قبر فروش - آخری قسط

جنرل انور کی راجپوت دشمنی اور نفرت کا یہ حال تھا کہ اپنی ہی رجمنٹ جس کا وہ کرنل کمانڈنٹ تھا کے ایک راجپوت افسر پر جھوٹا توہین عدالت کا مقدمہ بنوایا اور اس سازش میں بھی جسٹس گیلانی ہی کو استعمال کیا گیا۔ آزادکشمیر رجمنٹ کے دوبریگیڈئیر صاحبان جنرل انور کے پاس گئے اور اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ ایسے ہتھکنڈے استعمال نہ کرے۔ بحیثیت کرنل کمانڈنٹ آپ کا فرض ہے کہ اپنے افسروں اور جوانوں کی ویلفیئر کریں نہ کے ان کی خلاف سازشوں میں شریک ہو کر انہیں پولیس کے ذریعے قتل کروانے کی منصوبہ بندی کریں۔ صدارت کے نشے اور برادری ازم کے غرور میں مدھوش صدر انور نے دونوں افسروں کی بات سنی ان سنی کردی اور تکبر کے گھوڑے پر سوار رہا۔

جنرل انور نے پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین پر قدغن لگائی کہ وہ راجپوت قوم کے افسروں کی تعداد کم رکھے۔ اسے ممبر پبلک سروس کمیشن مرحوم الطاف کیانی کی تعیناتی پر بھی اعتراض تھا۔ جنرل انور جب تک عہدہ صدارت پر قائم رہا مرحوم الطاف کیانی کی مخالفت جاری رکھی۔ ایک راجپوت ڈاکٹر کی محکمہ جیل خانہ جات میں تعیناتی پر انور خان کا خون کھول اٹھا اور ڈاکٹر کو انٹرویو کے لئے طلب کرلیا۔ صدر محترم نے ڈاکٹر سے پوچھا کہ تم کس قبیلے سے تعلق رکھتے ہو تو ڈاکٹر نے جواب دیا کہ گجر قبیلے سے۔ صدر ریاست کو کچھ پریشانی لاحق ہوئی تو قریب بیٹھے صدارتی مشیر میجر ریٹائیرڈ حفیظ نے ڈاکٹر کے جواب کی تصدیق تو کردی مگر شرمندگی بھی اٹھانا پڑی۔ میجر حفیظ کا تعلق بھی گجر قبیلے ہی سے ہے مگر ڈاکٹر ضلع بھمبھر کی چب راجپوت برادری سے تھا۔ حقیقت یہ تھی کہ ڈاکٹر کی بیگم میجر حفیظ کی بھانجی اور آزادکشمیر کے مرحوم نائب صدر جناب غلام احمد رضا کی بیٹی تھی۔ جنرل انور کو کئی بار اس طرح کی شرمندگیوں کا سامنا ہوا مگر موصوف اپنی بدنیتی اور لالچ سے باز نہ آئے۔ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائیرڈ عبدالقیوم نے اپنے ایک کالم میں لکھا کہ ایکس سروس مین کے ایک اجلاس میں جنرل انور تشریف لائے اور جب مشرف کے کرتوتوں پر بات چلی تو خاموشی سے اٹھ کر چلے گئے۔ بیٹھتے بھی کیسے وہ خود بھی مشرف کے مرید خاص اور اس کے مشن کو آگے بڑھانے والوں میں سے تھے۔

جنرل انور نے میرپور اور کوٹلی میں پھیلی برادری ازم کی بیماری سے بھی بھرپور فائدہ اٹھایا اور ایک ٹن وزیر کو اپنی سرپرستی میں لے لیا۔ وزیر نے راجپوت برادری کے ایک قدیم قبرستان پر جو برلب سڑک تھا کو بلڈوز کرکے وہاں پٹرول پمپ اور پلازہ تعمیر کرنے کا ارادہ کیا تو جنرل انور قبریں اکھاڑنے والے وزیر کی حمائت پر بھی اترآیا۔ اسی قبرستان میں کارگل میں شہید ہونے والے افسر کیپٹن راجہ جاوید اقبال تمغہ بسالت کی قبر بھی ہے جسے ہٹانا وزیر کے لئے ضروری تھا۔ جنرل انور جو فوج میں رہتے ہوئے تو دشمن کے کسی مورچے کو فتح نہ کرسکا اپنے ہی ملک میں قبرستان مسمار کرنے اور شہیدوں کی قبریں اکھاڑنے کا منصوبہ بنانے لگا۔ جنرل انور اور ٹن وزیر کے حکم پر ایس پی کوٹلی نے رات کے اندھیرے میں شہید کیپٹن کی قبر کشائی کا منصوبہ بنایا تاکہ شہید کو کسی دوسرے قبرستان میں منتقل کرکے ٹن وزیر کی خواہش کی تکمیل کی جاسکے۔ اس بات کی خبر کسی ذریعے سے دسویں کور کے کمانڈر جنرل محمود کو ہوئی تو ایس پی کو فوراً او ایس ڈی بنادیا گیا اور اسے برطرف کرنے کیلئے انکوائیری شروع ہوگئی۔ جنرل انور نے آزادکشمیر کے عوام کو تقسیم کرنے، نفرتیں پھیلانے اور اداروں کو تباہ کرنے میں اہم رول ادا کیا تاکہ آزاد کشمیر کے عوام کبھی کسی پلیٹ فارم پر یکجا ہوکر تحریک آزادی کشمیر کے لئے مشترکہ آواز نہ اٹھا سکیں۔ جنرل انور ہی کے دور میں مشرف کی بیک ڈور ڈپلومیسی اور پندرہ آپشن سامنے آئے جنہیں جنرل انور اور سردار عتیق کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ جنرل انور بحیثیت صدر کشمیر کونسل کا وائس چیرمین بھی تھا جس کے دور میں کشمیر کونسل کے ڈپٹی سیکرٹری نے ایک اشتہار کے ذریعے کونسل میں کنسلٹنٹ تعینات کرنے کا اعلان کیا تاکہ کشمیر کونسل میں ایک سٹڈی گروپ تشکیل دیا جائے جو آزادکشمیر اور شمالی علاقہ جات پر جامع رپورٹ تیار کرے اور آزادکشمیر کے آئین اور الحاق پاکستان کی قرارداد کو از سرنو تشکیل دینے کی سفارشات مرتب کرے۔ کنسلٹنسی کا یہ اشتہار وزیر امور کشمیر و شمالی علاقہ جات مخدوم فیصل صالح حیات کی سفارش پر شائع ہوا جسے آزادکشمیر کی سبھی سیاسی جماعتوں اور اہل فکر نے نہ صرف رد کیا بلکہ شدید غم و غصے کا اظہار بھی کیا۔

یہ اشتہار بھی مشرف کی کشمیر پالیسی کا حصہ تھا تاکہ شمالی علاقوں کو کشمیر سے الگ کیا جائے اور مسئلہ کشمیر کو کمزور کرکے آپسی راج قائم کیا جائے۔ اس اشتہار کی اشاعت کے بعد سارے آزادکشمیر میں ہلچل مچ گئی مگر صدر ریاست جو خود اس سازش کا حصہ تھا کے کان پرجوں تک نہ رینگی۔ کنسلٹنسی کے اس اشتہار نے پاکستانی حکمران طبقے اور خاص کر کشمیر سے پیچھا چھڑانے والے سیاستدانوں، صحافیوں، دانشوروں اور نوکر شاہی کو احساس دلایا کہ جب تک مسلم کانفرنس مضبوط رہے گی وہ مسئلہ کشمیر پر سودے بازی میں نا کام رہیں گے۔ بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کی تحریک آزادی سے وابستگی کلبوں، ہوٹلوں، شراب خانوں اور ضیافتوں تک محدود رہی ہے اور وہ اس مسئلے کو انہی فورموں پر حل کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے نزدیک کسی غیر ملکی سفیر کی رہائش گاہ پر چسکی لگانا اور دعوت اڑانا مسئلہ کشمیر کے حل کی طرف ایک قدم کامیابی ہے۔ آپ کے بیرون ملک جلسوں میں ایک ہی گروپ نظر آتا ہے۔ جو لوگ لندن، برمنگھم اور برطانیہ کے دیگر شہروں میں جلوہ افروز ہوتے ہیں وہی پیرس اور میڈرڈ تک بھی پہنچ جاتے ہیں۔ ایسا ہی ایک جلسہ ٹروپے امریکہ میں بھی دستیاب ہے جن کے بکنگ ایجنٹ راولپنڈی، سیالکوٹ، گوجرانوالہ اور گجرات میں بیٹھتے ہیں۔

بیرسٹر سلطان کی فطری کمزوریوں سے پاکستان کی اشرافیہ، سیاسی جنتا اور انٹیلی جنس کے ادارے بخوبی واقف ہیں اور موم کے پتلے کی طرح انہیں اپنے مقصد اور مطلب کے لئے استعمال کرتے رہتے ہیں۔ آزادکشمیر کی سیاست میں اصول و ضابطے اور اخلاقیات کی پاسداری کرنے والا ایک ہی لیڈر سردار خالد ابراہیم ہے مگر پاؤنڈ اور ڈالر مافیا نے اس با اصول اور بے لوث لیڈر کی آواز دبا رکھی ہے۔ سدھن قبیلہ بھی اب جیالوں اور متوالوں میں تقسیم ہوچکا ہے جنہیں ایک مرد مجاہد اوربا اصول سیاستدان کی ضرورت نہیں رہی۔یہ قبیلہ بھی دیگر قبلیوں اور برادریوں کی طرح اپنے شہیدوں کے خون اور قبروں کی نشانات کوبھول کر گڑھی خدابخش بھٹو، رائے ونڈ جاگیر اور زرداری ہاؤس سے امیدیں وابستہ کرچکا ہے۔

کنسلٹنسی کے اشتہار پر آزادکشمیر کے عوام اور سیاستدانوں نے جس یکجہتی کا مظاہرہ کیا اسے منتشر کرنے کے لئے ضروری تھا کہ مسلم کانفرنس میں دراڑیں ڈالی جائیں چونکہ یہ واحد سیاسی جماعت تھی جس سے وابستہ افراد جنگ آزادی کے سپاہی رہے اور جن کے بزرگوں نے اس مٹی کی حفاظت کے لئے اپنا خون نچھاور کیا۔ مسلم کانفرنس کا سیاسی ڈسپلن اور اخلاقی اقدار تقسیم کشمیر کے فارمولے پر کام کرنے والوں کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھا۔ بیک ڈور ڈپلومیسی کے ڈیلر سکندر حیات، فاروق حیدر، شاہ غلام قادر اور چوہدری یوسف جیسے مسلم کانفرنسیوں کا نفسیاتی تجزیہ کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ ان لوگوں کے ذریعے مسلم کانفرنس کا انتشار اور تقسیم ممکن نہیں۔ بیرسٹر سلطان کی طرح سردار عتیق بھی بہت سی خوبیوں کے مالک ہیں جس بنا پر ان سے ہی کام لیا گیا اور مسلم کانفرنس کا صدیوں پراناتحاد اور ڈسپلن ختم کرکے نون لیگ بنا ڈالی۔ گو کہ نون لیگ کے مالک میاں نواز شریف اور وارث ان کے بچے اور بھتیجے ہیں مگر تقسیم کشمیر کی کسی چال میں وہ سکندر حیات، فاروق حیدر اورشاہ غلام قادر کو استعمال نہیں کرسکیں گے۔

سردار عتیق کی خفیہ چالوں کی فہرست طویل ہے۔ اپنی وزارت عظمیٰ کے دور میں موصوف نے پشاور کا دورہ کیا اور حیات آباد کے فیز سیون سے قبائلی لشکر کی حفاظت میں پیدل علاقہ غیر کی بستی شاہ کس میں داخل ہوئے۔ بظاہر آپ کا مقصد ایک درویش صفت مجاہد اور روحانی شخصیت سے ملاقات کرنا تھا مگر جمرود باڑہ روڈ عبور کرتے ہی آپ درویش کے آستانے پر جانے کے بجائے ایک ارب پتی آفریدی تاجر کے چار کلومیٹر پر پھیلے قلعے میں داخل ہوگئے جس کا انتظام آپ کے سیکرٹری چوہدری منیر نے پہلے سے ہی کررکھا تھا۔ اسی قلعے میں آپ نے چند منٹ روحانی شخصیت کے ساتھ بھی گزارے اور باقی وقت قبائلی سرداروں سے گفتگو اور طعام خوری میں گزارہ۔ اس خفیہ اور پیدل دورے کی خاص بات یہ ہے کہ آزادکشمیر کے وزیراعظم کی آفریدی قلعے سے روانگی کے فوراً بعد طالبان نے ارب پتی آفریدی تاجر کو اغوا کرلیا اور کئی ماہ بعد کر وڑوں روپیہ لیکر رہا کیا۔ اس دورے کے کچھ ہی روز بعد سردار عتیق کی وزارت عظمیٰ بھی چلی گئی اور مسلم کانفرنس کا بھی قصہ تمام ہوگیا۔

سوال یہ ہے کہ سردار عتیق نے روحانی شخصیت سے ملاقات کا بہانہ بنا کر قبائلی علاقے میں جانے کا رسک کیوں لیا۔ وہ روحانی شخصیت کے آستانے پر جہاں ان کے لئے کھانے کا بندوبست بھی ہوچکا تھا کا راستہ چھوڑ کر قبائلی سردار جس کا کاروبار یورپ، مڈل ایسٹ اور فارایسٹ تک پھیلا ہوا ہے کے قلعے کی طرف کیوں چلے گئے۔ اس وسیع و عریض قلعے میں وہ کس کس سے ملے اور کیا سودے بازی ہوئی، قبائلی سردار پر حملہ اور اغوا کا واقعہ کیوں ہوا اور عتیق حکومت کیوں گری یا گرائی گئی ؟ اس کا جواب آزادکشمیر کے نیم خوابیدہ عوام کو لینا چاہئے کہ ان کے لیڈر ان کا برائے فروخت اشتہار لے کر اسلام آباد، دہلی، کراچی، لاہور سرینگر اور دبئی تک کیوں پھر رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سیاسی ڈیلر اور بروکر اپنی ذہنیت اور انسانی مادی کمزوریوں کی بنا پر ملکی اور غیر ملکی سطح پر بلیک میل ہوچکے ہیں اور ان کا ضمیر مردہ ہوچکا ہے۔ آزادکشمیر کے عوام اور مقبوضہ کشمیر کی سیاسی قیادت کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ ان مردہ ضمیر قبرفروشوں پر تکیہ کرینگے یا پھر ایک صحیح، سچی اور صالح قیادت کو سامنے لائینگے۔تاریخ گواہ ہے کہ آزادی کلبوں، پبوں اور اغیار کی ضیافتوں میں جام لٹانے سے نہیں ملتی۔ آزادی قبروں کے شہر اور شہیدوں کا لہو مانگتی ہے۔ آزادی قبر فروشوں اور لہو کے بیوپاریوں کا بزنس نہیں۔ آزادی باہمت اور باغیرت مردوں کی بے لوث قربانیوں کا ثمر ہے۔ آزادی قوموں اور قبیلوں کے اتحاد اور ہم آہنگی سے نصیب ہوتی ہے نہ کہ تعصب، نفرت اور کرپشن کی بیج بونے سے۔

کشمیری عوام کی بدقسمتی ہے کہ آج ساری قوم برادری ازم اور علاقا ئی تعصب کے دلدل میں دھنس چکی ہے۔ دہلی اور اسلام آباد نے کرپٹ اور بے ضمیر ٹولے کو قائدین کی صورت میں کنڑول لائن کے دونوں جانب کشمیریوں پر مسلط کررکھا ہے او رایک مدہوش قوم ان نام نہاد قائدین کے اشاروں پر ناچ رہی ہے۔ وہ سرزمین جس کی حرمت اور آزادی کی تاریخ نائیک سیف علی جنجوعہ شہید ہلال کشمیر اور کیپٹن حسین خان شہید سمیت لاکھوں شہیدوں نے رقم کی آج کرپٹ قائدین اور اغیار کے ایجنٹوں کے ہاتھوں یرغمال ہے۔ تین سوسال پہلے ڈوگروں نے ایمن آباد(گوجرانوالہ) کے برہمنوں سے قرض لے کر پچھتر لاکھ نانک شاہی کے عوض کشمیر کا سودا کیا جن کے چنگل سے نکلنے کے لیے لاکھوں کشمیریوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ تین صدیوں بعد پاؤنڈ اور ڈالر مافیاگلاب سنگھ کا جانشین بنا اور کروڑوں پاؤنڈ اور ڈالرذرداری ہاؤس کی چوکھٹ پر رکھ کر الیکشن اور جمہوریت کے نام پر چالیس لاکھ کشمیریوں کی حرمت اور آزادی کا سودا کیا۔ دیکھنا یہ ہے کہ آزادکشمیر کے عوام نام نہاد جمہوریت کے نشے اور برادری ازم کے فریب میں مبتلا رہتے ہیں یا جمہوریت کی آڑ میں شہیدوں کی قبروں کا سودا کرنے والے گھناؤنے چہروں سے نقاب الٹنے کی ہمت رکھتے ہیں؟؟؟
ختم شد
Anwaar Raja
About the Author: Anwaar Raja Read More Articles by Anwaar Raja: 71 Articles with 76556 views Anwaar Ayub Raja is a professional Broadcaster, voice over artist and linguist for Urdu and Mirpuri languages. Soon after graduating from University o.. View More