کیا اسلام آباد ، تحریر اسکوئر بن سکتا ہے؟

بادشاہت اور جبر سے قائم حکومتوں کےخلاف اجتماعی سیلاب نےگذشتہ دنوں میںاٹھنے والے عوامی انقلاب مصر،لیبیا،یمن بحرین سے ہوتے ہوئے شمالی افریقہ اور مشرق وسطی کے کئی ممالک کو لیپٹ میں لےا ۔خاص طور پر تیونس اورمصر میں تو حکومت نے مسلسل عوامی دباﺅ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے عدم تعاون کے باعث اقتدار چھوڑ دیا لیکن باقی ممالک میں حکمران ملکی افواج کی مدد سے احتجاج روکنے اور بغاوتیں فر کروانے میں مصروف ہوئے۔ جبکہ کچھ ممالک نے عوامی رجحانات دیکھ کر بڑے اقتصادی پیکچز کااعلان کیا جس میں سعودی عرب بھی شامل ہے۔مصری انقلاب کی بنیادی وجہ فساد و استبداد ، سیکورٹی والوں کی طرف سے کیجانے والی جبر و زیادتی ، پولیس کے اقتدار اور عدالتوں کی بے بسی کے دورکو عوام کی جانب سے محسوس کرکے گزشتہ تیس برسوں کے منحوسےت کے سائے ڈالنے کے خلاف مصری قوم کے ایک ہدف پر جمع ہونے پر اور سب عوام کا ایک ہی طریقے پر متحد ہونا تھا۔مصر میں کامیاب انقلاب کی بنیادی وجہ پوری مصری قوم کا ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہونا اور سب کو مملکت کے مستقبل کی تلاش تھی۔الاخوان المسلمون کے گائڈنس آفس کے ذمے دار ڈاکٹر محمد البلتاجی ، جوایک نمایاں قائد اور مصر انقلاب کونسل کے ممتاز ہیں ۔انھوں نے کہا کہ ابھی تک ہم نے بنیادیہدف پورا کیا ہے وہ"حسنی مبارک"کے نظام حکومت کا خاتمہ ہے۔اس ظالم نے اپنے اثر و رسوخ اور ملک کی دولت اور دیگر وسائل و ذرائع کااپنی ذات کےلئے اندھا دھند استعمال کیا ۔سیکورٹی کی طاقت کو شرفا کے تعاقب میں استعمال کیا اور ملک کے تمام اداروں کو اپنی پارٹی کا تابعدار بنادیا ۔ہم نے صدر کے اقتدار سے بے دخلی کا بنیادی ہدف حاصل کرلیا ، پھر عبوری طور پر اقتدار مسلح افواج کی جنرل کمان کے حوالے کردی۔ فوج کی جنرل کمان نے بارہا اس بات کا اعادہ کیا کہ موجودہ عبوری نظم قومی حکومت کا متبادل ہرگز نہیں ہے۔ بلکہ یہاں سویلین جمہوری حکومت کو اقتدار سونپنے کا ایک طریق کار تھا ، چنانچہ دستور میں ترمیم کاکام جاری ہوا اور پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں (مجلس عوام اور مجلس شوری)کی تحلیل کے کام کوپایہ تکمیل تک پہنچایا گیا۔" ۔۔
مصر میںیہ سب کچھ آرام سے نہیں ہوا بلکہ اس کےلئے عوام میں قاہرہ کے تحریر اسکوئر میں حکومت مخالفیں اور حامیوں کے درمیان تصادمات ہوئے۔ حسنی مبارک کے بعدگوکہ مصر میں انتخابات ہوئے ۔ لیکن جو صدر عوام کے ووٹ سے منتخب ہو کرآیا ، اس نے اپنے اختیارات میں اضافے کےلئے توجہ مرکوز کے باعث ایک بار پھر تحریر اسکوئر میں عوام کو احتجاج پر اکھٹا کردیا۔عدلیہ کیجانب سے صدارتی احکامات ہر ہڑتال، اور پھر استصواب رائے کے ذریعے عوام سے رائے مانگیگئی۔ اہم توجہ طلب بات یہ ہے کہ عوامی انقلاب کسی ایک جگہ پر نہیں تھا جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حکومت مصر نے تین شہروں قاہرہ، اسکندریہ اور سوئز میں احتجاجی مظاہروں کا بعد کرفیو بھی نافذ کردیا تھا جس سے عوام کے غیض وغضب کے شدت کا اندازہ بخوبی لگا یا جاسکتا ہے۔سابق مصری صدر حسنی مبارک نے 1973ءمیں فوجی قیادت کے ذریعہ حکومت کی تشکیل دی تھی۔انقلاب کا مقصد یہ رہا کہ تما م عالمی دستوروںمیں موجود اس دفعہ کو مصر میں بھی نافذ کیا جائے ،جس کی رو سے حکومت عوام کرتے ہیں۔انقلاب کا مقصد عوام کو اقتدار میں لانا تھا تاکہ تمام ہی اقتدار کا منبع عوام بن جائیں۔مصر میں پاکستان کی طرح طویل عرصے سے فوج سیاست میں براہ راست مشغول رہی ہے۔جس کے نتیجے میں مصر کی طرح پاکستان کو بھی ایک جدید جمہوری ملک بنانے اور حقیقی عدل و انصاف کے حصول میں کامیابی نہیں مل سکی ۔ایک فرد کے اقتدار کے نتیجے میں مصر کی طرح پاکستان کو بھی بہت سے خطرناک حادثات سے بھی دوچار ہونا پڑا۔ تاہم اب پاکستان میں موجودہ سیاسی صورتحال کافی مختلف ہے۔پاکستان میں اسلام آباد کے تحریر اسکوئر کے مثل دھرنے کو مصری انقلاب سے مثل تعبیر کیا جارہا ہے کہ آئین میں ہوتے ہوئے اصلاحات ،پھر شفاف انتخابات تک روٹ میپ کا مطالبہ پورا ہونے تک جاری رہے گا ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان میں جتنے بھی مسائل ہیں ۔جن میں سر فہرست انتہا پسندی ، معاشی بدحالی ،بدامنی، کرپشن، مہنگائی، سیاست میں عسکری اداروں کے سربراہوں کی مداخلت اور امریکی غلامی میں پاکستان میںارباب اختیار کی شاہ پر ستی کی وجہ سے پیدا ہوئے۔جمہوری اداروں کی کمزوری میں بد قسمتی سے ایسے ادارے ملوث ہوئے جن کا کام سیاست کے بجائے ملکی کی سرحدوں کی حفاظت کرنا تھا۔مختلف حلقے14جنوری کو اسلام آباد مارچ کے حوالے سے تحفظات کااظہار کر رہے ہیں کہیں پورے ملک کا امن وسکون کا ماحول خطرہ میں نہ پڑ جائے ، اسی طرح فوج کی مداخلت خود ایک بڑا چیلنج بن جائے گا کہ وہ وطن اور اہل وطن کے حق میں اپنی فرائض اداکرے ، انتہا پسندی کا مقابلہ کرے یاافغانستان ، بھارت کی جانب سے در اندازیوں کو روکے ،اپنی ملکی ، شمالی ، مغربی سرحدوں کی حفاظت کرے یا پاکستان کی بد حال معاشی صورتحال کو سنبھالے۔اس بات کا بھی اندیشہ ہے کہ ملکی اقتصادی بحران میں اضافہ ہوسکتاہے۔ملکی معیشت مزید برباد ہوسکتی ہے۔سب اہم نکات یہ ہیں کہ اس انقلاب کی آڑ میں فوج کے موافق رخ اختیار بھی ہوسکتی ہے۔دیگر انقلابات کی طرح اس انقلاب میں انتہا پسندی کا بڑھتا ہوا رجحان فروغ پا سکتا ہے۔انقلاب کبھی پر امن نہیں ہوتا ۔اسلئے انقلاب کے بڑھتے اثرات کے سلسلہ میں علاقائی و بین الاقوامی پابندیوں کا سامنا بھی ہوسکتا ہے۔اس بات کا ڈر بھی ہے کہ گرتی ہوئی معیشت اور بڑھتی بےروزگاری ، جس کے نتیجے میں خطرہ ہے کہ کہیں بے روزگار اورفاقہ کش افراد اس انقلاب کے ردعمل میں خانہ جنگی کی جانب مائل نہ ہوجائیں۔سب سے بڑا اہم مسئلہ امن کا قیام ہوگا ۔کیونکہ اب تک جتنے انقلاب ہوئے ہیں اپنے مقامی شہروں میں ہوئے ہیں اور دھرنے کے حد تک تو ٹھیک ہے لیکن نظام کی تبدیلی تک متواتر ،غیر متعین عرصے تک مقامی محاذ چھوڑ کرپاکستان کی مہنگے ترین شہر جانا ، خود ایک بڑا امتحان ہے۔اس قسم کے انقلاب سے ہمیشہ امریکہ اوصہیونی دخل اندازی اور انقلاب کو اپنے مقاصد کےلئے اچک لینے کی روایات رہی ہے۔ جس پر منتظمین کوبھی غور کرنا ہوگا۔ عرب ممالک میں حکومت مخالف قوتوں کو بھاری اسلحے کی فراہمی اور خانہ جنگی میں امریکی کردار کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔انقلاب کے مقاصد اورعوام کے مطالبات کو ایک معقول مدت میں پورا کرنے تک ایک جذبے اور حکمت عملی کی ضرورت ہوتی ہے۔مصری عوام نے یکجا ہوکر ایک قوم بن کر انقلاب کے مقاصد کو بروئے کار لاکر کامیاب بنانے میںایک جمہوری تبدیلی کےلئے کوشش کی ۔پاکستانی عوام میں مصری قوم کی طرح اتفاق نہیں ہے۔کہ وہ مصر کی طرح ایک آزاد اور خود مختار بنانے کے لئے اور روٹی اور امن و سکون نصیب ہو۔امن و سکون اور روزی روٹی ، ترقی اور آزادی ، عدل اور مساوات ،مستقل عدالتی اور فوجی نظام جوملک کا تحفظ کرسکے،یہ وہ امنگیں ہیں جو ایک صحیح قانونی حکومت کی بنیاد ہوتی ہیں،ایسی حکومت جہاں جمہورےت ہو ،انسانی حقوق کا احترام ہو ، آزادی اور عدل و انصاف ہو ،مصر میں اخوان المسلمین کے سابق رکن کمال الہلیاوی نے سعودی عرب کی پالیسوں پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ آل سعود نے مصری انقلاب کے خلاف جنگ میں حصہ لیا اور عالم اسلام کے بارے میں سعودی عرب کی پالیساں امریکی پالیسوں پر استوار ہیں۔انھوں نے مزید کہا کہ سعودی حکومت اس وقت امریکہ کے تسلط میں ہے اور سعودی حکام امریکی نوکر ہیں ، سعودی حکمران وہی کرتے ہیں جوامریکہ ان سے چاہتا ہے ۔انھوں نے سعودی حکومت کو مصری حکومت کو امریکی غلامی سے نجات دلانے کے لئے مطالبہ کیا تھا۔مصری عوام کا ماننا ہے کہ تحریراسکوئر کی کامیابی نے امریکی پالیسوں کی کمر توڑ دی ہے۔جبکہ پاکستان میں امریکہ مخالف لابی صرف عوام میں ہے۔انتخابی انتخابات کے اصلاحات کی کامیابی کےلئے موجودنظام میں عوام کو براہ راست شرکت کرنا ہوگی اور اس کے لئے پاکستان کے ہر شہر میں ایک تحریر اسکوئر بنانا ہوگا۔جس کے بعد ہی ممکن ہے کہ شائد مصری انقلاب کا کوئی تصور کامیاب ہوسکے۔جب تک مملکت کے ہر شہری میںفکر و تدبر پیدا نہیں ہوگا اس وقت تک پاکستان میں انقلاب آنے میں وقت لگے گا۔لیکن اسلام آباد تحریر اسکوئر بنے گا یا نہیں یہ فیصلہ وقت کریگا۔
Qadir Afghan
About the Author: Qadir Afghan Read More Articles by Qadir Afghan: 399 Articles with 296681 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.