ہما رے ہاں بے خبری کی وجہ سے بے صبری بھی
ہے۔جھنڈا ،سرکاری گاڑی،گھر اور سیکیورٹی گا رڈ ضرورت کا حصہ بن گئے ہیں۔چند
دن پہلے کسی بے صبرے نے جنا ب حا مد میر کی گا ڑی میں شا ئد بم لگا دیا
جسکی تفصیل بتا نے کیلئے حامد میر کے پروگرام میں ایک ائیر وائس مارشل اور
کچھ ریٹائیرڈ فوجی افسران کو مدعو کر لیا گیا۔ٹیلیویژن پر بم ڈسپوز کرتے
ہوئے بھی دکھا یا گیا کہ ایک اہلکار بلٹ پروف جیکٹ پہنے گا ڑی کے قریب کھڑا
ہے ۔اوردیگر لوگ بھی جا ن ہتھیلی پر رکھ کر قریب ہی موجود ہیں۔ایک سپا ہی
گا ڑی کے نیچے جا تا ہے اور بم والا شا پر اتا ر کر لے آتا ہے۔اس کے بعد با
قی کا روائی کیلئے ما ئیک جنا ب وزیر دا خلہ کے حوالے کر دیاجا تا ہے۔جنا ب
حامد میر کو مبا رک ہو کہ بم بھٹ نہ سکاحا لا نکہ ان کے مطابق یہ بم انتہا
ئی مہلک تھا ۔اﷲ ہم سب کو جملہ اقسا م کے بموں سے محفوظ رکھے(آمین)۔بعض
اوقات بے خبریاں ،بد بختیاں بن جا تی ہیں۔اور انسان بے خبری میں بہت کچھ
لٹا دیتا ہے۔
ـــ’’ہو شا ں وچ بنا ئے سن اولٹے وچ بے خبری، توڑنہ چڑھدے لا رے جہڑے چوٹے
نال بے صبر ی‘‘
جو کچھ انسان با ہوش و ہواس بنا تا ہے وہ کبھی کبھی بے خبری کی نظر ہو جا
تا ہے۔جیسے ’’سسیے بے خبرے تیرا لٹیا شہر بھمبھور‘‘ ۔ سو ہنی نے بے خبری
میں کچا کھڑا اٹھا یا اور عشق کی موج میں سرشار چنا ب کی لہروں میں کھو گئی
مرزا بے خبر سو یا رہا اور صا حبا ں کے بھا ئی سرپر آن پہنچے ۔را نجھا ہیر
کے ڈیرے پر بے خبر نہ سوتا تو ہیر کے عشق میں ناکام نہ ہوتا۔عشق و محبت کی
نا کا م دا ستا نیں ہوں یا سیاسی غفلتوں اور بربا دیوں کی کہا نیا ں۔ملٹری
بلنڈر ہوں یا نا کام حکمرا نوں کی حشر ساما نیا ں ہر نا کامی،بر با دی اور
تبا ہی کا سبب بے خبری ہی کا نتیجہ رہا ہے۔آج کے دور میں پا کستا ن کا سب
سے با خبر انسان ہما را وزیر دا خلہ ہے جبکہ قوم بے خبری اور بے صبری کے
دلدل میں بھنس چکی ہے۔میڈ یا کا کا م قوم کو با خبر رکھنا اور بر با دیوں
سے بچا نا ہو تا ہے مگر ہما رے ہا ں میڈیا پر ہا وی چند افرا دنے قو م کو
یر غما ل بنا لیا اور اپنے سٹوڈیو ز کو سیا سی اکھا ڑے میں بدل دیا ۔سیا
ستدا نوں اور سرکا ری افسروں نے قو م کی قسمت سنوا رنے کے بجا ئے اپنی بد
اعما لیو ں کا دفا ع کرنے کیلئے میڈیا کو اپنا معاون بنا کر ملکی معیشت پر
کھل کر ہا تھ صا ف کیا ۔ سیا ستدا نوں نے میڈیا پر گا لم گلو چ،بہو دہ
گفتگو سے لیکرفو ج اور عدلیہ کی تذلیل کا کوئی مو قع ضا ئع نہ کیا اور اس
بہو دگی کا اہتما م ہما رے محترم سینئیر صحافی حضرا ت اور دا نشور اینکر ز
نے کیا۔رہی سہی کسر ملک ریا ض نے نکا لی اور ایک ہی وار میں صحا فت کے بلند
مینا روں کو زمین بوس کر دیا۔
وہ کا لم نگا ر اور دانشور جو شہید صحا فی حضرا ت کی قر با نیوں کو ملک ریا
ض برا نڈ صحافیوں سے منسلک کر تے ہیں ان سے گزا رش ہے کہ وہ اپنے آپ کو با
خبر کریں اور حقیقت کی عینک لگا کرصحا فت اور ضیا فت کو الگ الگ زاؤیوں سے
دیکھیں۔شہید صحافی حضرا ت میدا ن صحا فت کے عظیم اور جا نثارسپا ہی تھے۔
سپا ہی میدا ن عمل میں شہید ہو تا ہے یا پھر غازی بن کر لو ٹتا ہے۔ سپا ہی
کی زندگی مسلسل جدو جہد کا نا م ہے۔ وہ زندگی کے آخری لمحے تک اپنی دھن میں
مصروف عمل رہتا ہے کبھی ریٹائیر نہیں ہو تا۔چشتی مجا ہد ،ولی با براور دیگر
شہید صحا فی نہ ملک ریا ض کی پے رول پر تھے اور نہ کسی سیا سی پا رٹی کے
وظیفہ خوار،نہ کسی غیر ملکی ایجنسی کے ایجنٹ تھے اور نہ ہی امن کی آشا کے
گیت گا نے والے فنکا ر۔صحافت ان کا پیشہ تھا اور صحافت ہی ان کا جنو ن
تھا،نہ وہ فا ئیوسٹا ر ہوٹلوں کے رسیا تھے اور نہ ہی پلا ٹوں کی تقسیم میں
حصہ دا ری کے حقدار۔وہ چٹھیاں گزا رنے امریکہ، برطانیہ ، فرا نس،
سویئٹرزلینڈ،دبئی اور تھا ئی لینڈ نہ جا تے تھے۔وہ صدر اور وزیر اعظم کے ہر
غیر ملکی دورے میں خصوصی صحا فتی وفد کا حصہ نہ بنتے تھے اور نہ ہی نزلہ
زکا م اور بخا رکی صورت میں انھیں وزیر مشیر اور اعلٰی حکا م گلد ستے اور
تحفے بھیجتے تھے۔وہ سب با خبر تھے اور قوم کو لمحہ با لمحہ با خبر رکھنے کا
مشن لیکر بمبوں،میزائیلوں،خود کش بمباروں اور برائیوں کے خلا ف اپنا قلم لے
کر نکلتے تھے۔وہ شان سے جئے اور شان سے مرے۔صحافت کے یہ سپاہی اینکر بازی
اور دانشوری کا لبا دہ اوڑھنے والے کا روباری ٹولے کا حصہ نہیں اور نہ ہی
ان پا کیزہ روحوں کوفتنہ پرداز کا روباری فنکاروں سے ملانا درست ہے۔ صحافت
کے درخشندہ ستاروں نے سختیاں برداشت کیں،جیلیں کا ٹیں،بیروزگاری اور بدحالی
کے دورصبر اور شکر سے گزارے مگر کسی حکو متی کا رنددے اور نو دولتیے سیٹھ
کی چا کری نہ کی۔جنا ب سکندر خا ن بلوچ لکھتے ہیں کہ کچھ بے خبر سینیئر
صحافیوں نے حکو مت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ غدا ر مجیب الرحمٰن کی پا کستان
دشمن بیٹی حسینہ واجد سے معافی مانگ لے۔جنا ب سکندر خان بلو چ نے مشرقی پا
کستا ن کے حالا ت کا عمیق جا ئزہ لیاہے اور پا کستا ن آرمی کے کردا ر اور
مشکلا ت تر تیب وار بیا ن کیں ہیں۔انھیں تجزیہ نگا روں اور صحافتی لبا دے
میں ملبوس بھا رتی وظیفہ خوروں نے بمبئی حملہ کیس کے ڈرا مے کے فو راََبعد
حکومت کو مشورہ دینا شروع کر دیا تھا کہ ڈی جی آئی ایس آئی کوفوراََ بھا رت
بھجوا یا جا ئے۔اس ڈرا مے کے زندہ بچ جا نے والے واحد کردا ر اجمل قصاب کا
ذکر آتے ہی یہ صحافتی ٹولہ اجمل قصاب کا گھر ڈھونڈنے میں سرگرم عمل ہو اور
بھارتی منصوبہ سازوں کی خواہش کے مطا بق اجمل قصاب کا کھُرا اٹھا کر اکھنڈ
بھارت کا نعرہ لگا نے وا لوں کے سامنے سر خرو ہوا۔لگتا ہے کہ کچھ سیئنر
صحافی اور ان کے شاگرد بے خبری کے کیپسول میں بند ہوس کے پو جاری بن گئے
ہیں اور انھیں ملک و قوم اور فوج جو اس کی جغرافیائی او ر نظر یا تی سرحدوں
کی محافظ ہے کی عزت کا ذرا بھر احساس نہیں۔حسینہ سے معا فی ما نگنا وطن سے
غداری کے مترا دف ہے ۔بے خبر صحافیو ں سے گزا رش ہے کہ وہ جنا ب سکندر خا ن
بلو چ کی تحریر اور حوا لہ جا ت پڑھیں اور اپنی سمت درست کریں۔
برعس کردہ مَلکِ تہد ید و بیم ، کہ چرا با شید بر دزداں رحیم؟ عِشوا شان را
از چہ و با ور کنید، یا چر ا ز ا الیشان قبول زر کیند |