آج کے دور میں بجلی ہر انسان کی بنیادی
ضرورت اور زندگی گزارنے کے لئے ایک انتہائی اہم عنصر ہے۔ بجلی واحد چیز ہے
جو سماج کو زمانہ جاہلیت سے نکال کر ترقی اور خوشحالی کی جانب رواں دواں
رکھتی ہے۔لیکن پاکستان کے عوام آج اس بنیادی ضرورت سے ایسے محروم ہیں جیسے
یہ لوگ 21 ویں صدی میں نہیں 18 ویں صدی کے لوگ ہوں۔روٹی کپڑا مکان تو پہلے
ہی سیاسی اشرافیہ چھین چکا ہے جب کہ اب بجلی کا مصنوعی بحران پیدا کرکے
عوام کو معاشی طور پر مارکر ان سے زندہ رہنے کا حق بھی چھینا جارہا ہے ۔
بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ نے پاکستان میں بہت سے معاشی اور سماجی مسائل
پیدا کردئے ہیں جو ایک بھیانک شکل اختیار کرچکا ہے ۔جس قوم کی رویوں میں
مثبت تبدیلیاں لانے کے لئے کوششیں ہونی چاہئیے تھیں آج حکمران طبقہ جان
بوجھ کر ان کی رویوں میں تلخی اور تیزی پیدا کررہا ہے اور رویئے بڑی تیزی
سے تبدیل ہوتے جارہے ہیں جن کا رخ یقینی طور پر تخریبی اور غیر انسانی
رحجانوں کی طرف ہی ہوگا۔اور ان کے اثرات مختلف مظاہروں کے دوران ہم دیکھتے
بھی ہیں حکمرانوں کے ان مظالم ہی کا وجہ ہے کہ مظاہرین مختلف بازاروں،
چوراہوں میں کس قدر توڑ پھوڑ کرتے ہیں۔بجلی پانی اور گیس ایسے خود ساختہ
بحران ہیں جن کا خاتمہ ماہرین کی نظرمیں بہت ہی کم وقت میں ممکن ہوسکتا ہے
۔لیکن حکومتی ایوانوں پر قابض طبقہ ان بحرانوں کو ختم کرنے میں سنجیدہ نہیں
ہیں اور یہ لوگ ان بحرانوں کو کیسے اور کیوں ختم کریں گے جو ان مسائل پر
بڑے بڑے دھندے کرتے ہیں اور ہمارے نام نہاد حکمران ان بحرانوں میں کیوں کر
دل چسبی لیں جن کا یہ مسئلہ ہی نہیں ہے ۔ جن کا مسئلہ بڑی بڑی گاڑیاں،
جائیدادوں میں اضافہ، لوٹ مار،بیرونی بینکوں میں غیر قانونی اور عوام سے
لوٹی ہوئی رقموں میں اضافہ ،خود اور اپنے خاندانوں کی یورپ اور مغربی ممالک
میں ایڈجسٹ منٹ ہے تو یہ لوگ ان مسائل کو کیونکر حل کریں گے۔یہ لوگ تو
پاکستان صرف لوٹنے کے لئے آتے ہیں۔ کسی وقت میں یہ بات بھی چلی تھی کہ ہم
پڑوسی ممالک کو بھی بجلی فراہم کرسکیں گے۔ لیکن اچانک بجلی غائب ہوگئی اور
ایسی گئی کہ جیسے اس ملک میں بجلی تھی ہی نہیں۔ اور آج لوگ ٹیکسٹ مسیجز کے
ذریعے یہ پیشن گوئیاں کررہے ہیں'' کہ اگر حالات یہی رہے تووہ وقت بھی آجائے
گا کہ عجائب گھروں اور میوزیم میں قدیم زمانہ سازوسامان کے ساتھ ساتھ بلب،
ٹیوب لائٹس، پنکھے ،استری اور بجلی سے چلنے والے دوسرے آلات بھی پڑے ہونگے
اورپھر نئی نسل کو اس کے بارے میں بتایا جائے گاکہ اس ملک میں بجلی ہوا
کرتی تھی اور یہ تمام آلات بجلی سے چلتی تھیں۔پھرکچھ بچے منہ میں انگلی ڈال
کر حیران رہ جاتے ہونگے۔۔! اچھا یہاں بجلی بھی ہواکرتی تھی۔ ہاں ہاں یاد
آیا یہ تو ہماری پرائمری کی کتاب میں بھی ہے '' اک تھی بجلی''۔ ٹیکسٹ مسیجز
بظاہر تو مزاحیہ بھی ہوتے ہیں لیکن یہی مسیجز حکمرانوں اور منصوبہ سازوں کے
منہ پر چھیتر سے کم نہیں ہے۔کچھ لوگوں نے تو بجلی اور بے چارے واپڈا والوں
کے لئے ایسے شرمناک مسیجز تیار کئے ہوتے ہیں کہ اگرکسی کا بس چلے تو اپنی
بجلی بنا کر مسیجز بھیجنے والے کو دے کہ بھئی یہ لو بجلی اپنا کام چلائو
مگر خدارا آئندہ کے لئے مجھے اس قسم کے شرمناک اور بے ہودہ مسیجز نہ بھیجو
۔ لیکن مجال ہے کہ اس کے باوجود حکمرانوں کے کان پر جوںبھی رینگتی ہو۔آخر
بجلی گئی کہاں ۔۔؟ یہ سوال یقینا میری طرح ہر کسی کے ذہن میں ہوگا ۔اور
ہرکسی کو اس کا جواب چاہئے لیکن حکمرانی کا ٹھیکدار طبقہ جواب دینا گوارا
ہی نہیں کرتا۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں بجلی پیدا کرنے کی گنجائش
20 ہزار میگاواٹ سے زیادہ اور طلب 7 ہزار میگا واٹ کے لگ بھگ ہے۔ یعنی ہم
اپنی تمام ملکی ضرورت سے زیادہ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔چونکہ
ضرورت اور مانگ کے مطابق بجلی پیدا نہیں کی جارہی بلکہ شرح منافعوں میں
مسلسل اضافوں کے لیے پیدا کی جا رہی ہے اس لیے ملک کے کئی حصوں میں اٹھارہ
سے بیس گھنٹوں تک اس کی فراہمی بند رہتی ہے۔بجلی آج بھی پاکستان میں اتنی
مقدار میں موجود ہے کہ جس سے ملک کی ساری ضروریات پوری کی جاسکتی ہے۔
پاکستان میں بجلی حاصل کرنے کے تین اہم ذریعے ہیں، پانی، تیل اور گیس اور
جوہری توانائی۔ اگر پن بجلی گھر اپنی پوری استعطاعت پر کام کریں تو چھ ہزار
میگاواٹ سے زیادہ بجلی حاصل ہوسکتی ہے لیکن انتہائی لاپرواہی، کام چوری اور
بد انتظامی کی وجہ سے پانی کی کمی اور فنی خرابیوں کے باعث اس کی پیداوار
آدھی سے بھی کم ہوکر رہ گئی ہے ۔ جس سے تھرمل بجلی گھروں پر دبائو مسلسل
بڑھ رہاہے اور کل پیداوار میں اس کا حصہ کئی بار70 فی صد تک بھی پہنچ جاتا
ہے۔ماہرین کا کہناہے کہ بجلی کی کل ضرورت کا ایک تہائی سے زیادہ تھرمل پاور
پر انحصار معیشت کے لیے نقصان دہ ہوتاہے۔ اسی لیے ترقی یافتہ ممالک
پیداواری لاگت میں کمی کی خاطر پانی، کوئلہ ، گیس ،تیل ، نیوکلیئر اوردیگر
متبادل ذرائع سے بھی بجلی پیدا کرتے ہیں اور تھرمل پاور پر زیادہ دبائو
نہیں پڑنے دیتے۔ جب کہ پاکستان میں صورت حال اس کے برعکس ہے یہاں پر پانی
کے علاوہ دوسرے ذرائع سے بجلی حاصل کرنے کے لئے حکمران طبقہ کے پاس وقت ہی
نہیں ہوتا۔پانی سے بجلی کوڑیوں کے مول پڑتی ہے مگر نجی کمپنیوں اور
حکمرانوں کی لوٹ مار کی بنا پر پاکستان میں آبی منصوبوں پر زیادہ توجہ نہیں
دی گئی۔ کالا باغ کے علاوہ بھی ایسے کئی علاقوں کی نشاندہی ہوچکی ہے جہاں
سے بجلی حاصل کی جاسکتی ہے ۔ اسی طرح پنجاب میں دنیا کا سب سے بڑا نہری
نظام موجود ہے جس سے چھوٹے پیمانے پر اور مقامی سطح پر بجلی پیدا کرنے کی
بہت گنجائش ہے۔جبکہ خیبر پختونخواہ کے بالائی علاقوں میں بھی پانی سے
استفادہ حاصل کیا جاسکتا ہے جس کے بارے میں کئی بار ماہرین اپنے رائے دے
بھی چکے ہیں کہ معاشی ترقی اور سستی بجلی کیلیے آبی وسائل کے استعمال
پرحکمرانوں کو عملی اقدامات کرنے چاہئیے۔کوئلے سے بجلی کا حصول بھی نسبتا
سستا پڑتا ہے۔ پاکستان میں کوئلے کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ پاکستانی سائنس
دانوں نے اسے براہ راست گیس میں بدل کر بجلی بنانے کا کامیاب تجربہ بھی کیا
ہے۔لیکن نجی اداروں کی مخالفت نے اس منصوبے کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔ ایک
اندازے کے مطابق ان دنوں تیل سے پیدا کی جانے والی بجلی کے ایک یونٹ پر 20
روپے کے لگ بھگ خرچ آرہاہے ۔ہمارے معیشت پر قابض عالمی مالیاتی اداروں کے
دبائو کی وجہ سے پاکستان کو تیل اور گیس سے بجلی پیدا کرنا انتہائی مہنگا
پڑرہاہے جس کی وجہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں بڑھنا اور روپے کی قدر
مسلسل کم ہونا ہے۔پاکستان میں کئی تھرمل یونٹ قدرتی گیس سے چلائے جارہے ہیں
مگر گیس پر مختلف شعبوں کے مسلسل بڑھتے ہوئے دبائو اور طویل عرصے سے نئے
ذخائر کی تلاش پر سنجیدگی سے توجہ نہ دینے کے باعث گیس کا بھی بحران پیدا
ہوچکاہے۔ ان دنوں عالمی مالیاتی اداروں اور امریکی حکم پر بیرونی ممالک سے
گیس کی درآمد کے منصوبوں پر زیادہ دھیان دیا جارہاہے لیکن سستی بجلی کے لیے
مقامی وسائل کو بہتر بنانے پرکوئی توجہ نہیں دی جا رہی ۔ جوہری بجلی بھی
تھرمل پاور سے سستی ہوتی ہے۔ پاکستان کے پاس اس وقت دوجوہری بجلی گھر ہیں
جن سے کل ملکی پیداوار کا محض دو فی صد حاصل ہورہاہے۔ 2030 تک ساڑھے آٹھ
ہزار میگاواٹ سے زیادہ بجلی جوہری پلانٹس سے حاصل کی جا سکتی ہے۔ پاکستان
کے طویل ساحلی اور صحرائی علاقوں میں ہوائی چکیاں(ونڈملز )بھی لگائی جاسکتی
ہیں۔ اس کے علاوہ ملک کے میدانی علاقوں میں سارا سال سورج چمکتا ہے جس سے
بڑی مقدار میں شمسی توانائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ توانائی کے یہ متبادل ذرائع
چھوٹے پیمانے پر دیہاتوں اور قصبوں کی بجلی کی ضروریات پوری کرنے میں اہم
کردا ر ادا کرسکتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق کم ازکم پانچ ہزار دیہاتوں کو
ہزاروں میل لمبی تاریں بچھائے بغیر ونڈملز کے ذریعے مقامی طور پرسستی یا
مفت بجلی فراہم کی جاسکتی ہے۔لیکن یہاں اصل مسئلہ بجلی کا نہیں ہے بلکہ تیل
کمپنیوں اور پرائیویٹ بجلی گھروں کے اربوں روپے کی لوٹ مار اور دولت میں
اندھی دوڑ ہے ۔ کوئی بھی ملک آج مہنگی تھرمل بجلی پر انحصار کا متحمل نہیں
ہوسکتا۔پیپلز پارٹی نے اقتدار سنبھالتے ہی بجلی کے مسئلے سے نمٹنے کے نام
پر نوٹ بنانے کے لیے کرائے کے بجلی گھر وں کا منصوبہ شروع کیاتھا۔ لیکن کئی
حلقوں نے اس کی شدید مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ تیل سے چلنے والے پرانے
جنریٹر اس مسئلے کی سنگینی میں مزید اضافہ کریں گے، کیونکہ تھرمل پاور یونٹ
تیل کی کمی کے باعث ہی اپنی استعداد کے مطابق نہیں چل رہے۔جب کہ اصل مسئلہ
بجلی کی کمی کا نہیں بلکہ بجلی گھروں سے پوری پیدوار لینے میں مکمل ناکامی
کا ہے۔ پاکستان میں بجلی کے مسئلے سے منسلک ایک اہم پہلو بڑے پیمانے پر
سرمایہ داروں،جاگیرادروں،کارخانہ داروں، دولت مندوں، حکمرانوں اور خود
واپڈا اہلکاروں کی بجلی چوری اور ناقص انتظام ترسیل ہیں جس کے سبب تقریبا
30 فی صدسے زیادہ بجلی ضائع ہوجاتی ہے۔اگر اقتدار پر قابض کسی بھی طبقہ نے
اس طرف توجہ دی ہوتی اور کوئی ٹھوس منصوبہ بندی کرتے تو ان مسائل پر قابو
پایا جاسکتاتھا اور اب بھی کوئی گیا گزرا نہیں اگر حکمران مل بیٹھ کر اس
مسئلے کے لئے کوئی منصوبہ سازی کریں اور حقیقی معنوں میں اس مسئلہ کا حل
نکالیں تو سال نہیں لگیں گے بلکہ چند ماہ میں یہ مصنوعی بحران ختم ہوسکتاہے
جس سے نہ صرف پیداواری اخراجات کم ہوں گے بلکہ مزید مالی وسائل بھی مہیا
ہوسکیں گے۔یہ بات واضح ہے اور یقینی طور پر درست بھی ہے کہ پاکستان میں آج
بجلی کا بحران مصنوعی، جعلی اور دولت کی لوٹ مار کی حو ص کا بحران ہے۔
حقیقت میں بجلی کا کوئی بحران نہیں ہے۔ اس ملک میں عوامی ضرورتوں سے زائد
وافر مقدار میں بجلی، گیس سمیت ہر پیداروار موجود ہے لیکن موجودہ ہر عذاب
امریکی دلالی اور انکا قائم کردہ مالیاتی نظام کی دین بھی ہے۔ یقینا موجودہ
حکمرانوں اور خاص کر امریکی اور عالمی مالیاتی اداروں کے شکنجے ہوئے اس
نظام کی موجودگی میں یہ بحران تو ختم ہوہی نہیں سکتا کیونکہ آج کے تمام
مسائل کی وجہ یہ لوگ خود ہیںجن سے نجات پائے بغیر کوئی بھی خیر کی توقع
نہیں کی جاسکتی اور نہ ہی کوئی تبدیلی ممکن ہے۔ اگر موجودہ حالات کو بدلنا
ہے ۔ تو پھر لازما موجودہ نظام اور اسکے حکمرانوں کو بھی بدلنا ہوگا جو
موجودہ حالات اور استحصالی نظام کی بنیادی وجہ اور پیداوار ہیں ۔ |