پولیو جیسے موذی مرض سے دنیا بھر
میں نجات حاصل کرنے کا جو عمل کئی دہائیوں سے جاری و ساری ہے۔ جہاں بہت سے
ممالک میں یہ پایہ ¿ تکمیل کو پہنچ چکا ہے وہیں چند ممالک ایسے بھی ہیں
جہاں ابھی تک اس سلسلے میں تگ و دُو کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ ان ہی میں سے
ایک ملک ہمارا پیارا پاکستان بھی ہے۔ جہاں پولیو کا مرض ننھے بچوں کو اپنا
شکار بنا رہا ہے۔ اس کے سدِّباب کیلئے کئے جانے والے اقدامات گو کہ آج بھی
جاری ہیں اور پولیو جیسے مرض سے جان چھڑانے کی سر توڑ کوششیں کی جا رہی ہیں۔
مگر پچھلے ہفتے پاکستان کے متعدد شہروں میں پولیو کے قطرے پلانے والوں کے
خلاف پتہ نہیں کیسی انہونی سازش رچی گئی کہ پولیو کے قطرے پلا کر پاکستان
کے بچوں کو زندگی دینے والیوں کو ابدی نیند سلا دیا گیا۔
دنیا چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ پولیو سے بچاﺅ ممکن ہے ، مگر ہمارے یہاں اب
بھی ایسے بچے موجود ہیں جنہیں پولیو جیسا مرض لاحق ہو رہا ہے۔ اور اس
بیماری کا شکار ہوکر زندگی بھر کیلئے اپاہج ہو جاتے ہیں۔ ان معصوم بچوں کی
زندگیوں سے عرنائی چھین کر انہیں اپاہج کی زندگی گزارنے پر مجبور کرنے میں
والدین سمیت اور بھی احباب شامل ہیں جو اپنے بچوں کو پولیو سے بچاﺅ کے قطرے
نہیں پلواتے، اور اگر زندگی کے قطرے پلانے والے ان کے دَر پر حاضر ہو ں تو
انہیں خون میں نہلا دیا جاتا ہے۔ اس طرح تو کوئی بھی آپ کے دروازوں تک اپنی
رسائی نہیں دے گا۔ یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ کوئی والدین کیسے اپنے
معصوم بچوں کی زندگیوں سے کھیل سکتے ہیں ، یہ معمہ ہے جسے ہم سب سمجھنے کی
کوشش کر رہے ہیں۔ آج تو ان واقعات کے سبب پولیو مہم بند کر دی گئی ہے مگر
امیدِ قوی ہے کہ آئندہ دنوں میں یہ کام دوبارہ شروع کر دیا جائے گا کیونکہ
یہ معصوم زندگیوں کا سوال ہے۔ مگر جہاں جہاں یہ واقعات رونما ہوئے ہیں وہاں
پر ڈر اور خوف کے فضا میں یہ کام انجام دیئے جانے کا اندیشہ ہے جس کی وجہ
سے کافی بچوں کو زندگی کے قطرے سے محروم رہ جانے کا بھی اندیشہ ہوگا۔
اخبارات اور ٹی وی پر آگاہی کا اشتہار تو بلا ناغہ چلایا جا رہا ہوتا ہے
تاکہ عوام الناس میں یہ شعورِ آگہی پیدا ہو جائے کہ وہ اپنے بچوں کو اس
موذی مرض سے محفوظ کر لیں لیکن گذشتہ دنوں پیش آنے والے افسوس ناک واقعے
میں جس طرح سے پولیو کے قطرے پلانے والی ٹیموں پر کراچی، پساور اور چار سدہ
میں حملے کئے گئے اور تین روز میں نو افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔
اس کی کیا وجہ ہے کہ پولیو کے قطروں کے خلاف اس طرح کا ردِ عمل سامنے آیا؟
ان پولیو ورکر حملہ کرنے والے کیا نہیں جانتے کہ پولیو کے قطرے نہ پینے سے
بڑی تعداد میں بچوں کا مستقبل داﺅ پر لگ جائے گا؟ اس کے خلاف آگاہی اور
شعور پھیلانے والے افراد کو موت کے تحفے دیئے گئے۔ غالباً اس کی ایک وجہ تو
یہ ہو سکتی ہے کہ انگریز کے بنائے ہوئے قطرے نہیں پلانا چاہتے ، دوسری وجہ
یہ سمجھ میں آتی ہے کہ انسدادِ پولیو مہم کے دران غیر تربیت یافتہ رجاکاروں
کی تعیناتی اور گھر گھر جا کر قطرے پلانے والی ٹیموں کے پاس پولیو ویکسین
کو بلند درجہ حرارت سے محفوظ رکھنے کے لئے غیر مناسب انتظام بھی شامل ہیں،
مگر دوسری طرف یہ بھی تو ذہن میں ہونا چاہیئے کہ ہمارے دین کے مطابق ایک
انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔
پولیو وائرس کا شکار ہونے والوں میں زیادہ تر تعداد صوبہ سندھ، بلوچستان
اور وفاق کے زیرِ انتظام فاٹا کے قبائلی علاقوں میں ہیں، انسانی جسم کو
اپاہج کرنے والے اس خطرناک وائرس کے خاتمے کے لیے جہاں حکومتِ پاکستان نے
عالمی اداروں کے تعاون سے باقاعدگی سے کم عمر بچوں کو زندگی سے بچاﺅ کے
قطرے پلانے کی مہم شروع کی ہے ، اور اپنے اہداف کو حاصل کرنے کیلئے محکمہ
صحت کے لوگ سیمینار کے ذریعے آگاہی فراہم کرنے میں مصروفِ عمل بھی ہیں،لیکن
سرکاری دعوﺅں کے برعکس ہمارے یہاں پولیو کے نئے مریضوں کی تعداد کافی زیادہ
ہے۔ جبکہ پڑوسی ممالک میں ایسے مریضوں کی تعداد نسبتاً کم ہے۔
یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ پولیو ایک خطر ناک اور موضی مرض ہے ، کوئی بچہ
اگر اس زندگی کے قطرے سے محروم رہ جائے تو اس کے والدین پر فرض بنتا ہے کہ
وہ اسے قریبی مراکزِ صحت پر لے جا کر یہ قطرے پلوائیں ۔ جب پولیو مہم کی
گاریاں اسپیکر سے اعلان کر رہی ہوتی ہیں کہ پولیو کی ٹیم آپ کے علاقے میں
آگئی ہے تو پتہ نہیں کیوں لوگ ڈر کے مارے اپنے گھروں کے دروازے بند کرنے کو
ترجیح دیتے ہیں ۔حالانکہ اس میں ان کا اور ان کے بچوں کا اپنا ہی نقصان ہے۔
اس بات کو والدین کی بے حسی کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا ، ویسے بھی پولیو کے
قطرے تو بالکل مفت پلائے جاتے ہیں۔ اس کی قسم کی کوئی فیس نہیں ہے، عوام
میں اس کام کی آگاہی کیلئے جہاں علمائے کرام کا تعاون ضروری ہے وہیں سوِل
سوسائٹی اور ان سے منسلک دوسرے اداروں کو بھی چاہیئے کہ آگاہی کیلئے ہر
طریقہ استعمال کریں تاکہ ہم سب مل کر اس اپاہج کر دینے والی بیماری سے
محفوظ ہو جائیں۔ آخر میں کچھ ذکر اس کے اسباب کا کر لیا جائے تاکہ اس مضمون
کے ذریعے بھی اس موذی مرض سے چھٹکارے کیلئے آگاہی فراہم ہو جائے۔ درحقیقت
یہ مرض پانچ سال کے بچوں کا مرض ہے۔ جولائی سے لیکر اگست تک اس مرض کے حملے
کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ ایک جراثیم اس کا سبب بن جاتا ہے جو دماغ اور حرام
مغز میں پہنچ کر پیروں کے عضلات کو بے کار کر دیتا ہے۔ اس کی شروعات میں جو
علامات ظاہر ہوتی ہے ان میں تیز بخار ، ہاتھ پیروں میں شدید درد، کبھی گردن
اکڑ جانا، ہاتھ پیروں میں بے قاعدہ حرکات ہوتی ہیں۔ رفتہ رفتہ پیر بے کار
اور فالج کی علامات پیدا ہوجاتی ہیں۔ لہٰذا ان تمام علامات پر والدین توجہ
دیں اور اس کا سدِّ باب کریں۔
ہمارے یہاں ویسے ہی پولیو ویکسین کی عدم فراہمی کی وجہ سے لاکھوں بچے بے
یاس و مددگار ہیں اور ایسے میں اگر زندگی کے قطرے دستیاب نہیں ہوئے تو
لاکھوں نوزائیدہ بچوں کی زندگیاں بھی خطرات کی زد میں آجائیں گی۔ جس کی وجہ
سے قوم کی پریشانی میں مزید اضافہ ہونے کا خدشہ ہو سکتا ہے۔ یہ بات حوصلہ
افزاءکہی جا سکتی ہے کہ حکومت نے کہیں نہ کہیں اپنی ذمہ داریوں کومحسوس کیا
ہے اور اس سلسلے میں ٹھوس اور قابل، عمل حکمتِ عملی وضع کی ہے لیکن اس سے
بھی زیادہ اور اہم امر یہ ہونی چاہیئے کہ پولیو سے بچاﺅ کے قطرے پلانے کا
عمل کسی طور تعطل کا شکار نہ ہو ، مسلسل ویکسین کی فراہمی یقینی بنایا جائے
اور قطرے پلانے کا عمل اس وقت تک جاری رکھا جائے جب تک ملک کم از کم ان
بیماریوں سے پاک نہ ہو جائے کیونکہ یہ محض معصوم بچوں کے مستقبل کا ہی سوال
نہیں ہے بلکہ یہ ملک و قوم کے مستقبل کا بھی سوال ہے۔ ہمارا آنے والا کل
انہی بچوں کی اعلیٰ تربیت پر منحصر ہے۔ آج آپ ایک دیا جلائیں انشاءاللہ
دیئے سے دیا جلتا جائے گا اور مرض کو ملک کے طول و عرض سے نجات میسر ہو
جائے گا۔ |