ہمارا ملک ہر نسل کے جانوروں
اورپرندوںسے بھرا پڑا ہے۔ لیکن ہم سب کی خوش قسمتی ہے کہ وطن عزیز میں
فنکارانہ صلاحیتوں کے حامل سیاست دانوں کی بھی کمی نہیں ہے۔ یہ ہی وجہ ہے
کہ اس قسم کے چند سیاست دان ملک سے باہر رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایسا نہیں
ہے کہ ان کو ملک اور یہاں کے لوگوں سے محبت نہیں ۔ وہ تو اس قدر ہم سب سے
ایسا پیار کرتے ہیں کہ شائد وہ اپنے رشتے داروں سے بھی نہیں کرتے۔خود ساختہ
جلاوطن ہوکر اسی کو اپناملک بنانے والی ایک سیاسی شخصیت نے قوم کی محبت میں
اپنی بیوی کو طلاق دیدی۔یہ صاحب خود تو پاکستان واپس آنے کے لیئے ہمیشہ
تیاررہتے ہیںلیکن ان کے چاہنے والے ساتھی اور کارکن کہتے ہیں ۔۔۔نہیں نہیں
آپ مت آئیں۔۔۔آپ ہماری منزل ہے منزل اتنی آسانی سے خود آجائے یہ منزل کی
توہین ہے۔۔۔۔۔اور پھر ہم کس کے لیئے جدجہد کریں گے؟
ابھی چندروز قبل طاہرالقادری پورے پانچ سال گذارنے کے بعد کینیڈا سے واپس
آئے ۔ یہ اپنے آپ کو شیخ الاسلام کہلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ان کا کہنا
بھی یہ ہی ہے کہ” میں اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا“۔ مگر ہماری آنکھوں کا
دھوکہ تھا یا کچھ اور کہ ہزاروں یا لاکھوں کے ہجوم میں ایک وہ ہی تھے جو ڈر
کر اپنے آپ کو ایک شیشے میں بند کیئے ہوئے تھے۔جس سے یہ تاثر مل رہا تھا
اور کچھ لوگ دبے الفاظ میں کہہ رہے تھے کہ ” ڈرپوک“ ہے مولوی۔
یہ صاحب کونسا جملہ کس طرح اور کب ادا کرنا ہے یہ بخوبی جانتے ہیں ۔کہا
جاتا ہے کہ ان کی سیاسی تربیت میاں نواز شریف کی رائے ونڈ والی اتفاق مسجد
میں ہوئی ہے جہاں وہ جمعہ کی نماز کے خطبہ اور وعظ دینے جایا کرتے تھے۔اس
دوران وہ میاں فیملی سے خاموشی سے سیاست کی الف ب سیکھتے رہے ۔1990میں
پاکستان عوامی تحریک قائم کی .2002میں قومی اسمبلی ممبر منتخب ہوئے اور
نومبر2004میںاسمبلی سے مستعفی ہوگئے۔اس دوران پاکستان عوامی تحریک نے تحریک
منہاج القرآن پر غالب ہوگئی جو غیر سیاسی، غیر فرقہ ورانہ اور غیر سرکاری
ہے۔ان دنوں تحریک منہاج القرآن کے اور اس کے سربراہ طاہرالقادری کے چرچے
ہیں۔
ڈاکٹر طاہر اپنی تقریر سے زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں ۔اپنی تقریر کو وہ اذان
سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں ۔لاہور میں مینار ِپاکستان کے سائے میں ہونے والے
جلسے سے خطاب کے دوران عصر کی اذان شروع ہوئی تو خاموش ہونے کے بجائے اللہ
اکبر کی صداﺅں کے دوران اپنی باتیں جاری رکھی۔ حدیث ہے کہ جو اذان کے دوران
باتیں کرتا ہے اسے مرتے وقت کلمہ نصیب نہیں ہوتا۔
طاہرالقادری صاحب تو خود شیخ الحدیث ہیں یہ ہی وجہ ہوسکتی ہے کہ کسی نے بھی
ان کو اذان کا احترام یاد نہیں دلایا۔شیخ کے معنی اردو لغت میںبوڑھا، پیر
مرشد، فائق اور پیشوا ہے۔بہرحال مذکورہ شیخ صاحب نے اذانِ کے دوران یہ بھی
بتایا کہ میں نماز پڑھ کر آرہا ہوں ۔ لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ
بھی پڑھ چکے ہیں یا ہونگے۔ انتہائی فنکارانہ انداز میں انہوں نے کہا کہ ”
کلام “ ہورہا ہے اس لیئے جاری رہنا چاہئے۔۔۔۔۔۔پتا نہیںانہوں نے لگے ہاتھوں
یہ فتویٰ دیا تھا یا کچھ اور۔۔۔۔۔ویسے ہمارے ملک میں لوگ گولیاں دینے کے
بھی ماہر ہیں۔
بہرحال جلسہ بڑا تھااور اگر بڑا جلسہ ہوجانا کامیابی کی دلیل ہے تو یہ
کامیاب بھی تھا۔کامیاب کیسے نہیں ہوتا متحدہ کی بھی حاضری تھی۔۔۔۔۔جلسے کے
دوران پتا نہیں کیوں یہ بھی وضاحت کی گئی کہ متحدہ کے قائد الطاف حسین کے
حکم پر پورے پچاس افراد کا وفد خصوصی طور پر جلسے میں شرکت کے لیئے یہاں
پہنچا ہے۔
تحریک منہاج القرآن کے اس جلسے کی کامیابی پر پاکستان تحریک انصاف کے عمران
خان اور متحدہ کے الطاف حسین نے بھی طاہرالقادری کو مبارکباد دی۔ویسے یہ
اتفاق ہے یا کچھ اور کہ عمران خان کے کراچی کے جلسے کو جس طرح فل کور کیا
گیا تھا باالکل اسی طرح طاہرالقادری کی پوری تقریر کو چینلز نے براہ راست
نشر کیا۔یہ بھی اہم بات ہے کہ عمران خان کی طرح قادری صاحب نے بھی یہ وضاحت
کی کہ ” اسٹبلشمنٹ سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے“۔ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ
ان پر ایجنسی یا اسٹبلشمنٹ کا آدمی ہونے کا الزام کس نے لگایا تھا ؟۔۔۔اور
اس کی ضرورت کیوں پڑی تھی ؟
ذہن پر زور ڈالا جائے تو یہ بات واضع ہوجاتی ہے کہ الطاف حسین، عمران خان
اورطاہرالقادری کا کسی نہ کسی طرح کینیڈا یا اس کی پشت پناہی کرنے والے ملک
سے ہے۔شائد یہ وہ نکتہ ہے جس کے باعث بھائی اور خان صاحب کی طرف سے محبتوں
کا اظہار کھل کر کیا جارہا ہے۔
مولانا طاہر جب حکومت کوتین ہفتوں کی مہلت دیتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ ” اگر
حکومت نے انتخابی نظام آئین اور قانون کے مطابق نہیں بنایا تو“۔۔۔۔۔۔۔۔کسی
مسخرے کی زبان سے نکلا کہ میں واپس کینیڈا چلاجاﺅں گا۔
خیر ہم کو ن ہوتے ہیں یہ بات بولنے والے؟ لیکن چونکہ سیاست میں سب جائز ہے
تو یہ ممکن بھی ہوسکتا ہے۔آنے والے دنوں میں پتا چلے گا کیا ہوتا ہے؟
میرے ایک دوست ہیں عبدالقوی جو سرکاری ملازم ہیں مجھ سے سوال کررہے تھے کہ
” اتنے سارے لوگوں کو یہ کیسے اکھٹا کرلیتے ہیں؟“۔میں نے جواب دیا کہ یار
کراچی میں رہتے ہوئے بھی یہ پوچھ رہے ہو کہ کس طرح لوگوں کو اکھٹا کیا جاتا
ہے؟۔
خیر بات کرتے ہیں طاہرالقادری کی ،اطلاعات کے مطابق یہ صاحب بھی دوہری
شہریت کے حامل ہیں۔ دوہری شہریت رکھنے والوں کاایک بڑا ایشو یہ بھی ہے کہ ”
کس طرح دوہری شہریت اور پاکستان کی سیاست ایک ساتھ چلائی جائے ؟“۔دیکھنا ہے
کہ یہ پرکشش نکتہ کس کس کو ایک دوسرے کے قریب کرتا ہے ؟۔ |