پاکستان میں بجلی کے بحران کو
کئی سال گزر گئے مگر کسی حکومت نے اس پر سنجیدگی سے کام نہیں کیا۔جب بھی
کسی پارٹی نے اپنی سیاست کو چمکانے کے لیے احتجاج کیا یا کسی تاجر برادری
نے احتجاجی دھرنے دئیے، حکومت نے سوائے اس کے کہ فوری طور پر ہنگامی اجلاس
بلایا، میڈیا میں دو چار باتیں کیں اور بس اس کے علاوہ کچھ نہیں کیا،
لاکھوں روپے لگا کر ہنگامی اجلاس بلایاجاتا ہے اور نتیجہ میں دو چار دن
بجلی ٹھیک ہو جاتی ہے اس کے بعد پھر وہی روٹین۔بجلی کی کمی کو پوری کرنے کے
لیے کوشش کی بھی گئی تووہ بھی بے سود ، عوام کے دئیے ہوئے مینڈیٹ کی دھجیاں
اڑائی جارہی ہیں ،یہ سب اس لئے کیا جارہا ہے تاکہ عوام آئندہ سے کسی کوبھی
اعتمادکا ووٹ نہ دے سکے،عوام کے اعتماد کیساتھ اس طرح سے کھیلا جائے کہ
عوام اس قدر بے حال ہوجائے کہ اپنی آنے والی نسلوں کوبھی منع کردے کہ کبھی
بھی پیپلزپارٹی کوہمدردی اور اعتماد کا ووٹ نہ دینا،حکمرانوں عوام کے صبر
سے مت کھیلو ۔ایسا نہ ہوکہ عوام کے صبر کا پیمانہ لبریزہوجائے اور عوام
تمہارے محلوں پر قبضہ کرلیں،حضرت عمرفاروق ؓ کی بیوی (عاتکہ)کہتی ہیں کہ
عمرؓ بسترپرسونے کے لیٹتے تھے تونیندہی اڑجاتی تھی،بیٹھ کررونا شروع کردیتے
تھے،میں پوچھتی تھی ،اے امیرالمومنین ،کیا ہوا؟وہ کہتے تھے مجھے محمدﷺ کی
امت کی خلافت ملی ہوئی ہے،اور ان میں مسکین بھی ہیں،ضعیف بھی ہیں،یتیم بھی
ہیں،مظلوم بھی ہیں،مجھے ڈرلگتا ہے کہ اﷲ تعالی ٰ مجھ سے ان سب کے بارے میں
سوال کرینگے،مجھ سے جوکوتاہی ہوئی تومیں اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کوکیا جواب
دونگا،سیدنا عمرؓ کہتے تھے اﷲ کی قسم اگردجلہ کے دور دراز علاقے میں بھی
کسی خچر کوراہ چلتے ٹھوکر لگ گئی تومجھے ڈرلگتا ہے،کہیں اﷲ تعالیٰ مجھ سے
یہ سوال نہ کردیں،اے عمرؓ تونے وہ راستہ ٹھیک کیوں نہیں کروایا تھا،یہ تھے
خلیفہ حجرت عمر فاروق ؓ جنہیں اپنی رعایا کا اس قدر خیال تھا اور ایک ہیں
ہمارے حکمران جن پر نہ توعوام کی بدعائیں اثرکرتی ہیں،اور نہ ہی ان
حکمرانوں کو اﷲ کے غیث وغضب کا ڈر ہے،عوام حکمرانوں کوجھولیاں اٹھا اٹھا کر
بدعائیں دیتے ہیں لیکن سب بے اثر،ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا، کیا کبوتر بلی
کو دیکھ کر آنکھیں بند کرے تو وہ چھپ جاتا ہے؟ہماری حکومت بس یہی کر رہی ہے
مگر کبوتر چھپا نہیں بلکہ اس نے اپنے لیے بہت سے خطرات پیدا کئے ہوئے ہیں ۔کاروباری
لحاظ سے جو نقصان ہو رہا ہے ۔وہ تو ہو ہی رہا ہے جو کہ سب کو نظر بھی آتا
ہے۔مگر معزز قارئین آپکی توجہ ایسی طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں جو ہماری
قوم کو دیمک کی طرح کھا رہی ہے اور ہمارے حکمران خواب خرگوش کے مزے لے رہے
ہیں ۔بجلی کے اس بحران میں مہنگائی کا جن بوتل سے باہر آ کر کھلم کھلا
لوگوں کے ذہنوں پر اثر انداز ہو رہا ہے، بجلی نہ ہونے کی وجہ سے کاروباری
حلقوں میں جہاں دس لوگ کام کرتے تھے وہاں پانچ لوگ کام کر رہے ہیں، جو پانچ
لوگ کام سے فارغ ہو گئے انہوں نے اخراجات کہاں سے پورے کرنے ہیں ۔بچوں کی
فیسیں کہاں سے ادا کرنی ہیں،بجلی جو آتی نہیں اس کے بھاری بھر بل کہاں سے
ادا کرنے ہیں،ڈاکٹرکی دواؤں کے پیسے کہاں سے دینے ہیں، اس قدر بے روزگاری
ہوچکی ہے کہ اب نوکری تو جلدی ملے گی نہیں کیوں کہ لوڈشیڈنگ کی وجہ سے
فیکٹریاں،کارخانے توبندپڑے ہیں، ۔ اپنے اخراجات کو پورا کرنے کے لیئے انسان
غلط کو درست ثابت کرنے کی کوشش کرتاہے ۔دن دیہاڑے ڈاکے ڈالتا ہے،چوریاں
کرتا ہے،ناجانے پیٹ کی آگ کو بجھانے کی غرض سے کیا کچھ کرنا پڑتا ہے، اور
معاشرے میں بگاڑ اور شر جیسی لعنتیں جنم لیتی ہیں ۔ ہمارے پروفیسر صاحب
ہمیں بتایا کرتے تھے کہ اچھی ورکنگ پرفارمنس کیلئے ورکنگ ایریا کا ماحول
اچھا ہونا چاہئے ، مثلاً درجہ حرارت، دیواروں کے کلر ، اور لائٹوں کی روشنی
، وغیرہ ۔ مگر یہاں تو لائٹ ہی نہیں ہوتی اندھیرے اور گرمی میں کام کرنا
پڑھتا ہے ۔اس صورت حال میں لوگوں کی کام کرنے کی صلاحیت کم ہوجاتی ہے اور
ذہنی پریشانی کا سبب بنتی ہے ،اسی ذہنی پریشانی میں ورکر گھر پہنچتے ہیں تو
ان کی برداشت کی طاقت تقریبا ختم ہو چکی ہوتی ہے ۔ چھوٹی سی بات پرغصہ آتا
ہے ۔ دوسری طرف گھر والے بھی بجلی کے بار بار بند ہونے کی وجہ سے پریشان
ہوتے ہیں ۔ ایک ماں بچوں کی پر ورش بھی کر رہی ہوتی ہے اور گھر کے کام کاج
بھی، بجلی کی لوڈشیڈنگ نے زندگی میں سکون حرام کر رکھا ہے۔خاوند اپنی
پریشانی میں گھر جاتا ہے اور بیوی پہلے سے پریشان ہوتی ہے اگر کوئی بات
بیوی کے منہ سے نکل گئی تو اس کی خیر نہیں اور اگر خاوند نے کوئی غلط کر
دیا تو اس کی خیر نہیں نتیجہ میں گھریلو پریشانیاں اور ناچاقیاں جنم لیتی
ہیں ۔میاں بیوی تو دونوں لڑتے ہیں یہاں مگرنقصان بچوں کاہوتا ہے ۔ وہ بچے
جنہوں نے کل ہماری اس ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالنی ہے ۔ ان کی پرورش ایسے
ماحول میں ہوگی تو ان کی ذہنی نشوونما پر بہت برا اثرپڑتا ہے۔جو نسل ان دس
سالوں میں جوان ہوئی اس کو اپنا مستقبل نظر نہیں آتا ۔ضروریا ت بڑھ گئی ہیں
اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے ہے۔نوجوان غلط طریقہ کار اختیار کرتے ہیں اور
نتیجہ میں قتل ،چوری ڈکیتی کی وارداتیں جنم لے رہی ہیں ۔اور ان سب وارداتوں
کے ذمہ دار حکمران ہیں ۔اور یہ ہے وہ پلان جو بیرونی طاقتیں کیے بیٹھی ہیں
۔ہماری موجودہ قوم تو اور بھی 10سال گزار سکتی ہے مگر آنے والی نسل تباہ
ہوچکی ہے ۔یہودی اور بھارتی اور امریکی ہماری ذہانت اور بہادری پر خوفزدہ
ہیں جب وہ لڑ کر کچھ نہیں کر سکے تو اب یہ سازشیں شروع کیں ہیں اور ہمارے
حکمران پچھلے10سال سے ان سازشی لوگوں کو تحفظ دے رہی ہے۔ہٹلرکہتا ہے کے
مجھے پڑھی لکھی مائیں دے دو میں سلجھا ہوا معاشرہ دے دیتا ہوں۔اور آج ضرورت
اس با ت کی ہے کہ ہمیں بجلی دے دو ہم آپکو پرسکون معاشرہ کی گارنٹی دیتے
ہیں۔خدا کے لیے اے حکمرانوں اپنی قوم کا بھی سوچو کیوں تمہیں دولت اور دنیا
کی ہوس نے اندھا کر رکھا ہے ۔راقم کالمسٹ کونسل آف پاکستان کے مرکزی صدر کی
ذمہ داری نبھا رہے ہیں- |