تحفظ کی خاطر روپ بدلتے اوربہروپ
سجاتے جانور
تحفظ کا احساس ہر زی روح کی زندگی کا سب سے اہم اور لازمی عنصر ہے عدم تحفظ
کا شکار چاہیے کوئی فردواحد ہویا کوئی قوم ہو عموما زندگی کی دوڑ میں پیچھے
رہ جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ لاکھوں سال قبل انسان جب جنگلوں اور بیابانوں
میں اپنی تمدنی زندگی کا آغاز کررہاتواس کا مقابلہ ہیبت ناک درندوں سے تھا
ایسے درندے جو پل بھر میں اپنی قوت سے ہر شے کو چیرپھاڑنے پر قادر تھے یہ
وہ تاریک زمانہ او ر سفاک ماحول تھا جب ہر جاندار صرف طاقت کی بنیاد پر ہی
جینے کا حق رکھتا تھا جہاں مقابلہ کرنے سے زیادہ بچاؤ اہم تھا ایسے میں
انسانوں نے تو اپنی زہانت کے بل بوتے پر ہتھیار تشکیل دینے شروع کر دئے
اوراپنی بقاء کا سامان پیدا کرلیا لیکن وہ جاندار جو فلک بوس پہاڑوں، عمیق
سمندروں، وسیع صحراؤں اور برفانی ٹیلوں کے باسی تھے اور ہتھیار بنانے سے
قاصر تھے حالات کی ستم ظریفی کا سب سے زیادہ شکار تھے لیکن جیسا کہ کہا
جاتا ہے کہ زندہ رہنے کی خواہش ہی موت کے خلاف سب بڑا ہتھیار ہے چناچہ رفتہ
رفتہ ان جانداروں نے جن میں رینگنے والے کیڑوں سے لے کر گوشت خور جانور تک
سبھی شامل تھے فطرت کے رنگوں اور راستوں پر چلتے ہوئے اپنی جنگ لڑنا شروع
کردی دوسرے معنوں میں طاقت اور زہانت کی جنگ شروع ہوچکی تھی فطرت اور زہانت
کے حسین امتزاج کے زریعے لڑی جانے والی اس جنگ کا سب سے اہم ہتھیار
کیموفلاج Camoulfage تھا جس کا سامان قدرت نے چار سو پھیلا رکھا ہے ۔
کیمو فلاج یا شناخت چھپانے کا عمل دراصل فطرت کی دی ہوئی بھول بھلیوں میں
خود کو اختیاری یا غیر اختیاری طور پر سمونے کا نام ہے جس کا جا بہ جا
اظہار ہمیں جنگلی اور آبی حیات میں نظر آتا ہے دشمنوں کی نظروں سے خود کو
پوشیدہ رکھنا ہو یا پھر شکار پر جھپٹنا مقصود ہودونوں صورتوں میں اکثر
جانورایسی حکمت عملی تشکیل دیتے ہیں جس کا دارومدار شکار گاہ کے فطری ماحول
اور رنگ و روپ سے ہوتا ہے اس حوالے سے جنگلی یا آبی حیات دو قسم کا کیمو
فلاج خود پر طاری کرتے ہیں جس میں ایک کو ظاہری اور دوسرے کو اندرونی
کیموفلاج کہا جاسکتا ہے ۔
* ظاہری کیموفلاج
ظاہری کیمو فلاج دراصل فطرت یا اردگرد کے ماحول سے ادھار لیا ہواوہ تحفظ
ہوتا ہے جس میں زہانت کا بھی عمل دخل ہوتا ہے جیسے دھاری دار چیتے یا
چتکبرے تیندوے جھاڑیوں میں دبک کر کھو جاتے ہیں یا دور دور تک پھیلی ہوئی
برفانی سفیدی میں برفانی ریچھ اور برفانی الو خود کو اس سفیدی کا حصہ بنا
لیتے ہیں اسی طرح ہرے پتوں میں سبز رینگنے والے ننھے منے حشرات، ہرے مینڈک،
ہرے پتلی رسی جیسے سانپ اور انوکھے رنگ برنگے پرندے وغیرہ ہریالے یا رنگین
منظر کاحصہ بن کر نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں جب کہ اڑتی ریت کے تودوں میں
رینگنے والے جانور (Reptile)ریت اوڑھ کر زمین کاپیوند بن جاتے ہیں یا
پھرتتلیاں ، پروانے اور اڑنے والے حشرات باآسانی پھولوں پتیوں کے رنگ میں
خود کو ڈھال کر اپنے اردگر ڈھال بنا لیتے ہیں۔
* اندرونی کیمو فلاج
اندرونی کیمو فلاج وہ کیفیت ہوتی ہے جس کے دوران جانور خطرے کی حالت میں
اپنے اندرنی نظام میں تبدیلی کے اثرات اپنی جلد پر لا کر خود کو خطرے سے
پوشیدہ کرنے کی کوشش کرتا ہے تاہم اس کا یہ عمل مکمل طور پر فطرت کا ودیعت
کردہ ہوتا ہے جو خطرے کی حالت میں ازخود متحرک ہوجاتا ہے اس قسم کے کیمو
فلاج میں سب سے اہم کردار رنگ کی تبدیلی کا ہوتا ہے جیسے گرگٹ یا گہرے
سمندروں میں پائی جانے والی مخصوص آبی حیات کا رنگ بدلنا وغیرہ شامل ہیں ۔
ایسے جانور اور حشرات جو اپنے تحفظ کے لئے کیمو فلاج کے مختلف طریقے اپناتے
ہیں ان میں کچھ
جانداروں کے کیمو فلاج کے طریقے کچھ اس طرح ہیں ۔
* گرگٹ (Chameleon)اور چھپکلیاں
’’گرگٹ کی طرح رنگ بدلنا‘‘ اپنے الفاظ اور وعدوں سے پھر جانے والے افراد کے
لئے یہ محاورہ کثرت سے استعمال ہوتا ہے کیوں کہ گرگٹ اپنی بقاء کے لئے
اندرونی تبدیلیوں کے زریعے اپنی جلد کا رنگ بدل کر دشمن کو دھوکہ دینے کی
کوشش کرتا ہے تقریبا 160انواع کے گرگٹ جو دنیا بھر میں گرم صحراؤں سے لے کر
برساتی جنگلات تک میں پائے جاتے ہیں خطرے کی صورت میں رنگ بدلنے پر قادر
ہیں جس کی بنیادی وجہ Chromatophoresنام کا وہ رنگین خلوی مادہ ہے جس کی
بدولت وہ باآسانی گلابی، نیلے ، لال، ہرے ، کالے ، بھورے ، پیلے ،زرد اور
فیروزی رنگ میں اپنی جلد کے رنگ کو حسب منشا تبدیل کرلیتا ہے جو کہ عموما
پس منظر کی رنگت سے مطابقت رکھتا ہے اور اس کا بچاؤ کرتا ہے یا شکار کرنے
میں معاون ہوتا ہے تاہم جدید تحقیق کے مطابق یہ عمل گرگٹوں کے درمیان نر
اور مادہ کو ایک دوسرے سے قربت پیدا کرنے میں بھی اہم کردار ادار کرتا ہے
رنگ بدلنے کی ایسی ہی صلاحیت Anole اور Geckoنام کی گھریلو چھپکلیوں میں
بھی پائی جاتی ہے تاہم ان کی رنگت بدلنے کادارومدار درجہ حرارت پر ہوتا ہے
اسی طرح گرینائٹ پتھر کی مشابہت رکھنے والی Granite Spiny Lizardبھی رنگ
بدلنے کی خصوصیات کی حامل ہوتی ہیں یہ چھپکلیاں زیادہ تر چٹانوں پر ہی پائی
جاتی ہیں ایک اور چھپکلی Frilledکی گردن پر جھالر نماکھال ہوتی ہے جسے وہ
خطرے کے وقت پھیلا کر دشمن کو دھوکا دیتی ہے اس دوران وہ رنگ بدلنے کے بعد
درختوں کے اوپر پتوں میں ان کی مدد سے ہم رنگ بھی ہو جاتی ہے۔
* مچھلیاں
پتلی پلیٹ نما مچھلیاں (Flounders)خطرے کا احساس ہوتے ہی سمندر کی تہہ میں
بچھی ریت میں خود کو چھپا لیتی ہے اور اس دوران اپنی جلد کی ظاہری شکل بھی
تبدیل کرلیتی ہے ماہرین نے ایک تجربے میں جو ایکوریم میں بند Flounder کی
ایک بلی کی مانند چہرے پر مونچھوں کے باعث Catfishs کہلانے والی مچھلی پر
کیا تھامشاہدہ کیا کہ ایکوریم کے شیشے کے فرش کے نیچے مختلف نمونے)
Patterns (بچھائے گئے جن میں مختلف دھبے، نقطے ،لکیریں حتی کے شطرنج کی
بساط کے طرح کے نمونے بھی تھے حیرت انگیز طور پر مچھلیوں کی جلد پر ویسے ہی
ڈیزائن بن گئے اور انہوں نے خود کو ممکنہ خطرے سے محفوظ کرلیا اسی طرح
شہنائی کی شکل کی ایک لمبی مچھلی Trumpet خطرے کے وقت سمندر میں موجود
عمودی گھاس کی طرح خود کو ساکن حالت میں سیدھا کھڑا کرلیتی ہے اور گھاس سے
ہم آہنگ ہو جاتی ہے اسی طرح Stone Fishبھی زبردست طریقے سے کیموفلاج کا
طریقہ اختیار کرتی ہے دریا اور سمندر میں پائی جانے والی یہ مچھلی انسانوں
کے لئے خطرناک بھی ہے اس کی جلد کھردری اور ابھرے ہوئے پتھر جیسی ہوتی ہے
جس کے باعث یہ باآسانی سمندری چٹانوں میں چھپ جاتی ہے اس کے علاوہ چٹانوں
ہی میں رہنے والی مچھلی Scorpion Fish بھی خطرے کا احساس ہوتے ہی دھوکہ
دینے کے لئے رسی کی مانند چٹانوں پر بے سدھ ہوجاتی ہے اسی طرح بہت سی
سمندری حیات مثلامونگے (Corals)وغیرہ جسم سے خارج ہونے والے گہرے سرخ ،
گلابی اور سفید رنگوں میں خود کو باآسانی چھپا لیتے ہیں ایک اور زبردست
طریقے سے خود کو خطرے سے محفوظ رکھنے والی مچھلی Porcupine یا Balloon
Fishہے جو اپنی جسامت کو ہوا یا پانی کی مدد سے باآسانی پھلا کر دوگنی کر
لیتی ہے اور اس طرح وہ دشمن مچھلیوں کے منہ میں آنے سے محفوظ ہوجاتی ہے اس
کے علاوہ Cuttleنام کی مچھلی بھی رنگ بدلنے پر قادر ہے ۔
* کچھوے (Turtle)
بہت سے کچھوے جو گدلے پانی میں رہتے ہیں اپنی سخت بیرونی پشت کی گہری سبز
رنگت اورساخت کے باعث الجی (Algae)میں خود کو وقتی طور پر چھپا لیتے ہیں
واضح رہے الجی ایک آبی پودا ہے جو خورد نامیاتی شکل (Plankton) میں پانی کی
سطح پر تیرتا رہتا ہے۔
* ہرن یا چیتل (Chital)
ہرن کی مخصوص نسل یعنی چیتل اپنے لذیذ اور تقریبا نناوے فیصد چکنائی سے پاک
گوشت کے باعث شکاریوں کا اہم ہدف ہے چیتل زیادہ تر جھاڑ جھنکاڑ والے علاقوں
میں پایا جاتا ہے جہاںیہ جھنڈ کی شکل میں رہتے ہیں اپنے عمر کے پہلے سال ان
کا رنگ سرخی مائل ہوتا ہے جس پر وقت گذرنے کے ساتھ سفید دھبے ظاہر ہونا
شروع ہو جاتے ہیں جب کے جسم کا نچلا حصہ سفید ہوتا ہے چیتل خطرے کا احساس
ہوتے ہی ایسی جھاڑیوں میں چھپنے کی کوشش کرتے ہیں جن پر پتے نہیں ہوتے کیو
ں کہ اس طرح وہ باآسانی اپنی جلد کے باعث خشک جھاڑیوں میں چھپ کر خود کو
بچا لیتے ہیں اس کے علاوہ افریقہ میں پایا جانے والاچھوٹی نسل کا ہرن جسے
Antelope Bongoکہتے ہیں او ر جس کے جسم پر سفید عمودی دھاریاں ہوتی ہیں
خطرے کے وقت عموما بانس اور کھڑی جھاڑیوں میں خود کو چھپا لیتا ہے ۔
* آکٹوپس(Octopus)
مونگوں اور مرجانوں کی خفیہ چٹانوں کے درمیان خاموشی سے آنکھیں موندے
آکٹوپس اپنے دفاع کے لئے منفرد طریقہ استعمال کرتے ہیں غیر فقاریہ آبی
جانورں میں سب سے زیادہ زہانت کے حامل آکٹوپس خطرے کااحساس ہوتے ہی کوشش
کرتے ہیں کہ اپنی جلد کی رنگت جیسی کسی چٹان میں پناہ لے کر نظروں سے اوجھل
ہوجائیں لیکن اگر ایسی سہولت نہ نظر آئے تو آکٹوپس اپنے جسم میں موجود
تھیلی سے زبردست طریقے سے روشنائی خارج کرتے ہیں جس سے ان کے اور دشمن کے
درمیان ملجگے بادل آجاتے ہیں اور دشمن گھبرا کر یا ڈر کر بھاگ کھڑا ہوتا ہے
مخصوص بو کی حامل یہ روشنائی کثیف اور سیاہ ہوتی ہے جس کی تیز بو سے بھی
دشمن بھاگ جاتے ہیں حیرت انگیز طور پر اس روشنائی میں بنیادی عنصرMelaninکا
ہوتاہے یہ وہی کیمیائی عنصر ہے جس کی بنیاد پر انسانوں کی جلد اور بالوں
کارنگ تشکیل پاتا ہے اس کے علاوہ گرگٹ ہی کی طرح آکٹوپس بھیChromatophores
کی مدد سے پیلے،زرد ، بھورے اور کالے رنگ میں خود کو تبدیل کرسکتا ہے اور
بعض صورتوں میں جب حملہ آور نہایت خطرناک ہو توبہت سارے آکٹوپس اپنے لچکیلے
جسم کو آپس میں ملا کر عجیب وغریب شکلیں اختیار کرلیتے ہیں جنہیں پہچاننا
نہایت مشکل ہوتا ہے۔
* درختوں پر رہنے والے مینڈک (European Tree Frog)
یورپین مینڈک کے نام سے شہرت رکھنے والے ان مینڈکوں کی جسامت صرف چار سینٹی
میٹر ہوتی ہے اور ان میں بھی صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ اپنی جلد کا رنگ درختوں
کے پتوں کے مطابق تبدیل کرلیتے ہیں جن میں سبز، خاکی، بادامی اور چمکیلا
پیلا رنگ شامل ہے جس کے زریعے وہ درختوں میں خود کو چھپا کر رکھتے ہیں
چھوٹے چھوٹے حشرات کھانے والے یہ مینڈک باآسانی اپنے کم وزن کے باعث بڑے
بڑے پتوں پر اس طرح چھپ کر بیٹھ جاتے ہیں کہ پتوں کا حصہ ہی نظر آتے ہیں
اور جیسے ہی حشرات ان کے قریب آتے ہیں انہیں باآسانی شکار کرلیتے ہیں۔
* تتلیاں
سلسلہ کوہ ہمالیہ میں پائی جانے والیDead Leafتتلی جب اپنے پر سمیٹتی ہے تو
بالکل خشک پتوں کی طرح نظر آتی ہے حیاتیاتی طور پر Kallima Inachusکے نام
سے پہچانی جانے والی اس تتلی کے پر خشک موسم میں اندرونی جانب سے بالکل خشک
پتوں کی مانند ہوجاتے ہیں اور جب کوئی کیڑا یا پرندہ ان پر حملہ آور ہوتا
ہے یہ اپنے پر سمیٹ کر شاخ پر بالکل خشک پتے کی طرح نظر آنے کی وجہ سے ان
سے محفوظ ہوجاتی ہیں اس دوران یہ اپنے پروں پر پتوں کی مانند ’رگیں‘
(Vine)بھی ابھر لیتی ہیں جو کہ کیموفلاج ایک عمدہ مثال ہے اس کے برعکس
برسات کے موسم میں ان کے پر خوب رنگ برنگے ہوجاتے ہیں جن میں زرد رنگ
نمایاں ہوتا ہے او ر اس دوران خطرے کا احساس ہوتے ہی یہ خود کو پھولوں اور
پتوں میں باآسانی چھپا لیتی ہیں اس کے علاو ہ بہت سی تتلیاں خطرے کا احساس
ہوتے ہی دشمن پر مخصوص خطرناک کیمیائی مادوں کی بوچھار بھی کرتی ہیں ۔
* پتنگے (Moths)
رنگ برنگے پروں پر مشتمل’آئی او‘(IO)پتنگے کو عموما تتلی سمجھا جاتا ہے
لیکن’’IO‘‘کا تعلق پتنگوں کے خاندان سے ہے اس پتنگے کے اوپری پروں کے نیچے
مزید دو پر ہوتے ہیں جسے وہ چھپا کر رکھتے ہیں اور صرف اپنے دفاع یا حملے
کے وقت استعمال کرتے ہیں واضح رہے ان خفیہ پروں پر الوؤں کی آنکھوں کی
مانند گول دیدے ہوتے ہیں اور جیسے ہی انہیں خطرے کا احساس ہوتا ہے وہ یہ پر
ظاہر کردیتے ہیں جنہیں حملہ آور الو کی آنکھیس سمجھ کر اپنا ارادہ بدل لیتا
ہے اسی طرح Pine Hawkپتنگا خود کو باآسانی صنوبر کی شاخوں میں چھپا لیتا ہے
۔
* ہنی Badger
چوہے کے خاندان سے تعلق رکھنے والا مگر چوہوں سے قدرے بڑا Honey
Badgerزبردست طریقے سے خود کو ساکت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے گینز بک آف
ورلڈ ریکارڈ کے مطابق دنیا کے سب سے نڈر جانور کا اعزاز رکھنے والے اس
جانور کی پشت اور آدھا دھڑ سیاہ اور سفید رنگ پر مشتمل ہوتا ہے اور دستیاب
معلومات کے مطابق شکار کی گھات میں لگ بھگ پانچ منٹ تک بالکل ساکت رہے سکتا
ہے
اس عمل کے دوران وہ ایسا مقام چنتا ہے جو اس کی کھال سے ہم آہنگ ہو تاکہ
دشمن دھوکا کھا کر اس کے قریب آجائے بظاہر معصوم نظر آنے والا یہ نو سے دس
کلو گرام کا جانور اپنی اس صلاحیت کی بدولت اوسط وزن کے مگرمچھ کو بھی اپنے
نرغے میں گھیرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔
*آرماڈیلوArmadillo
تیس انچ کی قامت رکھنے والا جنوبی امریکہ کا یہ جانور جس کے پشت پر زبردست
سخت چھلکوں کی کئی تہیں ہوتی ہے عمدہ طریقے سے اپنا دفاع کرنا جانتا ہے
بالخصوص تین تہوں والا Armadilloدشمن کو دیکھتے ہی سخت گول گیند کی شکل میں
خود کو تبدیل کر کے ایک جگہ بیٹھ جاتا ہے جسے شکار کرنا نہایت مشکل ہوتا ہے
جب کہ نو تہوں والا Armadilloگیند کی شکل میں لڑکتے ہوئے دشمن کو حیران
چھوڑ کر اس سے دور ہوتا جاتا ہے۔
* لال سر(Bittern)
بگلے کے خاندان سے تعلق رکھنے والا یہ پرندہ خطرے کا احساس ہوتے ہی خود کو
ایک جگہ ساکن کرلیتا ہے جس کے دوران یہ اپنی گردن یا دم اونچی کرلیتا ہے جس
کے باعث یہ سرکنڈوں ہی کا حصہ نظر آنے کے باعث نظروں سے اوجھل ہوجاتا ہے
اسی طرح سریلی آواز والی Bobwhiteنام کی کوئل بھی باآسانی ساکت ہو کر اپنے
دشمنوں کو دھوکہ دیتی ہیں ۔
* گھونگے(Snail)
گھونگے کی ایک منفرد نسل جسے Gastropodaکہا جاتاہے گہرے چمکدار رنگوں سے
اپنا بھرپور دفاع کرتے ہیں چونکہ یہ ایک مظبوط شیل میں ہوتے ہیں لہذا جیسے
ہی خطرہ محسوس کرتے ہیں رنگوں کی مدد سے اردگرد کے ماحول سے خود کو ہم آہنگ
کرکے دشمنوں کی نظروں سے چھپ جاتے ہیں ۔
* صاریغ (Opossum)
یہ چھوٹا سا تھیلی دار جانور کیمو فلاج کی نہایت عمدہ مثال ہے خطرے کو
سامنے دیکھتے ہی بے سدھ ہوجاتا ہے جسم سے ایسی بو خارج کرتا ہے جیسے بیمار
ہو یا پھر مرچکا ہو اس اداکاری کے دوران اس کے ہونٹ پیچھے کی جانب کھنچ
جاتے ہیں اور بھینچے ہوئے دانت نظر آتے ہیں منہ سے جھاگ اور تھوک نکل کر
بہنے لگتا ہے جسم کے بال جو کے ہلکے سے بل دار (Curly) ہوتے ہیں وہ نیچے کی
جانب گر جاتے ہیں اور بالاآخر اس تمام کیفیت سے دشمن دھو کے میں آکر واپس
چلا جاتا ہے صاریغ اس کیفیت کو ایک گھنٹے تک خود پر طاری کرنے پر قادر ہے ۔ |