گذشتہ روز لاہور میں کھانسی کا
سیرپ پینے سے درجنوں ہلاکتیں ہوئی اورابھی ان ہلاک ہونے والوں کی قبروں کی
مٹی خشک بھی نہیں ہوئی کہ دسمبر کے آخری دنوں میں ایک بار پھر وہی کھانسی
کا شربت پینے سے ٹوبہ ٹیک سنگھ اورگوجرانوالہ میں مزید افراد ہلاک ہوگئے
گوجرانوالہ میں ایک روز ہی21 متاثرہ افراد کو ہسپتال میں علاج کیلئے لایا
گیا جن میںسے 17افراد جان سے گئے جبکہ پاکستان کے سرکاری ہسپتالوں میں تو
پہلے ہی حالت یہ ہے کہ مریضوں کے ساتھ دشمنوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے ان
سرکاری ہسپتالوں میں آنے والے مریضوں کا بچ نکلنابھی انہی کی ہمت ہے ورنہ
تو یہاں کے ہسپتالوں میں ڈکٹیٹرشپ قائم ہے اور سب سے بڑھ کر سرکاری
ہسپتالوں کے شعبہ ایل پی (لوکل پرچیز )میں بھی لوٹ مار کا سما ہے ایک کلرک
سے لیکر میڈیکل سٹور اور پھر اوپر تک سب ہی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے
ہیں مستحقین کیلیے دوائی برائے نام جبکہ اپنوں کیلیئے ہرادائے بے نیاز اس
کے ساتھ ساتھ کمیشن مافیا نے اپنے پنجے یہاں بھی گاڑرکھے ہیں ایسی ایسی
ادویات جو عام مارکیٹ میں سستے داموں ستیاب ہیں مگر وہی دوائی جب ہسپتال
خریدتا ہے تو کئی گنا زیادہ قیمت پر جسکا سب کو علم ہونے کے باوجودبھی
خاموشی کا سماں ہے اس لیے تو گذشتہ روزکرپشن کی جو رپورٹ سامنے آئی ہے اس
سے پتا چلتا ہے کہ پاکستان کا کوئی بھی محکمہ اس لوٹ مار سے پیچھے نہیں ہے
جبکہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں سالانہ پانچ ہزار ارب روپے
کی کرپشن کی جا رہی ہے تقریباً 13 ارب کی ہر روز کرپشن ہو رہی ہے آج ہر
پاکستانی بڑاہو چھوٹاہو بوڈھا ہو جوان ہو بچہ ہو پاکستان میںرہتاہو یا
بیرون ملک میں رہتا ہو 70ہزار فی کس کے حساب سے قومی قرضے میں ڈوبا ہو
اہے۔میاںمحمدنواز شریف کے سابقہ دور میں ملکی قرضہ39بلین ڈالر تھا جو آج
بڑھا کر 62بلین ڈالر ہو گیا ہے۔GTPجی ٹی پی گروتھ 3.1پرسن تھی آج 2پرسن ہو
گی ہے۔ کرپشن پر قابو پانے کی بجائے حکومت اور اس کی اتحادی آئندہ الیکشن
میںجیتنے کے لیے اپنے ساتھیوں کو ہر طرح کی کرپشن کرنے کی کھلی چھٹی اور
لامحدود اختیارات دے رکھے ہیں۔بے نظیر بھٹو کے قتل کو پانچ سال بیت گئے
ہیں۔تحقیقات کے نام پرقومی خزانے سے اربوں روپے کی خطیر رقم خرچ کرنے کے
باوجود بھی کیس اپنے منطقی انجام کو نہیں پہنچ سکا۔ بے نظیر قتل کیس کے
پانچ سال کا جائزہ لیا جائے تو صرف دو ہی کار نامے نظر آتے ہیں سابق صدر
پرویز مشرف کی بطور ملزم نامزدگی اور دو پولیس افسران سمیت سات ملزمان کی
گرفتاری اقوام متحدہ سے بھی معاملے کی چھان بین کروائی گئی لیکن وہ بھی بے
نتیجہ رہیں۔فروری دو ہزار گیار ہ کو ایف آئی نے چالان میں پرویز مشرف کو
ملزمان کی فہرست میںشامل کر کے عدالت سے گرفتاری کی درخواست کی تاہم انٹر
پول نے ان کے وارنٹس کو سیا سی قراردے کر تعمیل سے انکار کر دیا ۔بے نظیر
کیس میں ابتک پانچ ملزمان گرفتار ہو ئے ۔بیت اللہ محسود سمیت چھ ملزمان
مارے جا چکے اور سترہ شہادتیں قلمبند ہوئی ہیں۔ ملزمان کے وکیل خرم قریشی
کا کہنا ہے کہ ابھی تک تحقیقات مکمل نہیں ہوئی ٹرائل کیسے مکمل ہو سکتا
ہے۔بے نظیر کے قاتل کون ہیں اور اس کیس کے اصل محرکات کیا ہیں ان سوالوں کا
جواب پانچ سال میں بھی نہیں مل سکا ۔آئندہ الیکشن میں پاکستان پیپلز پارٹی
کو شہید بے نظیربھٹو کی وجہ سے ووٹ نہیں ملیں گے کیوں کے پچھلے پا نچ سالہ
دور میں روٹی ،کپڑا ،مکان کے کھوکھلے نعروں سے عوام کو بے وقوف بنانے کے
علاوہ کچھ نہیں کیا۔کھر بوں روپے کی تاریخ ساز کرپشن کر کے قومی خزانے کو
ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ملکی معیشت کو مفلوج بنا کر غریب عوام کو
مہنگائی ،لوڈ شیڈنگ ،لوٹ کھسوٹ،بے روزگاری ،غربت و افلاس ،بدا منی ،کرپشن
جیسے تحفوں سے نوازا ۔حکمرانوں کی ناقص پالیسوںکی وجہ سے آج پاکستان کرپشن
میں 33نمبر پر آگیا ہے۔یہ کرپشن دیمک کی طرح ملک کی ترقی ،معیشت اور
جمہوریت کو کھوکھلا کرتی جا رہی ہے یہ سب سیاسی جماعتوں میںموجود کرپٹ
سیاست دانوں کی وجہ سے ہے جو پارٹیاں بدل کر اپنے آپ کو احتساب سے بچانے کے
لیے ہمیشہ اقتدار کی حامل جماعت میں ہی رہتے ہیں۔کرپٹ مافیا اپنے اثر و
رسوخ کے باعث پاکستان کی ہر برسر اقتدار پارٹی کی مجبوری بن جاتا ہے جس سے
سماجی برائیاں عام ہوتی ہیں ،جمہوریت غیر مستحکم ہوتی ہے اور معیشت سست روی
کا شکار ہو جاتی ہے ان سب حقیقتوں کو دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ
پاکستان میں ہر طرف لوٹ مار کا کھیل اب کھل کر کھیلا جارہا ہے- |