املت اسلامیہ،محبت نبی کریم ﷺ اور مولانا شاہ احمد رضا بریلوی رحمة اللہ علیہ

ایک دانشو رکا قول ہے :”اسلام نے ملت کی تشکیل و ترتیب کسی اتفاقی اور حاد ثاتی نسبت سے نہیں بلکہ شعوری سطح پر ایک عقیدہ، اخلاق اور دین کے حوالے سے کی ہے ۔“

در اصل یکساں عقیدہ اور اخلاق رکھنے والے افراد کے اجتماع کو ہی ملت کہتے ہیں، اور مغرب جسےNation کا نام دیتا ہے ،وہ تصورِ ملت سے سراسر الگ ہے ،Nation ایک محدود تصور کا نام ہے جس میں بنیادی طور پر طبقاتی حدود ، معاشی حدود ، لسانی اور نسلی حدود نے ان کی قو میت میں اجتماعیت کا فقدان پید ا کردیا ہے اور یہ خلیج اسلئے پید ا ہوئی کہ ان کی قومیت کے تانے بانے (Texture)میں مذہب کا دخل نہ تھا جبکہ اسلام کا تصور و حدانیت اور رسالت کا اقراراجتماعیت پیدا کرتا ہے ۔ اس کا جزو لاینفک ” محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم “ ہے جس کے ذریعے ملت واحدہ تشکیل پاتی ہے ، اخلاق اورتمدن بھی اسی کے پر تو ہیں۔ عشق رسول سے جب تک مسلمان معمور رہے کا میابی قدم چومتی رہی ،باطل و طاغوتی قوتیں مسلمانوں کے اتحاد کو نہ توڑ سکیں اسلئے کہ محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت نے مسلمانوں کو لسانی ، ارضی ، نسلی وغیرہ حدود و قیود سے آزاد کرکے ملت کی تشکیل کا احساس و شعور عطا کیا تھا اورجب اس محبت کو دلوں سے نکالنے کیلئے اقوامِ مغرب بالخصوص یہودو نصاریٰ نے داخلی و خارجی ذرائع سے منصوبے تیار کئے تو ملت افتراق کی راہ پر جاپڑی ۔

امام احمد رضا مسلمانوں کی اجتماعیت کے خواہاں تھے ۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلمان اسلام کے احکام کا پابند ہوجائے اور محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم قلب و نظر اور فکروخیال میں بسالے تا کہ پھر ماضی سے رشتہ استوار ہو جائے ۔ امام احمد رضا کا ایک پیغام تھا ” محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم “ یہی امام احمد رضا کا نقطہ نظرw) (Point of vie تھا ۔وہ قافلہ اسلام کے حُدی خواں ہیں ۔ ان کا شعور، الفتِ مصطفی علیہ التحیة وا لثنا سے عبارت ہے ۔ آپ فرماتے ہیں
دل ہے وہ دل جو تری یاد سے معمور رہا
سر ہے وہ سر جو ترے قدموں پہ قربان گیا

ایک جگہ آپ رقم طراز ہیں :” ایمان ان کی ( سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ) محبت و عظمت کا نام اور مسلمان وہ ، جس کا کام ہے ، نام خدا کے ساتھ ان کے نام پر تمام ............“

امام احمد رضا نے ملت کی تشکیل تمام شعبہ حیات کو مد نظر رکھ کر محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بنیاد پر کی ۔ وہ بیسویںصدی کا ابتدائی دور تھا۔ اس وقت بہت سے فرقے و جودپا چکے تھے ۔ دنیا میں معاشی انقلاب رونما ہورہاتھا ۔بلا دیورپ و مغرب مضبوط معیشت کے قیام کیلئے عالمی منصوبے ترتیب دے رہے تھے ،وہ دنیا پر سائنس و ٹکنالوجی اور دیگر علوم و فنون کے ذریعے معاشی استحکام اور غلبہ چاہتے تھے ۔ اس وقت امام احمد رضا محدث بریلوی نے مسلمانوں کو اپنی مضبوط معیشت کے قیام کیلئے دعوت ِفکر دی تھی،اور اس سلسلے میں منصوبہ سازی کی تھی ، 65 سے زائد علوم و فنون پر مشتمل علمی ذخائر قوم کو عطا کیے جن کا ماخذ ومنبع قرآن مقدس اور احادیث طیبہ تھے ۔ امام احمد رضانے اپنی تعلیمات میں سائنس و ٹکنالوجی اور دیگر علوم و فنون کی بناء”د ین و ایمان“ پررکھی ۔بدلتے ہوئے افکار کے دھارے میں تعلیماتِ امام احمد رضا مسلمانوں کی متاعِ گم گشتہ کو واپس دلا رہی ہیں، وہ متاع ”محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم“ ہے جو مسلمانوں کو جہاں گیر و جہاںباں بناتی ہے ۔

متفرق فکر و خیال اور نظریات کے طوفان نے ملت کو بہت نقصان پہنچایا ہے ۔ بقول پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد :
” ہر لٹر یچر اپنے ساتھ فکر و خیال کی ایک دنیالے کر چلتا ہے اس لئے گزشتہ صدی میں مغربی نصاب نے ہمارے ملی اور فکری ڈھانچہ کو بکھیرکر رکھ دیا ........“

امام احمد رضا نے ہر اس فکر کی نشاندہی کی جس کے ذریعے فکرِ اسلامی کو نقصان پہنچ رہا تھا یا جو ایمان و عمل کو کمزور کرنے کا موجب تھی۔ اسلامی خیالات کو تب وتاب عطاکرنے والے لٹریچر آپ نے عطا کئے ۔ عصرحاضر میں اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ عالمی زبانوں میں امام احمد رضا کی کتابوں کے تراجم کئے جائیں اور اقوام عالم میں انہیں عام کیا جائے ۔ اس سلسلے میں اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی و عربی زبانوں میںبھی امام احمد رضا کی تصانیف کی اشاعت رضا اکیڈمی نے کی ہے ۔ رضا اکیڈمی کے مزید اشاعتی منصوبے روبہ عمل ہیں ۔ متعد د اداروں نے امام احمد رضا کی کتابوں کے تراجم کے سلسلے میں پیش رفت کی ہے ، جو لائق تحسین ہے ۔

عالمی سطح پر مسلمانوں کی پسماندگی دور کرنے اور تعلیم و تعلّم سے ٹوٹے ہوئے سلسلے کی استواری کیلئے امام احمد رضا کے پیغام و نظریات کا ابلاغ از حد ضروری ہے۔ برطانوی دانشور نو مسلم ڈاکٹر محمد ہارون فرماتے ہیں :
” حضرت امام احمد رضا بریلوی اس علمی روایت کیلئے سامنے آئے جو مغرب میں اپنی موت مرچکی ہے ۔ ان کا مقصد علم کو ممکنہ حد تک وسیع کرنا تھا ۔ ایسا علم جس کا محور اسلامی فنون سے پھوٹنے والی دانش و حکمت تھی ۔ ایسا علم جس کا ایک ہزار سالہ قدیم روایت سے گہرا رابطہ تھا........“

وسائل علم ہوں یا حیاتیاتی شعبہ جات ہر جگہ تہذیب و تمدن ، ثقافت و روایات کے گہرے اثرات ملتے ہیں ۔ مادیت اور مغربی علوم کے ساری دنیا میں بڑھتے ہوئے اثر و نفوذ سے ان کی تہذیب و کلچر کے اثرات رفتہ رفتہ مسلمانوں پر ہونے لگے، امام احمد رضا اسی لئے ہر سطح پر اور ہر جہت سے مسلمانوں کو اسلام کا تابع و پابند دیکھنا چاہتے تھے کہ جب زندگی اسلامی احکام کے مطابق بسر ہوگی تو دوسروں کی تہذیب ، تمدن ، آئیڈیا لوجی اور نظریات مسلمانوں کی فکر و بصیرت اور قلب و ذہن پر مرتسم نہ ہوسکیں گے ۔ اس نہج پر امام احمد رضا کی تصنیفات و تالیفات کی ترویج و اشاعت اور ان کی تشہیر و ترسیل وقت کی اہم ضرورت ہے تا کہ پھر امام احمد رضا کے پیغامات کے ذریعے عامة المسلمین میںمحبت سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی روح پھونکی جاسکے اور ملتِ واحدہ کی تشکیل ممکن ہوسکے ۔

عہد حاضرمیں میڈیا اور ذرائع ابلاغ کی اہمیت اہل بصیرت پر مخفی نہیں، پوری دنیا میں اسلام مخالف قوتیں میڈیا کی طاقت سے مالا مال ہیں ، اور اپنے جھوٹے نظریات کے فروغ میں پیش پیش ہیں ۔ یہود و نصاریٰ اس شعبے میں سب سے زیادہ آگے ہیںاور جدید ذرائع سے لیس ہیں ۔ مادی دنیا میں اسلام کی سمت بڑھتے ہوئے رجحانات کو وہ مکرو فریب اور اسلام کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے سے معدوم کرنا چاہتے ہیں۔ اسلام کی آفاقی تعلیمات ‘ تمام انسانیت کے لئے باعث ہدایت و وجہِ سکون و طمانیت ہیں ۔ اس کے احیاءکے لئے امام احمد رضا ‘ مسلمانوں کو پریس و میڈیا کی قوت سے لیس دیکھناچاہتے ہیں اسکے لئے آپ نے اپنی تحریروں میں ترغیب و تحریک دی ہے ،ضرورت ہے کہ اس تعلق سے ہونے والے کاموں کو فروغ دیا جائے ۔
Ghulam Mustafa Rizvi
About the Author: Ghulam Mustafa Rizvi Read More Articles by Ghulam Mustafa Rizvi: 277 Articles with 281347 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.