شہر کے مختلف علاقوں میں واقع
بڑے بڑے پلازوں کے مالکان اور کاروباری مراکز نے اپنی کاروبار کو بچانے
کیلئے مذہب کا سہارا لینا شروع کردیا ہے اوربڑے بڑے بلڈنگز پر پر کلمے اور
قرآنی آیات والے بینرز لگا دئیے ہیں تاکہ کوئی ان کے پلازوں اور مراکز پر
پتھرائو نہ کرے اور انہیں مستقبل میں کسی قسم کے نقصان کا سامنا نہ کرنا
پڑے-یہ اقدام توہین رسالت کے واقعے کے بعد شہر کے مختلف علاقوں میں ہنگاموں
کے دوران بڑے پلازوں اور بلڈنگز پر ہونیوالے حملوں اور پتھرائو کے واقعات
کے بعداٹھایا گیا ہے ان واقعات میں شہر کے مختلف علاقوں میں واقع بڑے
بلڈنگز پر شرپسندوں نے پتھرائو کیا تھا جس کے باعث ان پلازہ مالکان کو
کروڑوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑا -کاروباری اداروں کے مالکان کی طرف سے
اٹھایا جانیوالا یہ اقدام اپنی کاروبار کی حفاظت کیلئے اٹھایا گیا ہے لیکن
کاروباری مراکزکے مالکان شائد یہ بھول گئے ہیں کہ شرپسندوں نے توہین رسالت
کے حوالے سے ہونیوالے احتجاج کے دوران ان پلازوں کو بھی نہیں بخشا تھا جن
پر قرآنی آیات والے بینرز لگائے گئے تھے مذہب کی آڑ میں شرپسندوں کی طرف سے
کی جانیوالا یہ اقدام قابل مذمت ہے لیکن دوسری طرف کاروباری مراکز کی طرف
سے کلمے اور قرآنی آیات والے بینرز لگانے سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ
لوگ بھی اپنے آپ اور کاروبار کو بچانے کیلئے مذہب کو بھی استعمال کررہیہیں
جو اس سے بھی زیادہ قابل مذمت عمل ہے- حالانکہ ان میں ایسے کاروباری حضرات
اور پلازوں کے مالکان بھی ہیں جن کا مذہب سے واسطہ صرف اتنا ہی ہے جتنا
ہمارے حکمرانوں کو اس ملک میں جانوروں کی طرح زندگی گزارنے والے کمی کمینوں
سے ہے -
کچھ عرصہ قبل اقتدار میں آکر کمی کمینوں کا بیڑہ غرق کرنے والی خاندانی
پارٹی جن کا نعرہ تو روٹی کپڑا اور مکان تھا جو نانا سے لیکر داماد کے دور
حکومت میں بھی کمی کمینوں کو نصیب نہیں ہوا اورعوام چار مرتبہ دھوکا کھا
گئے اسی پارٹی نے اپنی دور حکومت میں کئے جانیوالے والے کارنامے لوگوں کی
نظرو ں سے چھپانے اور ایک مرتبہ پھر انہیں بے وقوف بنانے کیلئے مذہب کا
سہارا لیا اور یا اللہ یا رسول اور چور بے قصور کا نعرہ لگایاحالانکہ سوچ
کی بات یہ ہے کہ ملک کو لوٹنے والوں کا حساب تو اللہ تعالی نے کرنا ہے
کرائے کے نعرے لگانے والے کمی کمینوں کے نعرے بازی سے کچھ نہیں ہوتا - یہ
بھی انہی کا دور ہے کہ آج مذہب کی تضحیک ہورہی ہیںحالانکہ اپنے آپ کو بے
قصور کروانے کیلئے نعرے لگانے والے اگر اپنے کارناموں پر نظر دوڑائیں تو
یقینا عمر بھر مذہب کی آڑ نہیں لیں گے لیکن انہیں پتہ ہے کہ مذہب کے نام پر
بننے والے اسلامی فلاحی عوامی اور ساتھ میں جمہوری ملک کے کمی کمین مذہب
کیلئے جان دے سکتے ہیں اس لئے اب یہ لوگ بھی مذہب کی آڑ لیکر دکانداری اور
کاروبار چمکا رہے ہیں -اب تو اپنے آپ کو سیکولر قرار دینے والے کئی سیاسی
پارٹیاں بھی مذہب کے نام پر کمی کمینوں کیساتھ ڈرامہ بازی میں مصروف عمل
ہیں-
خیر بات ہورہی تھی کاروباری مراکز کو بچانے کی کان میں اذان سن کر مسلمان
ہونیوالوں کو مذہب کی حقیقت کا اندازہ ہی نہیں مذہب اسلام کو جتنا نقصان ہم
نام نہاد مسلمانوں نے پہنچایا ہے شائد ہی کسی نے پہنچایا ہوبدبختی کے اس
عمل میں ہم سب شریک عمل ہیں اپنے ارد گرد نظر دوڑائیے بہت ساری ایسی چیزیں
آپ کو نظر آئیں گی جو انتہائی حد تک غلط ہیں لیکن ہم لوگوں نے آنکھیں بند
کر رکھی ہیں ہمارے ہاں کچھ مذہبی نما سیاسی لیڈروں کی غلطیوں کی وجہ سے اب
ہمارے ہاں مذہب کو تضحیک کا نشانہ بنایا جارہا ہے جس کی طرف کوئی توجہ ہی
نہیں دے رہا -
اس کی ایک چھوٹی سی مثال یوں بھی دی جاسکتی ہے کہ موبائل فون پر روزانہ
کتنے ہی لطیفے ایس ایم ایس کے ذریعے ہم ایک دوسرے کو بھیجتے رہتے ہیں یقینا
ہر کوئی اس سے لطف اندوز بھی ہوتا ہے لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ ایس ایم
ایس کے ذریعے بھیجے جانیوالے زیادہ تر پیغامات / لطیفوں میں جہاں سردار
پٹھان کو نشانہ بنایا جاتا ہے وہیں پر ان سے بھی دگنا مذہب مولوی اور داڑھی
والے حضرات کو نشانہ بنایا جارہا ہے جسے ہر کوئی مزاق میں اسے اپنے دوستوں
پیاروں کو بھیجتا ہے اور ہم تضحیک کا عمل کرتے رہتے ہیں یہ اسی پروپیگنڈے
کا اثر ہے کہ ہمارے ہاں یہ تاثر عام ہے کہ مذہب سے وابستگی رکھنے والے
ہمارے اس معاشرے کے دشمن ہیں داڑھی والے حضرات کی خصوصی طور پر تضحیک کی
جاتی ہیں مذہب داڑھی کو دہشت گردی سے نتھی کرنے والوں کی آنکھیں اب کھل
جانی چاہئیے ایس ایم ایس سوشل میڈیا کی مختلف سائٹس پر جس غیر محسوس انداز
میں مذہب ان سے وابستہ افراد اور داڑھی کی تضحیک کی جارہی ہیںاس پر ہم سب
نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں اور اگر کوئی اس بارے میں بات کرتا ہے تو جوابا
اسے جاہل کہا جاتا ہے ماڈرن ازم کے نام پر ہم اپنے دین کا مذاق اڑا رہے
ہیںحالانکہ جس طرح کسی ایک شخص کی انفرادی غلطی کی سزا پوری کمیونٹی کو
نہیں دی جاسکتی یہی اصول مذہب مذہبی لوگوں کے حوالے سے بھی دیکھنے کی ضرورت
ہے-
ہمارے ہاں مذہب کو استعمال میں دیکھ کر اب توبعض غیر سرکاری ادارے جن کی
سربراہ سیاسی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے بیگمات ہیں نے بھی اب مذہب کے نام
پر دکانداری کا عمل شروع کردیا ہے حالانکہ ان لوگوں کا مذہب سے واسطہ اتنا
ہی ہوتا ہیکہ عام لوگوں کی طرح یہ بھی کسی مسلمان کے گھر میں پیدا ہوتی
ہیںکسی زمانے میں اپنے ایجنڈے کیلئے مغرب کی نقالی کرنے والی خواتین اب
ہمارے ہاں مذہب کو درمیان میں لا رہی ہیں کیونکہ انہیں اندازہ ہوگیا ہے کہ
یہاں پر عمر بھر نمازیں نہ پڑھنے والا مسجدوںسے جوتی چوری کرنے والا چوری
کے گیس اور بجلی استعمال کرنے والا پڑوسیوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے والا
راستے میں خواتین کو چھیڑنے والا اور کرپشن کرنے والا بھی بھی مذہب کیلئے
جان دیتا ہے اس لئے مذہب ہمارے ہاں کاروبار کی حیثیت اختیار کرگیا ہے اور
یہ ایسا کاروبار ہے جس میں سیاستدانوں سے لیکر ہر شعبے سے تعلق رکھنے والا
مرنے کے بعد شہید کہلایا جاتا ہے اسی باعث اس کاروبار نے اب دائیں اور
بائیں بازو سے تعلق رکھنے والوں کی تمیز بھی ختم کردی ہیں - |