حضرت العلامہ مولانا محمد عبدالستار تونسوی نوراللہ مرقدہ

مولانا مخدوم منظور احمد تونسوی ،نائب امیر جمیتہ علماءاسلام پنجاب

ہمہ صفت موصوف حضرت العلامہ مولانا محمد عبدالستار تونسویؒحضرت العلامہ کی حیات طیبہ ہمارے سامنے گزری ایک ایک لمحہ دین متین کے لئے وقف کر رکھا تھا۔قرآن و سنت کے شیدائی اورختم نبوت آل اطہار اصحاب رسول مقبول آئمہ حضرات علماء امتہ کی محبت میں مستغرق تھے۔آپ کی سوانح صفات حمیدہ اور اخلاق حسنہ کے بارے میں بہت سے اکابر اہل قلم اپنے اپنے تعاثرات اورقلبی محبت کا اظہار رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ بندہ نا چیز نے بھی مناسب سمجھا کہ خادم ہونے کی حیثیت سے انکی شفقت اور لطف و کرم کے بارے میں لکھ دوں کم از کم انکے مداح خوانوں میں تو شمار کیا جاؤں۔بندہ نا چیز نے قرآن پاک حفظہ 5پارہ سے 26پارہ تک جامعہ محمودیہ خانقاہ تونسہ شریف میں حضرت خواجہ نظام الدین تونسوی رحمتہ اللہ کی حیات طیبہ میں پڑھا۔ اس وقت جامعہ محمودیہ میں صدر مدرس حضرت مولاناخان محمد صاحب فاضل دارالعلوم دیوبند، حضرت مولانا عبدالستار تونسوی فاضل دارالعلوم دیوبند بھی مدرس تھے۔وہ زمانہ اچھی طرح یاد ہے جب اعلان ہوتا تھا آج رات نمازعشاءحضرت تونسوی صاحب وعظ فرما ئینگے، حضرات محترم اللہ شاہد ہے پورا شہر امڈ آتاتھا ۔باوجود وسیع و عریض مسجد کے صحن کی جگہ کم پڑ جاتی تھی اسطرح جامعہ محمودیہ کے کمرہ جات کے سامنے لمبا چوڑا میدا ن عورتوں سے کچھا کھچ بھر جاتاہوتا تھا۔ حضرت کے بیان سے پہلے نوجوان طلباءوغیرہ کی شعر و شاعری بھی ہوتی تھی عجیب منظر ہوتا تھا۔پھر جب حضرت اپنے مخصوص انداز میں پڑھتے تو سناٹا چھا جاتاکہ اس لحن داودی سے در و دیوار ہل رہے ہیں۔

اسطرح حضرت جب اپنے دورہ سے واپس تشریف لاتے۔تو جامعہ محمودیہ کے پیچھے والا کمرہ حضرت کی درس گاہ تھی ۔اپنی درس گاہ میں قرآن پاک حفظ و ناظرہ کے طلباءکو چائے کی دعوت دیتے ہم حاضر خدمت ہوتے۔نہایت ہی شفقت فرماتے ناشتہ کرواتے اور دعائیں دیتے تھے ۔باری تعالٰی حضرت والاکو بہترین جزا د ے، ا ٓمین

طویل ترین زندگی میں بہت سے مناظر و واقعات جلسے جلوس سب دل و دماغ میں محفوظ ہیں۔بعض واقعات ایسے بھی ہوتے ہیں جو بھلائے نہیں جا سکتے ۔غالبا 1964-65کا واقعہ ہے کہ حضرت قادر پورراں ملتان میں تشریف لائے ظہر کے بعد۔ماھنی سیال گاؤں تھا جہاں حضرت نے بیان کرنا تھا کوئی اللہ کا بندہ حضرت کو لینے کے لئے نہیں آیاتو بندہ ناچیز نے حضرت کوسائیکل پربٹھایاکچھ کتابیں بھی حضرت کی گود میں تھیں۔ تقریبا 6-7میل سفر کرکے حضرت کو جلسہ گاہ تک پہنچایامن وعن وعظ سنا ۔خدا معلوم حضرت نے کتنی دعائیں کی ہونگی۔

ایک موقع پر ٹبی قیصرانی اڈے والی پرانی جامع مسجد میں بہت بڑا جلسہ تھا حضرت تونسوی نے ایی یادگار تقریرفرمائی ،بندہ ناچیز جلسہ میں محراب کے پاس حضرت کے انتہائی قریب تھاعصرکی اذان ہوئی تو امات کے لئے ناچیزکو مصلے پر کھڑاکیاگیا حضرت تونسویؒ اور تمام حاضرین جلسہ نے میری امامت میں نماز ادا کی ،اور حضرت نے دعافرمائی -

غالباً اسی سال جواختتام پزیر ہے یاگذشتہ سال کے آخرلاہور تشریف لائے،جامیہ قاسمیہ رحمان پورہ میں آرام فرما تھے اپنے پیارے بیٹے محمد عاصم مخدوم کے ہمراہ حاضر خدمت ہو ئے در خواست کی حضرت آپکا اپنا مرکز جامع مسجد کبری ٰ صرف دعا اور برکت کےلئے تشریف لے آئیں،ہمارے لئے سعادت کا دن ہوگاتو فرمایا عزیزالقدر مولانا فاروق سے مشورہ کر لیں وقت کی تنگی کی وجہ سے تشریف نہ لاسکے البتہ دل و جان سے آئندہ دورہ کاوعدہ فرمایا تھا،ہمیں صرف امید ہی نہیں بلکی یقین کامل ہے کہ انکی دعائیں ضرور شامل حال ہونگی

دعاگو۔مولانا مخدوم منظور احمد تونسوی خطیب جامعہ مسجد کبری نیو سمن آباد لاہورنائب امیر جمیتہ علماءاسلام پنجاب
Asim Makhdoom
About the Author: Asim Makhdoom Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.