تپ دق اور کرائے کی بلڈنگ

خدا کیلئے کسی ماہر ڈاکٹر سے اپنا معائنہ کرائو گذشتہ ایک ماہ سے مسلسل ہونیوالی کھانسی نے ہمیں بھی متاثر کیا پتہ نہیں تمھیں کیا بیماری ہے لیکن ہمیں تو بیمار مت کرو یہ وہ مکالمہ ہے جو ہمارے ایک دور کے رشتہ دار کو اس کی بیگم کہہ رہی تھی جبکہ مسلسل بخار اور کھانسی کی کیفیت میں مبتلا وہ صاحب اپنی بیگم کو کہہ رہے تھے بیگم تمھیں پتہ ہے کہ میں صبح کام کیلئے جاتا ہوں اور شام تک دکان پر بیٹھے رہنے کی وجہ سے مجھے ڈاکٹر کیلئے وقت نہیں ملتا اب میں کیا کروں ان دونوں کی باتیں سن کرراقم نے اپنے رشتہ دار کو مشورہ دیا کہ جا کر کسی ڈاکٹر سے چیک اپ کروائو لیکن پھر بھی اس نے بات نہیں مانی دو دن بعد راقم نے دوبارہ رشتہ دار سے رابطہ کیا اور پوچھا تو انکار پر خود اسے لیکر ہسپتال پہنچ گیا جہاں پر ڈاکٹروں نے اس کے ٹیسٹ کئے اور پتہ چلا کہ کہ اسے ٹی بی کی بیماری ہے جو کہ ابتدائی سٹیج میں ہے جس کیلئے اس نے ادویات کھانا شروع کردی اور مسلسل علاج کے بعد ٹی بی کا وہ مریض آج کل بھرپور صحت مند زندگی گزار رہا ہے- یہ واقعہ تقریبا دس ماہ قبل کا ہے جب راقم اپنے رشتہ دار کے ہاں ملنے کیلئے گیا اور وہاں پر ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا اور بعد میں اس طرح کی صورتحال سامنے آئی-

یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ہم لوگ صحت کے حوالے سے کتنے لاپرواہ ہیں اسی لاپرواہی کی وجہ سے ہمیں بعض اوقات بہت مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے-غربت و افلاس ایک ہی گھر یا کمرے میں گنجائش سے زیادہ افراد کی رہائش سیلاب جیسے قدرتی آفات اورخیموں میں زندگی کئی امراض کو جنم دیتی ہیں ٹی بی کے مرض میں اضافے کی وجوہات میں بھی یہ عوامل شامل ہیں ٹی بی کی شرح مردوں کے مقابلے میں خواتین اور خصوصا بچوں میں بہت زیادہ ہے جس کی وجہ خواتین کا اپنی صحت پر توجہ نہ دینا شامل ہیں - تپ دق سو فیصد قابل علاج مرض ہے لیکن تشخیص اور علاج میں تاخیر اسے مہلک بنا دیتی ہے۔ خیبر پختونخوا میںہر سال پچاس ہزار افراد اس موذی مرض کا شکار ہوجاتے ہیں۔ مریضوں میں 54فیصد خواتین شامل ہوتی ہیں ۔پاکستان ٹی بی کی شرح کے اعتبار سے دنیا میں چھٹے نمبر پر ہے پاکستان تپ دق کے حوالے سے آٹھویں نمبر پر تھا لیکن جس طرح دیگر شعبوں میں آگے آیا ہے اس طرح اس بیماری میں اضافے کی وجہ سے دو درجے مزید اوپر آگیا ہے -،بدقسمتی سے یہ مرض زیادہ تر18سے35سال کی عمر کے نوجوانوں کو شکار بناتا ہے یہ لوگوں میں اب بھی اس خطرناک بیماری سے متعلق آگاہی نہیں اور یہ جان لیوا مرض اب بھی ہمارے ہاں موجود ہیں -

صرف پشاور میں اس وقت 26 کے قریب ٹی بی کی بیماری کے تشخیصی مراکز کام کررہے ہیں جبکہ 76 بیسک ہیلتھ یونٹس میں علاج معالجے کی سہولت فراہم کررہے ہیں لیکن ہمارے ہاں سب سے افسوسناک امر یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ لوگ اول تو اس بیماری پر توجہ ہی نہیں دیتے حالانکہ اس بیماری کی تشخیص کیلئے کئے جانیوالے ٹیسٹ مفت ہوتے ہیں دوسرا سب لوگ مفت میں ملنے والے ادویات کو قابل توجہ ہی نہیں سمجھتے - جبکہ بچوں میں مائوں کی طرف سے ملنے والے تپ دق کی جراثیم کے خاتمے کیلئے پیدائش کے وقت مخصوص ٹیکہ لگایا جاتا ہے لیکن اس بارے میں بھی لوگوں میں آگاہی بالکل نہیں -ایسی ایک خاتون سے راقم کی ملاقات ہوئی جس کے بیٹے نے علاج تو شروع کیا تھا لیکن بعد میں اس کے دیگر رشتہ داروں نے اسے کہا کہ دن میں تین گولیاں کھانا تمھارے لئے خطرناک ہے اور تمھیں یرقان بھی ہوسکتا ہے خودشخیصی اور لوگوں کی باتوں میں آکر ٹی بی کے مریض نے ادویات ڈاکٹروں کی ہدایت کے مطابق کھانا چھوڑ دیا جس کی وجہ سے ٹی بی کی بیماری ایک مرتبہ پھر حملہ آور ہوئی اور اس مرتبہ نوعیت سخت تھی جس کی وجہ سے وہ مریض ابھی مشکلات کا شکار ہے تاہم اب وہ خاتون اپنے بیٹے کو علاج کیلئے دوبارہ لا رہی ہیں خاتون کے بقول اگر اس کا بیٹا اپنا علاج مکمل کرواتا تو آج یہ نوبت نہ آتی-

اس طرح کا ایک دلچسپ واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک مریض جس میں ٹی بی کے جراثیم انتہائی خطرناک سطح پرتھے کے بقول اس نے ابتداء میں ادویات کو مفت سمجھ کر توجہ نہیں دی کہ اس سے کیا ہوگا اور وہ ادویات باقاعدگی سے نہیں کھائی جس کا نقصان یہ ہوا کہ کھانسی کی بیماری بڑھ گئی وزن کم ہوگیا اور اب دوبارہ سنٹر میں آکر ٹیسٹ میں پتہ چلا کہ اسے ٹی بی کی خطرناک جراثیم لگے ہیں یہ ایک ایسے مریض کی داستان ہیں جس نے ٹی بی کی بیماری کے دوران ملنے والے ادویات کو توجہ نہیں دی اور لاپرواہی نے اس کی بیماری کو مزید خطرناک بنا دیا-طبی ماہرین کے مطابق ہرسال پاکستان میں ٹی بی کے مرض سے ہونیوالی ہلاکتوں کی تعداد 48000 ہے ہر سال تقریبا تین لاکھ افراد ٹی بی کی بیماری تشخص ہو جاتی ہیں جن میں 75 فیصد معصوم بچے شامل ہیں-خیبر پختونخواہ میں کام کرنے والے ٹی بی کے مرض کی روک تھام کرنے والے ادارے کی کوشش ہے کہ 2015 تک اس بیماری سے ہونیوالے ہلاکتوں کی تعداد کو 50 فیصد تک کم کیا جائے جس کیلئے اقدامات تو اٹھائے جارہے ہیں لیکن صورتحال ابھی بھی حوصلہ افزاء نہیں-

تقریبا پچاس سال قبل پشاور شہر میں جب ٹی بی کے مریضوں کیلئے ڈسٹرکٹ ٹی بی سنٹر کا قیام عمل میں لایاگیا تو اس وقت بلڈنگ نہیں تھی اسی بنیاد پر کرائے کی بلڈنگ میں سلسلہ شروع کیا گیا اور ابھی تک ٹی بی کے مریضوں کیلئے کام کرنے والا یہ سنٹر کرائے کی بلڈنگ میں کام کررہا ہے بلڈنگ کے مالک نے ابتداء میں کرایہ لیا لیکن بعد میں ٹی بی کے مریضوں کی وجہ سے کرایہ لینا بند کردیا لیکن اب پھر وہ متعلقہ انتظامیہ کو وارننگ دے چکا ہے کہ بلڈنگ کو خالی کیا جائے کیونکہ متعلقہ ایریا کمرشل ہے اور مالک اپنے مفاد کیلئے بلڈنگ کو خالی کرنا چاہتا ہے ٹی بی سنٹر کی انتظامیہ کے مطابق روزانہ تقریبا تین سو کے قریب ٹی بی کے مریض او پی ڈی کیلئے یہاں پر آتے ہیں اور یہاں پر مریضوں کو سہولت ہے کیونکہ شہر کے وسط میں ہونے کی وجہ سے چارسدہ روڈ کوہاٹ روڈ چمکنی روڈ سمیت مختلف علاقوں سے مریضوں اور خصوصا خواتین کو آنے میں آسانی ہے انتظامیہ کے بقول اگر انہیں کہیں پر اچھی بلڈنگ مل جائے تو وہ شفٹ بھی ہو جائے اور وہاں پر ایکسرے مشین بھی انسٹال کرے لیکن تاحال ان کی امید بر نہیں آتی اور لگ یہی رہا ہے کہ اگر یہ سنٹر کہیںاور منتقل ہوگیا یا بند ہوگیا تو پھر تپ دق کے مریضوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہو جائیگا جو ہم سب کیلئے پریشانی کا باعث بنے گا اس لئے محکمہ صحت کے ٹھیکیداروں سے گزارش ہے کہ اس صورتحال کا نوٹس لیتے ہوئے مسئلے کے حل کیلئے فوری اقدامات اٹھائے جائیں-

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 636 Articles with 498294 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More