پاکستان عوامی تحریک اورتحریک
منہاج القرآن کے سربراہ علامہ طاہرالقادری صاحب جوپاکستان اور بیرون ممالک
میں اپنا ایک وسیع نیٹ ورک منہاج القرآن کے نام سے قائم کئے ہوئے ہیں نے
گزشتہ دنوں طویل عرصہ بعد کینڈا سے واپسی پرمینارپاکستان کے سائے تلے ایک
کامیاب شو کا مظاہرہ کیا ہے اور یہ کہ اس جلسے کو پاکستان کی تاریخ کا ایک
بڑا جلسہ قراردیا جائے تو یہ غلط نہیں ہوگااور اس بات میں بھی کوئی دورائے
نہیں کہ 23دسمبر کو ایک جمِ غفیر کے سامنے وہ جن زریں خیالات اورموجودہ
سیاسی سٹم کے حوالے سے جن خدشات کا اظہار بڑی دردمندی سے فرما رہے تھے وہ
بھی بے جا نہیں ہیں بیشک موجودہ سیاسی سسٹم صرف اورصرف امیروں اورامیرزادوں
کو ہی تحفظ فراہم کرتا ہے یہاں قیام پاکستان کے بعد سے ہی چند مخصوص
خاندانوں اور ایک خاص طبقے کا راج ہے جو نسل درنسل جمہوریت کے نام پر جاری
اس ڈرامے کے کردار ہیں جس کے کریکٹرز کا انتخا ب قصرِسفید سے ہوتا ہے لہٰذا
اس جابرانہ اوراستحصالی نظام کے خلاف علم بغاوت وقت کا اہم تقاضا ہے لیکن
شیخ الاسلام نے جس وقت اور جو مطالبہ کیا ہے یہ دونوں چیزیں بہت اہمیت
رکھتی ہیں لیکن اس سے پہلے اگر شیخ الاسلام کے ماضی پر اگر سرسری سی نظرڈال
لی جائے تو ہمیں ان دونوں چیزوں کا شافی جواب مل جائے گا ۔شریف فیملی کی
قائم کردہ اتفاق مسجد میں بطورامام مسجد تعیناتی سے اُن کی شہرت کا آغاز
ہوتا ہے جہاں اُن کے فن خطابت کے گرویدہ میاں نوازشریف نے انہیں خوب نوازا
اورانہیں بے انتہا پروٹوکول اور ہر طرح کی مراعات اورسہولیات عطا کیں اور
جب جناب علامہ طاہرالقادری نے منہاج القرآن کی بنیاد رکھی تو شریف فیملی نے
یہاں بھی ان کی بھرپور مدد کی اور انہیں اس کارخیر کیلئے وسیع و عریض رقبہ
فراہم کیا منہاج القرآن کے اس نیٹ ورک نے خوب ترقی کی اورپاکستان کے علاوہ
دوسرے ممالک میں بھی اس کی شاخیں نہائت نظم و ضبط سے کام کررہی ہیں جس کی
بہرحال تحسین کی جانی چاہئے لیکن جہاں تک ان کی ذاتی شخصیت کا تعلق ہے تو
وہ سراپاتضادات نظرآتی ہے کبھی وہ اپنے جھوٹے خوابوں کے باعث'' خوابوں کا
شہزادہ'' کا لقب پاتے ہیں تو کبھی مُردوں سے ہمکلام ہونے کاڈھونگ رچاتے
ہیں،کبھی امت مسلمہ کو توحید کا درس دیتے نظرآتے ہیں تو کبھی کرسمس کے موقع
پر ولادت مسیح کا کیک کاٹنے میںبھی حرج محسوس نہیں کرتے کبھی ایک ڈکٹیٹر کے
ریفرنڈم کی بھرپور حمائت کرتے ہیں تو کبھی موقع کی مناسبت سے آمروں کا
راستہ روکنے کیلئے ہراول دستہ بننے کا اعلان بھی فرما دیتے ہیں،کبھی توہین
رسالت قانون کا کریڈٹ لینے کی کوشش کرتے ہیں اور کبھی اس سے لا تعلقی کا
اظہارکرنے کیساتھ یہ بھی فرماتے ہیں کہ توہین رسالت کا قانون صرف مسلمانوں
پر عائد ہوتا ہے غیرمسلم اس قانون سے مبرا ہیں ،ایک طرف وہ دشیخ الاسلام کا
لاحقہ اپنے نام کیساتھ جوڑے ہوئے ہیں تو دوسری جانب لاکھوں مسلمانوں کے
سامنے وہ اذان ونماز جیسے بنیادی رکن دین کا بھی احترام نہیں کرتے۔علامہ
طاہرالقادری صاحب ماضی میں سیاسی حوالے سے کوئی شاندارریکارڈ نہیں رکھتے کہ
بڑی محنت و مشقت کے بعدوہ اپنی پاکستان عوامی تحریک کے پلیٹ فارم سے اپنی
اکلوتی سیٹ حاصل کرسکے اب کی بار انہوں نے اگرچہ لاہور میں آتے ہی یہ اعلان
کردیا ہے کہ وہ الیکشن میں حصہ نہیں لیں گے جو کہ وہ لے بھی نہیں سکتے کہ
ان کی دوہری شہریت اس راہ میں خود ہی رکاوٹ ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ
انہوں نے فرمایا کہ وہ اس نظام کو ہرگز نہیں مانتے پہلے لٹیروںکااحتساب کیا
جائے پھرانتخابات کا اعلان کیا جائے لیکن جب ایک موقع پراُن سے پوچھا گیا
کہ اگر انہیں نگران وزیراعظم کی پیشکش کی گئی تو کیا وہ اس کو قبول کرلیں
گے تو علامہ صاحب نے بلاتوقف کہاکہ وہ یہ عہدہ چیلنج سمجھ کر قبول کرلیں گے
۔سبحان اللہ کوئی اُن سے پوچھے کہ اگر وہ اس نظام کو نہیں مانتے تو وہ کس
نظام کے تحت نگران وزیرِ اعظم بنیں گے ؟اگراُن کی اس خواہش کیساتھ آئین کی
دفعہ154کو بھی ملا لیا جائے جس کا انہوں نے اپنے 23دسمبر کے معرکةالآرا
خطاب میں باربار حوالہ دیا ہے تو صورت حال مزید واضح ہوجاتی ہے کہ قادری
صاحب ریاست نہیں سیاست بچاو ¿کے نام پراپنی سیاست چمکانے کا خواب دیکھ رہے
ہیں جس کی تعبیر دوردور تک نظرنہیں آرہی اوریہ بھی کوئی بعید نہیں کہ اگر
ان کی پارٹی کو الیکشن میں چند سیٹوں کی یقین دہانی کروادی گئی (جس کا قوی
امکان بھی ہے)تو ان کے انتخاب سے پہلے احتساب اورسیاست نہیں ریاست بچاو ¿
کے نعرے یوں غائب ہوجائیں گے جیسے گدھے کے سر سے سینگ ویسے بھی ایسا کرنا
پیپلزپارٹی کیلئے اس لئے بھی سودمند ثابت ہوگا کہ قادری صاحب کی صورت میں
پیپلزپارٹی مخالف جماعتوں میں ایک اورکا اضافہ ہوجائے گا اورقوم باربار یہ
دیکھ چکی ہے بلکہ بھگت چکی ہے کہ پیپلزپارٹی کی مخالف جماعتیں جتنی زیادہ
ہوئیں یا انتشارکا شکارہوئیں اتنا ہی پیپلزپارٹی کو فائدہ ہو ا اور اس بار
بھی ایسا ہی نظرآرہاہے اوروہ لوگ جو شیخ الاسلام کو اپنا نجات دہندہ سمجھ
بیٹھے ہیں انہیں جلد ہی احسا س ہوجائے گا کہ
ع ہیں کواکب کچھ نظرآتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا |