سوال یہ ہے کہ آخر پولیو کے قطرے
پینے سے انکار میں ایسی شدت کیوں؟ پہلے صرف قطرے پینے سے انکار کیا جاتا
تھا اور اب تو تشدد کی انتہا ہے کہ بندوق اٹھا کر گولیاں ماری جار ہی
ہیں،پولیو کی مہم سے جو بھی منسلک ہے، چاہے وہ اہلکار ہوں یا کارکن یا صرف
رضا کار، وہ کہتے ہیں کہ پہلے بھی پولیو کی ویکسین کو مسلمانوں کے خلاف
سازش قرار دیا جاتا رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ لوگوں میں یہ غلط تاثر اس
انکشاف کے بعد زیادہ پھیلا کہ اسامہ بن لادن کو پکڑنے کے لیے امریکی خفیہ
ادارے سی آئی اے نے پاکستانی ڈاکٹر شکیل آفریدی کو پولیو کی جعلی مہم چلانے
کو کہا تھا،پاکستان میں سازشی نظریہ یا کنسپیریسی تھیوری کے پھیلانے والوں
کی کوئی کمی نہیں ہے۔ جب بھی بلوچستان یا کراچی میں تشدد کے واقعات ہوتے
ہیں تو غیر ملکی عناصر کو ذمے دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ یہ بات
حکومتی وزراءبھی کہتے ہیں کہ آنے والے چند دنوں میں ملک میں جاری
کارروائیوں میں ملوث بیرونی ہاتھ کو بے نقاب کیا جائے گا مگر وہ دن کبھی
نہیں آتا،پشاور میں ایک شخص نے پولیو ٹیم کو کہا کہ آپ چار بار ہمارے گھر
آئے ہیں، اور ہم نے منع کیا ہے، آپ ہمارے پیچھے کیوں پڑے ہیں؟اس کا جواب تو
شاید یہ ہونا چاہیے کہ یہ ہمارا کام ہے لیکن کیونکہ اس گھر سے ٹیموں پر
پتھراؤ بھی ہوتا رہا ہے،پولیو کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ پاکستانی بچوں
میں دیگر جان لیوا بیماریاں بھی پائی جاتی ہیں تو مغرب اور حکومتِ پاکستان
صرف اسی پر زور کیوں دے رہے ہیں؟گذشتہ سال جب یہ بات منظرِ عام پر آئی کہ
دنیا میں پولیو کے سب سے زیادہ کیس پاکستان میں پائے گئے ہیں، تو قابو پانے
کے لیے حکومت اور مالی امداد فراہم کرنے والی غیر ملکی ایجنسیوں نے اس پر
ہنگامی بنیاد پر لائحہِ عمل تیار کیا۔ دارالحکومت میں پولیو سیل قائم کیا
گیا۔ ٹیلی فون اور ریڈیو پر اشتہارات نشر کیے گیے۔ صدر آصف علی زرداری کی
بیٹی آصفہ کو پولیو مہم کی سفیر مقرر کیا گیا۔ اور مہم کو ہنگامی بنیادوں
پر چلایا گیا،پولیو کی مہم سے جو بھی منسلک ہے، اس سال اب تک چار قومی اور
چار علاقائی مہمات چلائی گئیں، جن کے علاوہ چھوٹے پیمانے پر آگاہی کی
سرگرمیاں بھی جاری رہیں۔ خاص کر صوبہ خیبر پختونخوا میں مقامی انتظامیہ نے
کئی ماہ تک مذاکرات کے بعد علما کو مہم میں شریک کیا مگر اس کے اثرات سے
علما ءبھی محفوظ نہیں ہیں کیونکہ ایک عالم دین کو تو پولیو کے خلاف مہم کے
حق میں فتویٰ دینے کے بعد دھمکیاں بھی موصول ہوئیں،ایک طرف ایسا لگتا ہے کہ
اس سال کیونکہ پولیو کے کیسز میں ستر فیصد کمی آئی ہے اس لیے مہم کامیاب
ہوئی ہے۔ تاہم اگر ایک طرف پولیو پر قابو پایا جا رہا ہے تو دوسری جانب مہم
کے خلاف شدید ردِ عمل پر کیسے قابو پایا جائے گا،ایک بات یہاں قابل غور ہے
کہ ان تمام خطرات کے باوجود پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں یہ مہم
جاری ہے،کیا یہاں جو اینٹی پولیو قطرے پلائے جارہے بقیہ سے مختلف ہیں؟
دوسری جانب دہشتگردی کی روک تھام کےلئے پنجاب حکومت اور دیگر صوبوں کی
حکومتوں کا جائزہ لیا جائے تو صورتحال بالکل واضع نظر آئےگی،یہاں خطرات سے
بلا خوف وزیراعلٰی اکثر عوام کے درمیان پائے جاتے ہیں،جہاں کوئی ناخوشگوار
واقعہ پیش آتا ہے سب سے پہلے پہنچ جاتے ہیں،جبکہ سندھ، خیبر پختونخواہ
اوربلوچستان کے وزراءاعلٰی اور ان کے ماتحت اپنے دفاتر تک محدود ہیں اور
وہیں سے مذمتی بیانات جاری کرتے رہتے ہیں،حکومتی ناکامی کی سب سے بڑی یہی
وجہ ہوتی ہے،یہ بات بلا تامل کہی جاسکتی ہے کہ ہمارے دشمن زیادہ اور دوست
کم ہیں اور پاکستان میں بدامنی پھیلانے میں انہی کا کردار ہے لیکن ہمارے
بھائی اس کام کےلئے کم اور دشمن کی افرادی قوت زیادہ استعمال ہو رہی ہے،اب
تو ،،ٹیٹو والے طالبان،، اکثر جگہوں سے پکڑے جارہے ہیں،کراچی میں تو اب
متحدہ کے طالبان بھی کارروائیاں کرتے نظر آتے ہیں،صوبائی حکومتیں بلیم گیم
میں بھی ایک دوسرے پر میدان مارنے کےلئے کوشاں نظر آتی ہیں،ایم کیو
ایم،پیپلز پارٹی،ق لیگ،اے این پی اور دیگر حکومتی عناصر اگر بیان بازی چھوڑ
کر کام کرنا شروع کردیں تو میرا نہیں خیال کہ دہشگردی باقی رہ جائےگی،جب تک
ہم دہشتگرد عناصر کی سرپرستی کرتے رہیں گے تب تک نہ حالات سدھریں گے اور نہ
ہی یہ ملک امن کا گہوارہ بن سکے گا،سانپ کبھی بھی ،،سانپ سانپ،، کہنے سے
نہیں مرے گا،علاج ڈنڈہ ہے- |