تحریر : محمد اسلم لودھی
پاکستانی قوم اس وقت کرپٹ ، خائن ، بدکردار اور جعلی ڈگریوں والے ان پڑھ
سیاست دانوں کی وجہ سے مسائل کی دلدل میںکچھ اس طرح پھنس چکی ہے کہ نجات کا
کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا ۔ اس کے باوجود کہ قوم حصول انصاف اور کرپشن
کے خاتمے کے لیے چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چودھری کی جانب پرامید
نظروں سے دیکھ رہی ہے لیکن دوسری جانب عوام عدالت عظمی کے نااہل کردہ سیاست
دانوں کو ایک بار پھر ووٹ دے کر اسمبلیوں میں پہنچا دیتے ہیں ۔ اس سے ظاہر
ہوتا ہے کہ عوام کو اپنے ووٹ کے استعمال اور نمائندے منتخب کرنے کا ہرگز
شعور نہیں ہے بلکہ برادری اور پارٹی سسٹم بطور خاص دیہی علاقوں میں کچھ اس
طرح مستحکم ہوچکا ہے کہ پارٹی کوئی بھی ہو کامیابی مقامی جاگیرداروں ، رسہ
گیروں اورطاقتور سرداروں یا ان کے حمایت یافتہ لوگوں کو ہی ملے گی اور یہ
کھیل گزشتہ 64 سالوں سے جاری ہے ۔ اس وقت پاکستان میں تین بڑی جماعتیں
پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف الیکشن کے لیے پر تول رہی ہیں ۔یہ
تینوں جماعتیں الیکشن میں کامیابی کے لیے جیتنے والے بد سے بدترین اور کرپٹ
امیدواروں کو اپنی پارٹی میں شامل کرنے کی ہر ممکن جستجو کررہی ہیں ۔گویا
بدعنوان ،جعلی ڈگری ہولڈر اور کرپشن کے الزام میں عدالتوں سے نااہل ہونا
کوئی گناہ نہیں سمجھاجا رہا ۔جب سیاسی جماعتوں کی کسوٹی اور میعار یہ ہوگا
تو پہلے کی طرح وہی چور ، اچکے ، بددیانت اور کرپٹ لوگ ایک بار پھر ووٹ لے
کر اسمبلیوں میں پہنچ جائیں گے تو پاکستان کے حالات کیسے بدلیں گے۔ ہونا تو
یہ چاہیئے کہ تمام سیاسی جماعتیں اس بات پر متفق ہوں کہ جتنے بھی امیدوار
میدان اتریں ان کا ماضی ،حال ہر قسم کی کرپشن ، بددیانتی سے نہ صرف پاک ہو
بلکہ وہ اعلی تعلیم یافتہ اور عوامی مسائل و وسائل کا ادراک بھی رکھتے ہوں
۔اب یہ کام آزاد الیکشن کمشنر کو ہی کرنا پڑے گا کہ الیکشن لڑنے والا شخص
کرپشن ، بددیانتی ، چوری ، ڈاکے یا کسی فوجداری مقدمات میں ملوث یا سزا
یافتہ تو نہیں ہے اور اس کی وفاداریاں کسی دوسرے ملک کے ساتھ تو نہیں ہیں ۔
یہ سکینگ الیکشن سے بہت پہلے کرنی ہوگی وگرنہ وہی چور اچکے پیپلز پارٹی ،
مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کی جانب سے منتخب ہوکر اسمبلیوں میں ایک بار
پھر پہنچ جائیں گے ۔علاوہ ازیں الیکشن سے پہلے بے رحم احتساب بھی وقت کی
اہم ضرورت ہے ۔ مشرف دور میں احتساب کا شوشہ چھوڑا تو گیا تھالیکن احتساب
مذاق سے زیادہ کچھ نہیں تھا کرپٹ لوگوں کی اکثریت سیاسی وفاداریاں تبدیل
کرکے احتساب سے بچ گئی اور ق لیگ کی شکل میں پہلے مشرف دور میں اقتدار کے
مزے لوٹتی رہی اور آج پیپلز پارٹی کی بی ٹیم بن کر نہ صرف اپنی اور اپنے
ساتھیوں کی کرپشن کو تحفظ فراہم کررہی ہے بلکہ موجودہ حکومت کے جرائم میں
برابر کی شریک ہے۔ یہ عرض کرتا چلوں کہ کرپشن صرف سیاست دان ہی نہیں کرتے
سرکاری افسروں،سابق جرنیلوں اور ججوںنے بہتی گنگا میں خوب ہاتھ رنگے اور
ابھی تک ہر قسم کی گرفت سے آزاد ہیں ۔اب جبکہ پیپلز پارٹی کے بدترین اور
کرپٹ ترین ساڑھے چار سالہ دور میں کرپشن اوپر سے لے کر نیچے تک سرایت کرچکی
ہے اور شاید ہی کوئی سرکاری افسر اور عوامی نمائندہ ایسا ہوگا جس کاہاتھ
پڑتا ہو اور اس نے فائدہ نہ اٹھایا ہو وگر نہ پیپلز پارٹی اور اس کے اتحادی
جماعتوں کے ارکان اسمبلی نے کرپشن کو ذاتی حق تصور کرکے اندھیر مچارکھا ہے
۔اس وقت جبکہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین کرپشن کے الزام میں
الجھے ہوئے ہےںاور ایک دوسرے پر کرپشن ، منی لانڈرنگ اور سوئس بنکوں میں
60ملین ڈالرچھپانے کے الزامات لگارہے ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ الیکشن
سے پہلے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے اور کرپشن سے پاک لوگ ہی
میدان الیکشن میں اتریں ۔اب سوال سے یہ پیدا ہوتاہے کہ بے رحم احتساب کون
کرسکتا ہے اس مقصد کے لیے افتخار محمدچودھری سے زیادہ جرات مند اور بے باک
انسان اور کوئی نظر نہیں آتا ۔ اس لیے چیف جسٹس کی صدارت میں نگران حکومت
قائم کر کے پہلے تمام سیاست دانوں ، ریٹائرڈ جرنیلوں، ججوں اور سرکاری
افسروں کا احتساب کرکے مجرموں کو کیفر کردار پہنچا کر ہمیشہ کے لیے نااہل
قرار دیاجائے پھر الیکشن کروائے جائیں ۔ اس لیے کہاجاسکتا ہے کہ پاکستانی
قوم کا مسئلہ الیکشن نہیں بے رحم احتساب ہے جو افتخار محمد چودھری کے علاوہ
اور کوئی نہیں کرسکتا ۔ بعد ازاں مسائل سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے ڈاکٹر
عبدالقدیر خان سے زیادہ موزوں شخص اور کوئی دکھائی نہیں دیتا جنہوں نے
انتہائی نامساعد اور ناموافق حالات کے باوجود انتہائی کم تنخواہ پر کامیاب
ایٹمی دھماکے کرکے پاکستان کو ناقابل تسخیر کردیا ہے اور اگر اب پاکستانی
عوام برادری اور پارٹی سسٹم سے بالاتر ہوکر ملک کو بچانے کے لیے ڈاکٹر
عبدالقدیر خان کے نامزد کردہ امیدواروں کو ووٹ دیتی ہے تو مجھے یقین ہے کہ
پاکستان کو مسائل کی دلدل سے نکالنے میں وہ کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے ۔ضرورت
اس بات کی ہے کہ پاکستانی قوم ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور افتخار محمد چودھری
کا بھرپور ساتھ دے ۔جو حقیقت میں پاکستانی قوم کے نجات دھندہ ثابت ہوسکتے
ہیں ۔ |