میں ایک عام آدمی ہوں۔ پرانے شہر
کی ایک تنگ گلی کے ایک تاریک مکان میں رہنے والا ایک عام آدمی۔ میری زندگی
کا تجربہ ہے کہ بڑے سے بڑاآدمی آپ کو چھوٹے سے چھوٹا فائدہ نہیں پہنچا سکتا
اور چھوٹے سے چھوٹا آدمی بڑے سے بڑا نقصان پہنچا سکتا ہے۔ میری زندگی ایک
دائرے میں پھنسی ہوئی ہے اور اس دائرے نے مجھے کسی قابل نہیں چھوڑا ہے۔ آج
مجھے 500 روپے چاہئیں، صبح سے لے کر شام تک کاوشوں کے بعد نقد ادھار کر کے
500 روپے حاصل کیے۔ پورا دن اس سوچ فکر میں برباد کیا۔ رات ہوتے 500 روپے
کا انتظام ہوا۔ اب دوسرے دن پھر 300 روپے کی ضرورت ہے۔ دوسرا دن ان 300
روپے کے انتظام میں گزرا۔ کوئی اور سوچ فکر نہیں بس ان 300 روپے حاصل کرنے
کی دھن۔ شام تک 300 روپے کا انتظام ہوا، پھر اگلے دن 450 روپے چاہئیں،
غرضیکہ پوری زندگی ان چند کوڑیوں کو حاصل کرنے میں گزر رہی ہے۔ کوئی بڑی
سوچ و فکر ہو ہی نہیں سکتی، کیوں کہ ان دو چار سو روپے کی ضرورت اتنی شدت
سے ہوتی ہے کہ سوچ اس دائرے سے باہر نکل ہی نہیں پاتی۔ کبھی دودھ، آٹا، گھی،
مصالحے کبھی بچے کے اسکول کے خرچے، کبھی بچے کی اسکول کی فیس جو اگر داخل
نہیں کی تو بچے کا نام کٹ جائے گا۔ کبھی بجلی کا بل غرضیکہ یہ دوچار سو
روپے زندگی کا محور ہو کر رہ گئے ہیں۔ بیوی کے پاس زیور تھے ہی کتنے، لیکن
جو بھی تھوڑے بہت تھے سب فروخت ہوچکے ہیں، اب کوئی ایسی چیز گھر میں نہیں
ہے۔یہ سفید پوشی کا بھرم رکھنا بھی کتنا مشکل ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ سفید
پوشی کا بھر م بھی ہم جیسے لوگوں کی دماغی کی سوچ ہے، ورنہ معاشرے میں
ہماری کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ہم جیسے لوگ صرف اپنے ذہنی سکون کے لیے سفید
پوشی کا بھرم رکھتے ہیں۔ چند خدا ترس لوگ ہم سے ہنس کر سلام دعا کرلیتے ہیں
تو ہم سمجھتے ہیں کہ ہم سفید پوش ہیں اور معاشرے میں ہمارا مقام ہے، جب کہ
معاشرے میں ہمارا کوئی مقام نہیں ہے۔ اس سوچ کی پستی نے ہی شاید ہمیں اس
مقام پر لا کھڑا کیا ہے۔ ہم جیسے لوگوں کو یہ بڑی فکر ہوتی ہے کہ لوگ ہمارے
بارے میں کیا سوچیںگے، جب کہ لوگوں کے پاس ہمارے بارے میں سوچنے کی فرصت ہی
نہیں ہے۔ ہم جیسے عام آدمی ایک حد سے زیادہ دوسرے کے سامنے جھکتے بھی نہیں
ہیں۔ امیر طبقے کے لوگ اپنا کام نکالنے کے لیے دوسرے کے پیر بھی پکڑ لیتے
ہیں۔ دوسرے کے سامنے گڑا گڑا لیتے ہیں اور اپنا کام نکال لیتے ہیں، وہ یہ
نہیں سوچتے کہ لوگ ہمارے بارے میں کیا سوچیںگے۔ شاید عام آدمی اسی لیے عام
آدمی ہوتا ہے، کیوں کہ وہ لوگوں کے اپنے بارے میں سوچنے کا بڑا خیال رکھتا
ہے۔ شاید ہم جیسے عام آدمی صرف اپنے ہی بارے میں سوچتے ہیں اور جب ہم جیسے
عام آدمی کو موقع ملتا ہے، تب بھی ہماری سوچ نہیں بدلتی اور ہم اپنے ہی
بارے میں سوچتے ہیں۔ وہ شروع کی چند روپے کی دوڑ دھوپ اپنے بارے میں سوچنے
کی عادت اتنی مضبوط کردیتی ہے کہ عام آدمی کتنے ہی بڑے مقام پر پہنچ جائے
صرف اپنے ہی بارے میں سوچتا رہ جاتا ہے۔ قوم و ملت، ملک، رشتہ دار خاندان ،
پڑوسی، مسافر وغیرہ کسی کے بارے میں کوئی سوچ نہیں ہوتی۔ عام آدمی میں اپنے
آپ کو مظلوم ظاہر کرنے کی عادت بھی پہنچتی ہے، کیوں کہ میں ایک عام آدمی
ہوں اس لیے یہ عادت مجھ میں بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔آج کے دور کی قسمت کی
ستم ظریفی یہ ہے کہ نااہل آدمی کرسی پر بیٹھا ہوا ہے اور اہل انسان دروازے
کے بارے کھڑا ہے۔ نااہل آدمی رشوت اور سفارش کے زور پر کرسی تک پہنچ جاتا
ہے، کیوں کہ یہ نااہل ہوتا ہے، اسی لیے سفارش یا رشوت کی ضرورت پڑتی ہے۔
اہل انسان عام طور پر رشوت دینے یا سفارش لگوانے کے قابل نہیں ہوتے اور وقت
گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی اہلیت میں کمی آتی جاتی ہے اور مواقع میسر نہ
ہونے کی وجہ سے مزاج میں شکوہ کرنے کی عادت اور تلخی آجاتی ہے۔ ہمارے سماج
میں بہت ساری خرابیاں جمہوریت کی دین ہیں۔جمہوریت کی یہ ایک بہت بڑی خرابی
ہے۔ دولت اور سیاسی طاقت کے زور پر جاہل آدمی بھی اپنی بات اتنے وثوق سے
کہتا ہے گویا کہ صحیح بات کہہ رہا ہو۔ جمہوریت میں سیاسی طاقت کا منبع پیسے
اور غنڈہ گردی کی طاقت ہے۔ رہی سہی کسر جمہوریت کے دوسرے ادارے پوری کردیتے
ہیں۔ مثال کے طور پر الیکشن کمیشن نے الیکشن پر خرچ کرنے پر ایک حد قائم
کردی۔ اس سے پہلے سیاسی لوگ الیکشن لڑتے تھے۔ خرچ ، پوسٹر، بینرز، اشتہار
بازی، بلے، جھنڈے وغیرہ میں ہوتا تھا، اس سے لوگوں کو روزگار ملتا تھا۔ اب
سیاسی لوگ ان چیزوں پر خرچ نہ کر کے ووٹ خریدنے پر خرچ کرتے ہیں اور ان
سیاسی لوگوں کو ووٹ خریدنے میں آسانی بھی ہوگئی ہے، گویا کہ الیکشن کمیشن
نے سیاسی لوگوں کا کام اور آسان بنا دیا ہے۔ اب تو جو امیدوار ووٹ کی جتنی
زیادہ قیمت لگائے گا وہی جیتے گا۔ ان امیدواروں کے پیچھے مختلف قسم کے
مافیا ہوتے ہیں، بلکہ یہ کہنا بہتر ہوگا کہ امیدوار کا تعین کرتے ہی مافیا
ہیں جب امیدوار مافیا کی مدد سے جیت کر آئے گا تو ظاہر ہے کس کا کام کرے گا؟
ان امیدواروں کا تعلق اب عوام سے نہیں ہے، بلکہ جس کی سپورٹ پر جتنا بڑا
مافیا وہی الیکشن جیتے گا۔ عوام تو صرف ووٹ بیچتے ہیں۔ اس ووٹ کی خریداری
میں بھی دلال ہوتے ہیں جو اپنا معقول کمیشن رکھتے ہیں۔ الیکشن کمیشن اپنی
کامیابی کا اعلان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ہم نے الیکشن پر زیادہ خرچ کرنے پر
پابندی لگا دی ہے، کوئی بھی امیدوار حد سے زیادہ خرچ کرتے ہوئے پایا گیا تو
اس کے خلاف کارروائی ہوگی، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اب الیکشن کا خرچ پہلے سے
کئی گنا بڑھ گیا ہے۔ امیدوار جو فی ووٹ پچاس روپے کا خرچ کرتا تھا، اب پانچ
سو سے زیادہ خرچ کرتا ہے اور ووٹر کی حیثیت بھی اب بہت کم رہ گئی ہے، کیوں
کہ امیدوار کو معلوم ہے کہ ووٹر سیاسی دلالوں کے ذریعے خریدے جاتے ہیں۔
گویا کہ الیکشن اب وہ جیتے گا جس کا تعلق اچھے اور بڑے قسم کے سیاسی دلالوں
سے ہوگا اور زیادہ بڑا اور زیادہ پیسے والا مافیا جس کی سپورٹ پر ہوگا۔ہم
نے آج تک کوئی ایسا پارلیمنٹ، اسمبلی ممبر نہیں دیکھا جو اپنے کردار، اعلیٰ
اخلاقی معیار یا کسی نظریے کی بنیاد پر جیت کرآیا ہو۔ سارا کھیل پیسے اور
طاقت کا ہے۔ آج کی جمہوریت میں کسی کا کوئی نظریہ، نظام حکومت، عوامی فلاح
یا اور کوئی تعمیری کام کی کوئی جگہ نہیں ہے اور نہ ہی سیاسی لوگوں کا عوام
سے کوئی تعلق ہے۔ بس خانہ پری کے لیے سیاسی لوگ عوام کے بیچ میں آتے ہیں
ورنہ الیکشن کے فیصلے تو بند کمروں میں ہوتے ہیں۔یہ تو بات ہوئی ملک کے
اندر کی۔ اب سوال یہ ہے کہ مرکز میں یا صوبے میں حکومت کون بنائے گا تو اس
کا فیصلہ کون کرے گا؟ اس کا فیصلہ ہمارے ملک کے اندر نہیں ہوتا۔ خاص طور سے
مرکزی حکومت بنانے کے لیے کسی پارٹی کو اپنا قبلہ متعین کرنا ہوتا ہے۔ اس
قبلے کا رخ امریکہ، یورپ وغیرہ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ اس قبلے کے رخ کا تعین
کھلے عام بھی ہوسکتا ہے اور کئی اور دیگر ممالک کی طرح چوری چھپے سے بھی
ہوسکتا ہے۔ مقصد تو قبلے کے رخ کو طے کرنا ہے۔اب یہ جمہوریت کا کھیل بین
الاقوامی سطح پر پہنچ جاتا ہے۔ دکھاوے کے لیے یہ قبلے کا رخ مختلف ہوسکتا
ہے، لیکن دراصل یہ رخ ایک ہی ہے جو امرےکہ بہادرطے کرےگا،اور عوام پر مسلط
کردیا جائے گا۔ |