عین اس وقت جب عام انتخابات سر
پرہیں ڈاکٹرطاہرالقادری کا کینیڈا سے واپس آکررفوج اور عدلیہ کو انتخابی
نظام کو آئین اور قانون کے مطابق بنانے کے لیے مشاورت میں شمولیت کی دعوت
دنیا اور عام انتخابات مے تاخیر کی بات کرنا میری سمجھ سے باہر ہے۔اب ڈاکٹر
طاہرالقادری کے مطالبات کس حدتک پورے ہونے کے لائق ہیں اور پاکستان کے
حکمران کس حد تک کرتے ہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن مجھے نہیں لگتا کہ ان
کاکوئی ایک مطالبہ بھی پورا ہوسکے۔
ڈاکٹر صاحب نے حکومت کو تین ہفتوں کی مہلت دیتے ہوئے 10جنوری تک انتخابی
نظام کو عدلیہ، فوج اورتمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے آئین و قانون کے
مطابق تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا ہے جو کسی صورت ممکن نہیں جو حکومت سالوں
مردم شماری نہیں کرواسکی وہ کس طرح تین ہفتوں میں پورا نظام تبدیل کرلے گی
اور اس پرسوال یہ کہ ایسا کیوں کرے گی؟راقم کی اللہ تعالی ٰسے دعا ہے ،اللہ
کرے کہ تین ہفتوں میں انتخابی نظام آئین و قانون کے مطابق بنا دیا جائے
تاکہ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ40لاکھ بھوکے ،ننگے ،ذہنی و جسمانی بیماراور بے
روزگاروں کو اپنے گھر کا باقی ماندہ سامان فروخت کرکے پیدل اسلام آباد نہ
جانا پڑے۔کیونکہ اگر ایسا ہوا تو ان 40لاکھ میں سے شائد چند ہزار ہی زندہ
گھر واپس لوٹیں، شدید سردی کا موسم ہے اور اس پر ڈاکٹر صاحب نے کہا ہے کہ
اگر اسلام آباد جانے کے لیے تن کے کپڑے بیچنے پڑتے ہیں توبیچ دو،اب اگرکوئی
شخص اپنے تن کے کپڑے بیچ کر اس سفر کے لیے تیار ہوتا ہے تو کون کہہ سکتا ہے
کہ اس کے پاس چائے یا کافی پئے بغیر خود کو گرم رکھنے کے لیے کوئی مناسب
بندوبست ہوگا ۔اور رہی بات جیب خرچ کی تو اس کے پاس توجیب بھی نہیں
ہوگی،خرچ کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا عوام کے پاس بچے بھی تن کے کپڑے
ہی ہیں اوروہ بھی زیادہ لنڈے سے خریدے ہوئے،جہاں تک بات ہے زیور اور برتنوں
کی تو وہ عوام پہلے ہی شوکت خانم ہسپتال اور قرض اُتارومہم کے وقت بیچ چکے
اگر میری بات کایقین نہیں تو عمران خان اور میاں نوازشریف سے پوچھ لیں ایسا
ہوا تھا کہ نہیں؟ یا پھر اگر وہ دو پارٹیاں جن کے بارے میں ڈاکٹر صاحب نے
ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر مک مکا کی بات کہ وہ ڈاکٹر صاحب کو بھی مک مکا کرتے
وقت ڈرائنگ روم میں بیٹھنے کا موقع دے دیں اور مک مکا کا حصہ بنا لیں(جو کہ
عین ممکن ہے) تو بھی ان 40لاکھ افراد کی جانیں بچ سکتی ہے جو ان کے ساتھ
اسلام آباد تک کا سفر کرنے جارہے ہیں۔14جنوری بہت دور نہیں اگر زندگی رہی
توہم دیکھیں گے کہ ڈاکٹر صاحب واقعی ہی قوم کو کسی انقلاب کی طرف لے جانے
میں کامیاب ہوتے ہیں۔
اگر وفاقی وزیر اطلات قمرزمان کائرہ کے بیان کودیکھیں تو ڈاکٹرطاہرالقادری
کو اسلام آباد کی تیاری کرنی چاہیے کیونکہ انہوں نے ڈاکٹر صاحب کی باتوں کو
دھمکی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ الیکشن وقت پر ہی ہوں گے ،ملک کے فیصلے
سیاستدان کریں گے،عدلیہ اور فوج نہیں ،آئین وقانون کے خلاف کچھ قبول کیا ہے
اور نہ ہوگا”وفاقی وزیراطلاعات تو کہہ رہے ہیں کہ آئین وقانون کے خلاف کبھی
کچھ قبول ہی نہیں تو پھر ڈاکٹر صاحب انتخابی نظام کس آئین وقانون کے مطابق
کروانا چاہتے ہیں؟اور اگر انتخابی نظام ہی آئین وقانون کے مطابق نہیں ہے تو
پھر صرف 40لاکھ افراد کو نہیں بلکہ 18کروڑ عوام کو ڈاکٹر طاہرالقادری کے
ساتھ اسلام آباد کی طرف مارچ کرنا چاہیے کیونکہ اگر انتخابات ہی آئین
وقانون کے مطابق نہ ہوئے تو پھر کیسے ممکن ہے کہ منتخب ہونے والے لوگ آئین
وقانون کی پاسداری کریں گے؟یہ سچ ہے کہ پاکستان کے عوام کو اس وقت ایک
نڈر،ایمان داراور بااُصول رہنماء کی ضرورت ہے اگر ڈاکٹر طاہرالقادری اپنی
غیر ملکی شہریب کے تمام کاغذات جلا کر پاکستان کے عوام کے درمیان جینے مرنے
کا وعدہ اور بغیر سیکیورٹی عوام کے ساتھ لاہور سے پیدل اسلام آباد تک مارچ
کا اعلان کریں تو مجھے یقین ہے کہ40لاکھ کی بجائے کروڑوں لوگ ان کے ساتھ
چلیں گے۔اگر ایسا ہواتوبہت زیادہ نظریاتی اختلافات کے باوجود میں بھی ان کے
ساتھ مارچ میں حصہ لوں گا لیکن اگر عوام اپنے تن کے کپڑے بیچ کر سخت سردی
میں پیدل سفر کریں۔
ڈاکٹر صاحب اپنی بلٹ پروف گاڑی میں سیکیورٹی کے ساتھ ملین مارچ کی قیادت
کریں تو پھر مجھے نہیں لگتا کہ 40لاکھ افراد اس مارچ میں حصہ لیںگے۔جہاں تک
بات ہے فوج اور عدلیہ کو نگران سیٹ اپ میں شامل کرنے کی تومیرے مطالعہ کے
مطابق آئین اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ فوج کسی بھی طرح حکومت کا حصہ
بنے۔جہاں تک بات ہے عام انتخابات میں تاخیر کی تو میری رائے میں انتخابات
کا انعقاد مقررہ وقت پر ہی ہونا چاہیے۔اگر خُدانا خواستہ عام انتخابات میں
تاخیر ہوئی تویہ بات ثابت ہوجائے گی کہ ملک میں جمہوری حکومت تھی نہ آئندہ
آسکتی ہے۔ایسے وقت میں جب ،دہشتگردی،مہنگائی اور بے روزگاری کی چکی میں پسے
عوام ساری اُمیدیں آنے والے عام انتخابات سے وابستہ کئے بیٹھے ہیں
،انتخابات میں تاخیر عوامی حلقوں میں مزید مایوسی کا سبب بنے گی۔مزید
مایوسی کا مطلب خطرے کی گھنٹی ،آخر میں ڈاکٹرالقادری سے عوامی امنگوں کے
عین مطابق ایک سوال کرنا چاہتا ہوں کہ اگران کے جلسے پر کروڑوں خرچ ہوسکتے
ہیں تو عوام کو اپنے تن کے کپڑے بیچنے کا مشورہ کیوں۔ |