واہ رے ! ایس ایم ایس

انسان نے یوں تو بہت مختصر عرصہ میں اپنی سہولت کی خا طراَن گنت چیزیں ایجاد کی ہیںمگر بعض چیزیں ایسی بھی ہیں جو بظا ہر بہت معمو لی نظر آتی ہیں لیکن انسانی زندگی میں ان کا کردار یا استعمال بہت زیادہ ہے ۔ایس ایم ایس یعنی شارٹ میسیج(SMS)انہی میں سے ایک ہے۔

مجھے کل کی بات لگتی ہے کہ جب ہمیں کسی کو بہت ضروری اور فو ری ٹیکسٹ میسیج بھیجنا پڑتا تھاتو ہم اسےبذریعہ ٹیلی ٹیلیگراف بھیجا کرتے تھے جسے عرفِ عام میں تار کہا جاتا تھا اور یہ ایک مہنگا ذر یعہ تر سیل تھا۔

ایس ایم ایس نے اب اس کی جگہ لے لی ہے جو تار کے مقابلہ میں بہت ذیادہ آسان اور سستا بھی ہے۔

اگر چہ یہ کو ئی بھی بتا نہیں سکتا کہ اس عجیب و غریب سروس کا بانی کو ن ہے؟ مگر اتنا ہمیں پتہ ہے کہ 1980کے اوا ئل میں کمیو نیکشن کے ذ مہ داروں کے ذہن میں ٹیکسٹ کے ذریعے پیغام رسانی کا  خیال آیا۔ 1985 میں جی ایس ایم کے ٹیلی سروسز کے ٹیبل پر پہلا ٹیکسٹ میسیج نمو دار ہوا۔اورر پہلا  تجارتی میسیج 3 دسمبر 1992 کو بر طانیہ میں ارسال کیا گیا۔آ ہستہ آ ہستہ اسے اتنا فروغ حا صل ہوا کہ اس وقت دنیا میں سالانہ بیس ارب سے زیا دہ ایس ایم ایس ایک دوسرے کو بھیجے جاتے ہیں۔

صارفین کا اگر چہ اس پر بہت معمولی خر چہ آ تا ہے مگر در حقیقت یہ کرو ڑوں روپے کا کا روبار ہے اور مو بائل کمپنیاں صرف ایس ایم ایس کی مد میں اربوں روپے کما رہی ہیں۔

یہ سروس نو جوانوں میں بہت ذیادہ مقبول ہے کیونکہ ایک تو یہ انتہا ئی سستا ذ ریعہ ترسیل ہے۔ جو بات کسی کو سامنے نہیں کہی جا سکتی وہ اس کے ذریعے آ سانی سے مطلو بہ فرد تک پہنچائی جاسکتی ہے۔یہ سروس بعض ا وقات تو بڑے بڑ ے کھیل بھی دکھاتا ہے۔اس کی مقبو لیت ایک نئی زبان کو جنم دینے والی ہے۔

چو نکہ اس میں بڑے پیغامات کی گنجا ئش نہیں ہو تی،اس لئے اس میں مخفف یعنی Abrevationکا استعمال زیا دہ ہو تا ہے۔الفاظ کی جگہ ہندسے استعمال ہو نے لگے ہیں۔الفاظ کو بھی مختصر کر کے استعمال کیا جا نے لگا ہے۔ مثلا for کی جگہ 4 ، Your کی جگہ ur اور you کی جگہ u وغیرہ ۔

اس کے لکھنے میں بھی آ سانی ہے اور لوگ اس زبان کو آ سانی سے سمجھ بھی لیتے ہیں۔اس لئے ممکن ہے کی اس چھو ٹی سی ایجا د کی بطن سے ایک نئی زبان جنم لے لے۔

معا شرے پر اس کے بڑے دلچسپ اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔کچھ لوگ اسے تفریح کے طور پر استعمال کر تے ہیں ۔بعض لوگ اپنی محبت کے اظہار کے لئے اس کا سہا را لیتے ہیں۔دوست احباب عید کے مو قعہ پر خصو صا محبت بھرے جذ با ت کا اظہار بھی ایس ایم ایس کے ذریعے ہی کرتے ہیں۔پسندیدہ اشعار،اقوالِ زریں اور ضرب ا لامثال وغیرہ کا تبا دلہ بھی اسی کے ذ ریعے کیا جاتا ہے۔البتہ جس طرح محبت بھرے جذ بات کا اظہار اس ذریعہ ترسیل سے سے کیا جاتا ہے۔اسی طرح نفرت بھرے جذبات کا اظہار بھی ایس ایم ایس کے ذ ریعے کیا جانے لگا ہے۔ آ ج کل چو نکہ ہر شخص حکو مت سے نا لا ں ہے ،بد امنی، کرپشن، بے روزگاری اور مہنگائی نے ہر شخص کے ناک میں دم کر رکھا ہے۔اس لئے اپنی بڑاس نکا لنے کے لئے بھی ایس ایم ایس کا استعمال کیا جانے لگا ہے۔بلکہ بعض اوقات تو اس قسم کے پیغا ما ت کی ترسیل اتنی بڑھ جا تی ہے کہ ہمارے صدرِ محترم زرداری صاحب اور اس کے دستِ راست رحمن ملک صاحب گھبرا جاتے ہیں اور اس کی بندش پر غور کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔

طلباءحضرات بھی اس سروس سے مستفید ہو نے کی کو شش کرتے ہیں اور اس سروس کو بروئے کا ر لا تے ہوئے نقل کرنے کی کو شش کرتے ہیں۔کو ئی فا ئدہ اٹھا لیتا ہے اور کو ئی گھاٹے میں رہ جا تا ہے۔

الغرض یہ ، بظا ہر معمو لی آنے والی چیز، نہایت انوکھی،عجیب و غریب اورکما ل کی چیز ہے۔اسی لئے تو میں نے آج اپنے کالم کا عنوان ” واہ رے! ایس ایم ایس“ رکھا ہے۔کیونکہ واقعی یہ کمال کی چیز ہے،۔ مگر یہ کما ل کی چیز ”آج “ کی ہے۔ آ نے والا ”کل“ ہمیں کیا دے گا، اس کے لئے انتظار فر مائیے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
roshan khattak
About the Author: roshan khattak Read More Articles by roshan khattak: 300 Articles with 315597 views I was born in distt Karak KPk village Deli Mela on 05 Apr 1949.Passed Matric from GHS Sabirabad Karak.then passed M A (Urdu) and B.Ed from University.. View More