعات کو محدود کرنے کی اجازت نہیں
دیتا ۔ اسلامی ریاست میں انسانی خون ہرصورت میں مقدس ہے ، عورتوں، بچوں،
بوڑھے لوگ، بیمار افراد یا زخمی ظلم جائز نہیں ہے۔ عورت کی عزت اور عفت
تمام حالات میں احترام کے قابل ہیں۔ بھوکا شخص کو کھلانا اور ننگے کولباس
پہنانااور زخمی کو طبی علاج فراہم کرنا اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے ۔حکومت
اورانتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ ایک اسلامی ریاست میں ایک امیر (رہنما یا
سربراہ) جو روایتی جمہوری ریاست میں صدر یا وزیر اعظم کو برابر قرار دیا
جائے۔ ایک امیر کے انتخاب کے لئے بنیادی اہلیت ہے کہ وہ اللہ کے قوانین پر
پورا اترتا ہو یعنی اخلاقی کریڈٹ تقویٰ اور اخلاقی معیار پر پورا اترتا
ہو۔یہ حقیقت ہے کہ پاکستان ایک مکمل اسلامی ریاست کیلئے معروض وجود میں آیا
تھا ورنہ بھارت میں رہنے والے مسلم کسی طور پر کم نہ تھے ، مال و اسباب کی
فروانی تھی ، عزت و مرتبات تھے، کاروبار و صنعت تھیں ۔یہ سب اس لیئے قربان
کیا کہ اللہ اور اس کے حبیب ﷺ کے قانون کے تحت ایک ایسی ریاست بنائیں گے جو
مدینہ شریف کی یاد تازہ کردے گی یہ جذبہ اور نیت پاکستان کے وجود کیئے رنگ
تو لے آئیں مگر صد افسوس آزادی حاصل کرنے والی مقامی قوموں نے اللہ کی اس
نعمت کو سمجھا ہی نہیں، اسی لیئے آج پریشانی و غم میں مبتلا ہیں گر اب بھی
باز نہ آئے تو مزید مصبیت کا شکار نہ ہوجائیں ۔ اب وقت ہے نظام کو بدلنے کا
کہ وہ پاکستان بنائیں جس کیلئے لاکھوں جانوں کا نذرانہ پیش کیا گیا تھا اور
منافقوں ، ظالموں ، لٹیروں، نفرت پھیلانے والے لیڈروں، قوم پرستوں، مورثی
ٹھیکداروں کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے رد کردیں اور نئی نسل کی بہاروں کو آگے
لائیں ۔ اُن نوجوانوں کو جو عزم رکھتے ہیں ایک قوم بنانے کا، اُن نوجوانوں
کو جو محبت، پیار ، اخوت، یقین، محکم اور انصاف پر یقین رکھتے ہیں، اُن
نوجوانوں کو آگے بڑھانا ہے جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کو اپنا ایمان
سمجھیں جن میں انتہا پسندی نہ ہو ، جو اعتدال کے ساتھ اہلیت کو اہمیت دیں ،
جو خوف خدا کے عادی ہوں، جو موجود نظام کی پرگندگی کو صاف کرسکیں۔ سب کو
پاکستان زندہ باد اور اسلام زندہ باد کا عادی بنادیں تاکہ سب ملکر اس وطن
عزیز کی تعمیر و ترقی کیلئے نئی روشنی کے ساتھ ابھریں ۔ دیکھئے اپنے اطراف
ایسے نوجوانوں کو اور آگے لایئے اس وطن عزیز کی ریاست کی باگ دوڑ سنبھالنے
کیلئے اس سے پہلے انتخابات کے نظام میں نادرا کے ساتھ ڈیٹا منسلک کرائیں کہ
ووٹنگ کے وقت ووٹر انگوٹھے کا اسکینگ بھی لازمی کرے تاکہ عوام نئے پڑھے
لکھے نوجوانوں کو منتخب کرسکے جب تک الیکشن کے نظام میں اسکینگ رائج نہ کی
جائیگی اُس وقت تک ہر گز نا ممکن ہے شفاف الیکشن ہونا۔ ہر اُس پاکستانی کی
ذمہ داری بنتی ہے جو پاکستان اور اسلام کو خیر خواہ ہے وہ سپریم کورٹ اور
الیکشن کمشنر اسلام آباد میں خطوط در خطوط بھیجیں کہ ہمیں نظام کی تبدیلی
کیلئے پہلے الیکشن کے نظام میں انگوٹھے کا اسکینگ لازم قرار دیں ۔ اس سے
نتیجہ یہ نکلے گا کہ سیاسی پاڑتیوں کی اجارہ داری مانند پڑجائیگی اور ہر
انتخابات میں عوام اپنے نمائندے بھی تبدیل کرسکیں گے ممکن ہے اس اسکینگ
نظام سے وطن عزیز کیلئے بہت زیادہ مثبت نتائج برآمد ہوں انشاءاللہ۔۔۔!!
پاکستان زندہ باد ، پاکستان پائندہ باد |