جمہوریت کی بڑی بڑی علمبرار
ریاستوں نے اپنی عوام کو بنیادی حقوق فراہم کرنے بلند بانگ دعوے کرتی نظر
آتی ہیں ہے لیکن ان کا اپنا طرز عمل اس قدر متضاد ہوتا ہے کہ انسانیت بھی
شرماجائے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ بھارت کیجانب سے صرف کشمیر میں انسانی
حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے ایک ہوش ربا رپورٹ منظر پر آئی ہے لیکن جو
جمہوریت اور انسانی حقوق کے چیمپیئن بننے کے دعوے کرتے ہیں انھیں انسانی
حقوق کی اس بھیانک خلاف ورزیوں پر کوئی ایکشن لینے میں شرمندگی محسوس ہوتی
ہے۔ریاست جموں و کشمیر میں سرگرم انسانی حقوق کی دو سرکردہ تنظیموں ایسو سی
ایشن آف پیرنٹ آف ڈس اپیرڈ پرسنس(اے پی ڈی پی) اور انٹر نیشنل پیپلز
ٹربیونل آن ہیومن رائٹس اینڈ جسٹس(آئی پی ٹی کے) نے گزشتہ22برسوں کے دوران
ریاست میں پولیس، فوج اور نیم فوجی دستوں کے ذریعہ کی جانے والی انسانی
حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے متعلق اپنی نوعیت کی پہلی مفصل رپورٹ پچھلے
ہفتہ جاری کی ہے۔جس میں فوج،پولیس اور نیم فوجی دستوں کے پانچ سو افسروں
اور اہلکاروں پر جنگی جرائم کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔رپورٹ میں بتایا
گیا ہے کہ فرضی جھڑپوں، حراست کے دوران اموات اور جنسی زیادتیوں کے
214معاملات میں مبینہ طور پر 335فوجی اہلکاروں، 123نیم فوجی اہلکاروں،
111مقامی پولیس اہلکاروں اور فوجی اداروں سے وابستہ31سابقہ عسکریت پسندوں
کو ملوث پایا گیا ہے۔رپورٹ میں1990سے سال2011تک سرکاری فورسز کی طرف سے
مبینہ طور پر انجام دئے گئے 469انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے واقعات جن
میں 124ہلاکتوں 65گمشدگیوں59تشدد اور 9عصمت ریزی کے کیسوں کا احاطہ کیا گیا
ہے۔رپورٹ میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ 1990میں ریاست میں مسلح جدوجہد شروع
ہونے کے بعد پولیس، فورسز اور فوج کے اہلکارو افسران کے ہاتھوں بڑے پیمانے
پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں سرزد ہوئیں۔ جن میں عصمت دری، قتل، اغوا اور
گرفتاری کے بعد قتل کرنے کے واقعات بھی شامل ہیں۔ رپورٹ کے مرتبین میں سے
ایک ہیومن رائٹس وکیل مسٹر کارتک ماروکتلا کا کہنا ہے:"ہندوستان کی اولین
ترجیح انصاف فراہم کرنا نہیں ہے بلکہ کشمیر پر اپنے کنٹرول کو برقرار رکھنا
ہے"۔ کچھ ایسی طرح کی صورتحال امریکہ اور مغربی ممالک کیجانب سے جنگجو
مہمات میں کھلی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاںہیں ۔ جنگی جنون میں مبتلا
امریکہ ایشا سمیت دنیا کے 135ممالک کے800سے زائداہم مقامات میں موجود اور
فوجی اڈوں کے ساتھ موجود ہے۔امریکی محکمہ دفاع کی ویب سائٹ کے مطابق امریکن
آرمی ،نیوی ، میرین ، ائیر فورس اور کوسٹ گارڈ پر مشتمل افواج کساتھ 800سے
زائد مقامات پر موجود گذشتہ برس صرف عراق میں 85ہزار سے زائد امریکی فوجی
اہلکار موجود تھے ۔ افغانستان میں ایک لاکھ 37ہزار سے زائد ، جرمنی میں
52ہزار ، برطانیہ میں نو ہزار ، پاکستان میں صرف 146 سال کے اختتام تک
78ہزار امریکی فوجی یورپ میں سودےت یونین میں 150،، مشرقی ایشا کے کے مختلف
ممالک میں 48ہزار، جنوبی اور مشرقی افریقہ کے مختلف ممالک میں1400، شمالی
افریقہ میںساڑھے تین ہزار, افریقی صحارہ کے علاقوں میں 2000کے قرئب امریکی
اہلکار موجود تھے۔.امریکہ کا جنگی بجٹ پوری دنیا کے دفاعی اخراجات کا
43فیصد ہے ، امریکہ کا سالانہ جنگی بجٹ698ارب ڈالر ہے گذشتہ دنوںامریکی
ریاست کینکٹیکٹ کے پرائمری اسکول میں بچوں سمیت کم ازکم 27افراد ہلاک
کردئے۔مرنے والوں میں اٹھارہ بچے بھی شامل ہیں۔جب کہ اس قبل امریکی ریاست
کولو رزڈو کے شہر آرورا کے ایک سنیما گھر میں جیز ہومز نامی شخص جو ہومز
یونیورسٹی آف کولو رزڈو ڈینور میں زیر تعلیم پی ایچ ڈی کر رہا ہے اس "طالب
"نے فائرنگ میں بارہ افراد ہلاک کر دئے گئے ۔امریکی تعلیمی اداروں میں
فائرنگ کا یہ رجحان 2008ءمیں متواتر ہوا۔جب شکاگو سے پینسٹھ میل دور ڈی
کالب میں واقع شمالی الینوائے یونیورسٹی میں اس وقت پیش آیا جب طلبا ءپر
ایک مسلح سفید فام شخص نے ایک لیکچر تھیٹر پر فائرنگ کردی۔ایک ہفتے کے
دوران امریکہ کے تعلیمی اداروں میں متواتر فائرنگ کے واقعتا ہوئے ریاست
لوئز پانا میں ایک "طالبہ" نے اپنے دو ساتھی طالب علموں کو گولی مار کر
ہلاک کردیا ، جمعے کے بعد پیر کے دن میمفس میں ایک سترہ سالہ "طالب" لڑکے
پر ایک پندرہ سالہ لڑکے کو گولی مار نے کا الزام لگا پھر منگل کو کیلفورنیا
میں ایک جو نیئر ہائی اسکول میں پندرہ سالہ بچے کو گولی مار دی گئی
تھی۔1996 سے اب تک امریکہ کے سکولوں میں فائرنگ کرنے والے زیادہ تر اسکولوں
کے پرنسپل اور دیگر طالب علم بھی مارے گئے ۔فروری کے مہینے میں ریاست
اوہاٹیو کے اسکول میں سترہ سالہ "طالب " ٹی جے لین کی فائرنگ سے تین طالب
علم ہلاک ہوئے۔امریکی اسکوں میں سیاہ فام اور لاطینی نسلی پس منظر کے حامل
طلبہ و طالبات سے نسلی امتیاز برتا جاتا ہے اور اس کی جڑیں خاصی گہری ہیں ،
امریکی اسکولوں میں سفید فام" طالب علموں" کی نسبت سیاہ فام اور لاطینی نسل
کے" طلبہ" کو نکالے جانے کا امکان زیادہ ہوتا ہے ۔ امریکی تعلیم کے شہری
حقوق کے دفتر کیجانب سے جاری ہونے والی رپورٹ میں کہ گیا ہے کہ اس امر کے
امکان ( سفید فام طلبہ کی نسبت ) کہیں کم ہیں کہ ان طلبہ کو کالج کے
امتحانات کےلئے تیاری کے کورسز تک رسائی ہو ، رپورٹ کےمطابق یہ نتائج
72ہزار اسکولوں سے حاصل کئے گئے۔جبکہ امریکہ کے علاوہ فرانس کے شہر تولوز
میں یہودیوں کے ایک اسکول پر اندھا دھند فائرنگ سے چار افراد ہلاک اور دو
زخمی ہوئے جو کہ تین طالب علم اور ایک استاد تھا ۔جبکہ ایسی طرح کا ایک
واقعہ جنوبی جرمن کے علاقے نسٹٹ گارٹ کے نزدیک قصبے وبنین بن کے ایک اسکول
البیرول کے اندر ، اسی اسکول کے سابق 25سالہ" طالب" نے اندھادھند فائرنگ کی
جس میں آٹھ طالب علم ہلاک ہوئے۔یہ اُس امریکہ کا حال ہے جو پوری دنیا میں
انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا مرتکب ہورہا ہے ۔ امریکہ کا تعلیمی نظام
جتنا جدید کیوں ہی نہ ہو لیکن پر تشدد رجحان میں اضافہ دیگر ممالک کےلئے
جانب دارانہ اور غیر منصفانہ پالیسیاں ہیں ۔اس کا اظہار روس کی وزارت خارجہ
کے ایلچی برائے انسانی حقوق و جمہوری امور کونستانتین دولگو نے اپنے ایک
بیان میں کہا کہ امریکہ دےگر ممالک میں انسانی حقوق سے متعلق جائزہ لیتے
ہوئے دوہری پالیسی پر گامزن ہے ۔ موصوف نے یاد دہانی کرائی کہ ماہ اکتوبر
کے آخر میں غیر ملکی فوجیوں کے ایک گروپ نے صوبہ وردک میں واقع "سویڈیشن
کمیٹی فار افغانستان" نامی طبی مرکز پر حملہ کیا تھا ایسی طرح یورپ کی
سلامتی اوراقتصادی تعاون کی تنظیم نے کہا ہے کہ امریکہ اپنے شہریوں کےساتھ
انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتی ہے ۔ اس رپورٹ میں نیو یارک ، شکاگو ، اور
آکلینڈ سمیت امریکہ کے مختلف شہروں میں وال اسٹریٹ پر قبضہ کرو تحریک اور
دیگر تحریکوں کے مظاہرین کےخلاف امریکی پولیس کے روئےے کو تنقید کا نشانہ
بنا یا گیا ۔اسی طرح اسلامی جمہوریہ ایران کی عدلیہ کی انسانی حقوق کی اعلی
کونسل نے اعلان کیا کہ مغربی ممالک بالخصوص امریکہ دنیا میں بڑے پیمانے پر
انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا ارتکاب کر رہے ہیں لہذا وہ انسانی حقوق کی
علبرداری کی اہلیت نہیں رکھتے۔ جمعےت وفاق اسلامی بحرین نے مسلسل
انسانیحقوق کیخلاف ورزی پر مغربی ممالک پر سخت تنقید کی ہے ۔جمعےت وفاق
اسلامی کے رکن جلال فیروز نے بحرین میں آل خلیفہ کی شاہی حکومت کیجانب سے
انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزی پر امریکہ اور برطانیہ کو قصور وار قرار
دیا ہے ۔ پاکستان میں امریکہ کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی داستان
کاذکربہت طویل ہوجائے گا۔ ڈرون حملے اور ملکی نظم و نسق میں امریکی مداخلت
سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر پاکستانی قوم سراپا احتجاج ہے۔ لیکن
انھوں نے اپنی خامیوں کو دور کرنے کے بجائے ایک سازش رچی ۔ایمنسٹی انٹر
نیشنل کیجانب سے پاکستان کے شمال مغربی علاقوں میں فوجی آپریشن پر پاکستانی
فوج کو ہدف بناکر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرنا قابل مذمت
ہے ۔اسوقت جب فوج کاماضی کے مقابلے میں مورال بلند اور عوام کااعتماد بحال
ہورہا ہے ۔ پاک فوج پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر مبنی ایمنسٹی انٹرنیشنل
کیجانب سے ایسی رپورٹ کا آنا باعث تشویش ہے اور اس میں کسی بین الاقوامی
سازش کی بو آتی ہے۔یقینی طور پرسوچی سمجھی سازش کے تحت فوج کو نت نئے مسائل
میں الجھا کر ملکی سرحدیں کمزور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن پہلی بار
عسکری قیادت نے پاکستان میں جمہوریت کی بقا کےلئے کردار ادا کیا ہے وہ
مثالی ہے ۔ جس کی پاکستانی قوم قدر کرتی ہوئے تمام سازشوں کو ناکام بنانے
میں پاک فوج کیساتھ ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ سچ پر مبنی نہیں ہے
بلکہ ایک بین الاقوامی اور سوچی سمجھی سازش ہے۔ |